"AIZ" (space) message & send to 7575

دعا ‘مومن کاہتھیار

دور حاضر کا انسان مختلف قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ کوئی اولاد کی نعمت سے محروم ہے تو کوئی مالی مشکلات کا شکار ہے، کوئی نفسیاتی مسائل کا شکار ہے تو کوئی صدمات کی زد میں ہے۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لیے انسان اپنی عقل، شعور اور مادی وسائل کو بروئے کار لاتا ہے لیکن بالعموم ان روحانی ذرائع کو استعمال نہیں کرتا جن کی اہمیت کو اللہ اور اس کے رسولﷺ نے قرآن وسنت میں واضح کیا ہے۔ انہی اسباب میں سے ایک اہم سبب اللہ کے حضور آکر گڑگڑا کر دعا مانگنا ہے۔اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 186میں ارشاد فرماتے ہیں ''جب میرے بندے آپ سے میرے بارے میں سوال کرتے ہیں تو (کہہ دیں )میں قریب ہوں ،میں جواب دیتا ہوں ہر پکارنے والے کی پکارکا‘ جب وہ مجھے پکارتا ہے۔‘‘
قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے مختلف انبیاء علیہم السلام کی دعاؤں کا ذکر کیا ہے۔حضرت آدم ؑ شجر ممنوعہ کا دانہ کھانے کے بعداللہ کے حکم سے زمین پر اتارے گئے تو انہوں نے اپنی بیوی سیدہ حوا ؑ کے ہمراہ دعا مانگی ''اے ہمارے پروردگار ! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا۔ اگر آپ نے ہم پر رحم نہ کیا اور ہمیں معاف نہ کیا تو یقینا ہم خسارہ پانے والوں میں شامل ہو جائیں گے ‘‘۔اس دعا پر اللہ تبار ک و تعالیٰ نے آپ ؑ کی توبہ کو فوراً قبول فرما کر آپ پر اپنے فضل عظیم کا نزول فرما دیا تھا۔اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت نوح ؑکے واقعہ کا قرآن مجید کے متعددمقامات پرذکر کیا ہے۔سورہ قمر میںاللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب آپ ؑ کی قوم کے لوگو ں نے آپ ؑ کو جھٹلایاتو آپ ؑنے اپنے پروردگار سے دعا مانگی ''میں مغلوب ہوں پس تو میری مدد فرما‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ ؑ کی دعا قبول فرماتے ہوئے آسمان اور زمین سے پانی جاری فرما دیا۔ آسمان سے اترنے اور زمین سے نکلنے والے پانی کی زد میں آکر کافر تباہ و برباد ہوگئے جبکہ آپ ؑ کی دعوت قبول کرنے والے لوگ کشتی میں بیٹھ کر آپ ؑ کی ہمراہی میں نجات پا گئے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ ؑکی متعدد دعاؤں کا ذکر بھی قرآن مجید میں کیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے سورہ قصص میں یہ واقعہ بیان فرمایا کہ جب فرعونی قوم کے ایک فرد کے قتل کی وجہ سے فرعون کے ہرکارے آپ ؑ کا تعاقب کرتے ہیں تو جناب موسیٰ ؑ اپنی بستی چھوڑ کر مدین کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔مدین کے گھاٹ پر پہنچ کر آپ ؑ نے ایک عجیب منظر دیکھا کہ لوگ پانی نکال رہے ہیںاور دو لڑکیا ں پانی نکالنے سے قاصر ہیں۔ حضرت موسیٰ ؑ نے اس موقع پران لڑکیوں کے لیے پانی نکالا اور سائے میں آکر پروردگارعالم کی بارگاہ سے خیر طلب کی۔ اجنبی شہر میں اللہ تعالیٰ نے جنا ب موسیٰ ؑ کی اس طرح مدد فرمائی کہ آپ ؑ کے لیے رشتے کا بندوبست فرما دیا اورپردیس کو آپ ؑ کے لیے دیس بنا دیا۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ انبیاء میں حضرت یونس ؑ کا واقعہ بیان فرما یا کہ جب آپؑ تہہ بحر ظلمات مچھلی کے پیٹ میں تھے‘ آپؑ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں آکر دعا مانگی ''اے اللہ ! تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔تیری ذات پاک ہے اس تکلیف سے جو مجھ کو پہنچی ہے‘ بے شک میں ہی خطا کار تھا ‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یونس ؑ کی دعا قبول فرماتے ہوئے آپ ؑکے غم کو دور فرما دیا اور ساتھ ہی یہ بھی واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اسی طرح اہل ایمان کے غموں کو دور فرماتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ انبیاء میں حضرت ایوب ؑ کا واقعہ بھی بیان فرمایا ہے۔حضرت ایوب ؑ کو طویل بیماری کا سامنا کرنا پڑا۔ اس طویل بیماری کے نتیجے میں آپ ؑ کے اہلخانہ نے بھی آپ ؑ کی خدمت سے ہاتھ کھینچ لیے۔چنانچہ حضرت ایوبؑ نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ سے رحمت طلب کی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوبؑ کو اپنے فضل سے تندرستی اور تونگری عطا فرمادی اور نقصان کو اس طرح پوراکیا کہ جو تلف ہوا وہ بھی واپس فرما دیا اور اتنا ہی اوربھی عطا فرما دیا۔