15مارچ کو یوحنا آباد لاہور میں دو گرجا گھروں پر خودکش حملوں میں‘ 15افراد ہلاک اور 79 سے زائد زخمی ہوگئے۔ ملک کے تمام نمایاں سیاسی اور مذہبی رہنماؤں نے سانحہ کی بھر پور مذمت کی۔ امریکی سفارتخانے اور پوپ فرانسس نے بھی اس سانحہ پر گہرے رنج وغم کا اظہار کیا۔ سانحے کے بعد مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد مشتعل ہوگئے۔ انہوں نے بڑی تعداد میں نجی اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کی اور دو افراد کو نذر آتش کر دیا۔ موقع پر موجود پولیس اہلکاروں پر بھی تشدد کیا۔ بعد کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ جلائے جانے والے دونوں افراد بے گناہ تھے اور یوحنا آباد میں دکاندار تھے۔
اس سانحے کے بعد میں نے مناسب سمجھا کہ اسلامی تعلیمات اور آئین پاکستان کی روشنی میں اقلیتوں کے حقوق وفرائض کے حوالے سے چند اہم نکات قارئین کے سامنے رکھے جائیں۔ اسلام فلاحی ریاست کے قیام میں یقین رکھتا ہے ،جس میں بسنے والے کسی بھی شہری کی جان ،مال اورعزت کو کسی قسم کا کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔اسلامی معاشرے میں بسنے والی تمام اقلیتوں کو اپنی مذہبی تعلیمات اور رسومات پر عمل پیرا ہونے کی مکمل اجازت اور انہیں مذہبی اختلافات کے باوجود تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ غیر مسلموں کو دینِ اسلام کی تبلیغ تو کی جاسکتی ہے اور کرنی چاہیے مگر البقرہ کی آیت 256کے مطابق ان کو قبولِ اسلام پر مجبور نہیں کیا جاسکتا۔غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کے بارے میں معاندانہ جذبات رکھنے کی بھی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔اللہ تعالیٰ نے سورہ حج کی آیت نمبر 40میں ارشاد فرمایا:''اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں ،گرجے ، عبادت خانے اور مسجدیں جن میں اللہ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے ڈھا دی جائیں ‘‘مذکورہ آیت اس امر پر دلالت کر تی ہے کہ کسی بھی مذہب کی عبادت گاہوں کو منہدم کرنا جائز نہیں ہے اور اہل ِ اسلام کو اقلیتوں کے ساتھ رواداری کے ساتھ رہنا چاہیے۔
غیر مسلموں کے ساتھ سماجی تعلقات کی بنیاد انصاف اور عدل پرہے۔ مسلمانوں کو اپنی اکثریت ،سماجی اور سیاسی حیثیت اور طاقت کا فائدہ اْٹھا کر غیر مسلموں کی حق تلفی نہیں کر نی چاہیے۔اگرکبھی مسلم اور غیر مسلم کا کاروباری اور سماجی معاملات میں تنازع ہوجائے تو مسلمانوں کوصرف مذہبی اختلاف کی وجہ سے غیر مسلموں کے ساتھ زیادتی نہیں کرنی چاہیے۔اگر غیر مسلم اہلِ کتاب ہوں تو مسلمانوں کے معاملات ان کے ساتھ مزید بہتر ہونے چاہئیں۔سورہ مائدہ کی آیت 5میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اہلِ کتاب کی پاک دامن عورتوں سے نکاح کرنے کی بھی اجازت دی ہے۔اہلِ کتاب کے دسترخوان سے پاک اور حلال غذا کھانابھی مسلمانوں کے لئے درست اور جائزہے۔اللہ تعالیٰ نے سورہ عنکبوت کی آیت نمبر 46میں مسلمانوں کو تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اہل کتا ب سے مذہبی اختلاف کرنے کا حکم دیا ہے اور سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر 64میں ان کو کلمہ توحید کی بنیاد پرمسلمانوں کے ساتھ اکٹھے ہونے کی دعوت دی ہے۔ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو اس حقیقت سے بھی باخبر کردیا گیا ہے کہ اہلِ کتاب مسلمانوں سے اْس وقت تک راضی نہیں ہوسکتے جب تک مسلمان ان کی ملت کو اختیار نہیں کرلیتے۔اہلِ کتاب کی اس کج روی کے باوجوداہلِ اسلام کوان سے نرمی کا برتائو جاری رکھنا چاہیے اور ان کو متواتر دین حق کی دعوت دیتے رہنا چاہیے۔اس تبلیغ ِ دین کے نتیجے میں مختلف ادوار میں بہت سے باشعور مسیحی اوریہودی افراد نے اسلام کی دعوت قبول کی اور تاحال کر رہے ہیں۔انگلستان میں عبدالرحیم گرین اور یوسف چیمبرز،کینیڈا میں بلال فلپس اور امریکہ میں یوسف ایسٹس کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔یہ تمام لوگ مسیحی پسِ منظر سے تعلق رکھتے تھے لیکن قرآن وحدیث کا مطالعہ کرنے بعد مشرف بہ اسلام ہو گئے۔
پاکستان کا معاشرہ اگرچہ مثالی اسلامی معاشرہ نہیں ہے اور اس میں بہت سی کمزوریاںپائی جاتی ہیں لیکن مجموعی لحاظ سے پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہے۔چند برس قبل بشپ آف لاہورڈاکٹر الیگزینڈر جان ملک سے 25دسمبرکو مسیحیوں کی عیدکے روز اقلیتوں کے حقوق پر ایک ٹی وی مذاکرہ ہو ا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو گلہ تھا کہ پاکستان میں مسیحی برادری کو مکمل حقوق نہیں مل رہے۔ اْس وقت میں نے ان کے سامنے بعض ٹھوس شواہد رکھے تھے کہ پاکستان میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں۔میں نے ان کے سامنے کچھ نکات رکھے جن کا خلاصہ کچھ یوں تھاکہ پاکستان کے انتخابات میں مسلمان مسلمانوں کے حلقہ انتخاب میں ووٹ کاسٹ کر سکتے ہیں جب کہ مسیحی برادری کے پاس ووٹ ڈالنے کا دوہراحق ہے۔وہ اپنے مخصوص نمائندوں کے حق میں بھی ووٹ استعمال کر سکتے ہیںاورعام انتخاب میں بھی ووٹ ڈال سکتے ہیں۔مسیحی مشنری سکولوں کو اپنی تعلیمی اور تدریسی سر گرمیاں جاری رکھنے کی مکمل آزادی ہے۔ فقط لاہور شہرمیں ان کے کئی اعلیٰ معیار کے ادارے موجود ہیں۔ ان اداروں میں سینٹ انتھونی، کیتھیڈرل، کانونٹ اور کوئین میری سکول نمایاں ہیں۔ اور ان تمام اداروں میں متمول مسلما ن گھرانوں کی بڑی تعداد تعلیم حاصل کر رہی ہے۔مسیحی برادری کے لیے سرکاری ملازمتوں کا کوٹہ بھی مقرر کیا گیا ہے اور وہ اوپن میرٹ پر بھی ملازمت کی درخواست دے سکتے ہیں۔
اسی طرح پاکستان کے مسلمان قانونی طور پر نشہ آور اشیا ء کو استعمال نہیں کر سکتے جبکہ مسیحیوں کے پاس شراب کے پرمٹ بھی موجود ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے اس موقع پر کہا تھا کہ ان پرمٹوںسے مسلمانوں کی بڑی تعداد استفادہ کر رہی ہے۔ میںنے جواباً کہا تھا کہ اگر مسیحیوں کے نام پر پرمٹ جاری نہ ہوں تو بدعمل مسلمانوں کو کبھی شراب پینے کی ہمت نہیں ہو سکتی۔اسی طرح ایک اور معروف مسیحی رہنما کے ساتھ ہونے والے مذاکرے میں‘ میںنے یورپ میں بعض ہوائی اڈوں پرقائم امیگریشن کائونٹرز پرمسلمانوں کے ساتھ ہونے والے جانبدارانہ سلوک کا تذکرہ کیاتو انہوں نے کہاکہ ایسا داڑھی اور پردے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ میں نے جواب میں کہا تھا کہ آپ نے گرجا گھروں میںحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے جو مجسمے اورتصاویر نصب کر رکھی ہیں وہ توداڑھی اور لمبے بالوںوالی تصاویر ہیں۔ اگر عیسیٰ علیہ السلام داڑھی اور لمبے بال رکھتے تھے تو مسیحیوں کواس مسئلے میں مسلمانوں سے اختلاف کیوں ہے۔ اسی طرح میں نے کہاکہ سیدہ مریم علیہا السلام کے مجسمے اور تصاویر کو دیکھ کر کسی دین دار مسلمان عورت کا گمان ہوتا ہے اس لئے ہمیں داڑھی اور پردے کے بارے معاندانہ رویہ نہیں رکھنا چاہیے۔
اہل ِ اسلام اوراہلِ پاکستان کا عمومی رویہ تمام اقلیتوں اور بالخصوص مسیحیوں کے بارے میں انتہائی فراخ دلانہ ہے اورماضی میں مسیحیوں نے بھی بالعموم منفی طرز عمل کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن سانحہ یوحنا آباد کے بعد جس اشتعال انگیزی کا مظاہرہ کیا گیا وہ کسی بھی طور پر درست اور جائز نہیں۔اگر اقلیتوں کے حقوق ہیں تو ان پر بہت سی ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔ اقلیتوں کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ملک کے آئین اور قانون کا احترام کریں اور خواہ مخواہ کی اشتعال انگیزی اور قانون شکنی کا مظاہرہ نہ کریں اور منفی طرز عمل کا مظاہرہ کرنے والی کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں سے باہر نکال کر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کریں تاکہ ان پر لگنے والی بدامنی اور فساد کی تہمت کا ازالہ ہوسکے۔ ان پر دوسری ذمہ داری یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کے معروضی حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ ملک ایک عرصے سے دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور ملک کے ہر مقام پر دہشت گردی کی کارروائیاں کی گئی ہیں۔ حالیہ حملے بھی اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کی کارروائی ہے جن میں کسی بیرونی سازش کے امکانات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستانی عوام کی اکثریت چونکہ مسیحیوں کے بارے معاندانہ جذبات نہیں رکھتی اس لیے مسیحی برادری کو بھی کسی سانحے پر پاکستانی مسلمانوں کے خلاف نفرت وجارحیت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔
اگر اقلیتیں اپنے حقوق چاہتی ہیں تو انہیں اپنی ذمہ داریوں کو بھی ادا کرنا ہوگا۔ اگر انہوں نے ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ نہ کیا تو ملک میں مذہبی ہم آہنگی کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہوجائے گا۔پر امن معاشرے کے قیام کے لیے قانون کا احترام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرنا بیک وقت اکثریت اور اقلیت کی ذمہ داری ہے اور ہر دو طبقات کے ذمہ دارانہ رویوں کے بغیر معاشرہ امن وسکون کا گہوارہ نہیں بن سکتا۔