حضرت سلیمان ؑ حضرت داؤد ؑ کے وارث اور جانشین تھے‘ سورہ ''ص ‘‘میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ ؑ کی دعا کا ذکر کیا کہ آپ ؑ نے پروردگار عالم سے دعا مانگی کہ ''اے میرے رب مجھ کو بخش دے اور مجھ کو ایسی حکومت عطا فرما جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو ‘‘۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپ ؑ کی دعا کو اس انداز میں پورا فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جانور وں، پرندوں ،جنوں اور حشرات الارض کو آپ ؑ کے تابع فرما دیا اور آپؑ کے دربار میںان تمام مخلوقات کے نمائندگان کو حاضری کا پابند بنا دیا۔
حضرت زکریا ؑسیدہ مریم ؑ کی کفالت کیا کرتے تھے۔ سورہ آلِ عمران میںاللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایاکہ جب آپؑ اس محراب میں داخل ہوئے جس میں سیدہ مریم ؑ اللہ تعالیٰ کی عبادت کیا کرتی تھیں، آپ ؑ نے سیدہ مریم ؑ کے پاس بے موسم کے پھل پائے۔حضرت زکریا ؑ بے اولاد اور آپ ؑ کی بیوی بانجھ تھیں۔جوانی میں اولاد کی نعمت حاصل نہ ہوسکی لیکن سیدہ مریم ؑکے پاس بے موسم کے پھل دیکھ کر آپ ؑ کے ذہن میں خیال آیا کہ جو رب سیدہ مریم ؑکو بے موسم کے پھل دے سکتا ہے وہ رب بڑھاپے میں اولاد کیوں نہیں دے سکتا۔ آپ ؑ نے اللہ عزوجل سے ایک نیک بیٹے کی دعا مانگی جوکہ نبوت و رسالت کے منصب جلیلہ پر بھی فائز ہو۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے آپؑ کی دعا قبول فرماتے ہو ئے آپؑ کو سیدنا یحییٰ ؑجیسا عظیم بیٹا عطا فرما دیا۔یحییٰ ؑ نام کا بیٹا اْس سے قبل بنی اسرائیل میں پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ آلِ عمران میں سیدنا یحییٰ ؑ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے کہا: وہ سردار تھے ،عورتوں سے بے رغبتی رکھنے والے ، سیدنا عیسیٰ ؑ کی تصدیق فرمانے والے اور صالح نبی تھے۔
حضرت رسول اللہﷺ بھی اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ دعائیں مانگا کرتے تھے۔آپ ﷺ نے اپنی اْمت کے لوگوں کو ہر موقع پردعا مانگنے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ نبی علیہ السلام بستر پر جاتے ہوئے ،نیند سے بیدار ہوتے ہوئے ، وضو کرتے ہوئے ،مسجد میں داخل ہوتے ہوئے ،مسجد سے نکلتے ہوئے اور سواری پر بیٹھتے ہوئے مختلف دعائیں مانگا کرتے تھے۔آپ ﷺ کی تمام دعائیں کتب احادیث میں موجود ہیں۔ ان تمام دعاؤں کو مانگنے کے نتیجے میںہمارے تمام معاملات میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکات شامل ہو سکتی ہیں جبکہ دعاؤں سے غفلت برتنے کی صورت میں ہم زندگی کے بہت سے معاملات میں خیر وبرکات سے محروم رہ جاتے ہیں۔
آج ہمارا معاشرہ بہت سے روحانی ،معاشی ،معاشرتی اور سیاسی مسائل کی زد میں ہے جس کی بہت بڑی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ہمیں اپنے معاملات کو جہاں حسن تدبیرسے حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے وہیں پراللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت ضرور طلب کرنی چاہیے۔ جب انسان کی نیت نیک ہو اور اللہ تعالیٰ کی نصرت ساتھ ہو تو اللہ تعالیٰ مشکلات کو دور فرما کر منزلوں کو قریب کر دیتے ہیں۔
حضرت یونس ؑاپنی قو م سے ناراض ہو کر چلے گئے تھے۔ حضرت یونس ؑکی قوم اپنی غلطی پر نادم ہوئی اور انہوں نے اجتماعی طور پر اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جس پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے عذاب کو ٹال دیا۔ اس کے بالمقابل حضرت نوحؑ، حضرت ہودؑ، حضرت صالح ؑ، حضرت لوطؑ اور حضرت شعیب علیہم السلام کی اقوام اپنی غلطیوں پر بضد رہیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کا وجود صفحۂ ہستی سے مٹاکر ان کو قصۂ پارینہ بنا دیا تھا۔
دعا مومن کا ہتھیار اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کے حصول کا عظیم ذریعہ ہے اور ہمیں اصلاح احوا ل کے لیے مادی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اس ہتھیار کو بھی فراوانی سے استعمال کرنا چاہیے اور اس کار خیر کا آغاز کرنے میں معمولی سی تاخیر بھی نہیں کرنی چاہیے۔ تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے ساتھ باآسانی اپنے جملہ مسائل کو حل کر سکیں۔اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں کثرت سے دعائیں مانگنے والے لوگوں میں شامل فرمائے۔ آمین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں