چند روز قبل ایوان صدر کے ایک ذمہ دار انعام الٰہی صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا اور 28مارچ ہفتہ کی شام کو ایوان صدر میں ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ صدر پاکستان ملک کے کچھ نمایاں علماء کے ساتھ شام کا کچھ حصہ گزارنا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ ملک اقتصادی اعتبار سے جس بحران کا شکار ہے اس کی ایک اہم وجہ'' کرپشن‘‘ پر قرآن وسنت کی روشنی میں کچھ گفتگو کی جا سکے۔ موضوع کی اہمیت کے پیش نظر میں نے انعام الٰہی صاحب کو تقریب میں شرکت کی یقین دہانی کرائی۔ ہفتہ کی رات مجھے فیصل آباد میں بھی ایک پروگرام سے خطاب کرنا تھا۔ اس لیے میں نے مناسب سمجھا کہ وقت سے کچھ پہلے اسلام آباد پہنچا جائے تاکہ اسلام آباد میںکچھ آرام بھی کیا جا سکے اور تازہ دم ہو کر ایوان صدر کی تقریب میں شرکت کی جا سکے۔ میں نے جمعہ کی رات کے آخری حصے میں سفر کا آغاز کیا اور صبح کے وقت اسلام آباد جا پہنچا۔ فجر کی نماز با جماعت ادا کرنے کے بعدکچھ دیر قریبی احباب سے گفتگو کی اور اس کے بعد محو آرام ہو گیا۔ ہفتہ کی دوپہر ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد میں بلیو ایریا میں واقع ایک معروف ہوٹل کی سمت روانہ ہوگیا۔ اسی ہوٹل سے ہی چار بجے ہم نے ایوان صدر روانہ ہونا تھا۔ ہوٹل کے استقبالیہ کاؤنٹر پر ایوان صدر کے نمائندگان علماء کا پرتپاک انداز میں استقبال کر رہے تھے۔ انہوں نے میرا بھی استقبال کیا اور دوپہر کے کھانے کے لیے میری رہنمائی ہوٹل کے خوبصورت ڈائننگ ہال کی طرف کی۔ڈائننگ ہال میں لگی میزوں پر مختلف علماء کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ ایک میز پر مولانا راغب نعیمی اور مولانا نیاز حسین نقوی بھی موجود تھے۔ انہوـں نے مجھے ہال میں داخل ہوتا دیکھ کر اپنی میز پر آنے کی دعوت دی ۔ میں بھی ان کے ٹیبل پر بیٹھ گیا۔ کھانے کے دوران مختلف مسائل پر گفتگو ہوئی خصوصیت سے یمن سعودی عرب تنازعہ، ملک میں جاری دہشت گردی اور ماضی قریب میں ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقوں کے حوالے سے نظریاتی کونسل کی سفارشات پرکافی دیر گفتگو ہوئی ۔
کھانے کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ ایوان صدر میں شرکت کے لیے ملک بھر سے 29علماء کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور یہ تمام علماء اسی ہوٹل میں قیام پزیر تھے۔ کھانا کھانے کے بعد میں بھی کچھ دیر آرام کی غرض سے چلا گیا۔4بجے میرے کمرے کے فون پر بیل بجی۔فون اٹھایا تو بتلایا گیا کہ ایوان صدر کی گاڑیاں علماء کو لینے کے لیے آچکی ہیں چنانچہ علماء روانگی کے لیے تیار ہو جائیں۔
میں نے ہوٹل ہی میں نماز عصر ادا کی اور دیگر علماء کے ہمراہ ایوان صدر کی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ چند منٹ کے بعد ہی ہماری گاڑی ایوان صدر پہنچ گئی۔ سکیورٹی چیک سے گزرنے کے بعد گاڑی نے ہمیں ایوان صدر کے مرکزی دروازے پر اتار دیا۔ مرکزی دروازے پر موجود عملے نے ہمارا گرم جوشی سے استقبال کیا اور ہمارے موبائل فون اپنی تحویل میں لے لیئے۔ تمام علماء گراؤنڈ فلور کی راہ داری سے گزرتے ہوئے لفٹ تک جا پہنچے۔ لفٹ آپریٹر نے میٹنگ ہال کا بٹن دبایا اور آناً فاناً لفٹ میٹنگ ہال والے فلور پر جا پہنچی۔
ہم لفٹ سے باہر نکلے تو ایوان صدر کا سینئر عملہ ہمیں میٹنگ ہال تک لے گیا۔ میٹنگ ہال میں تمام علماء کے لیے نشستیں مخصوص تھیں۔ تمام علماء اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر کے بعد صدر مملکت جناب ممنون حسین وفاقی وزراء سردار یوسف اور پیر امین الحسنات کے ہمراہ تشریف لے آئے۔ جناب صدر نے خود تمام نشستوں پر جا کر علماء سے ملاقات کی اور متعارف بھی ہوئے۔
اس کے بعد تقریب کی باقاعدہ کارروائی کا آغاز ہوا۔ تلاوت قرآن مجید کے بعد سردار یوسف صاحب نے علماء کو پروگرام کی غرض وغایت سے آگاہ کیا ۔ اس کے بعد صدر ممنون حسین نے علماء کے سامنے اپنے خیالات رکھے کہ عصر حاضر میں اقتصادی ترقی کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ ہر آنے والے دورِحکومت میںملکی قرضوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔اس کی جہاں بہت سی دیگروجوہ ہیں وہیں ایک بڑی وجہ مالیاتی کرپشن بھی ہے۔ یہ مالیاتی کرپشن ملک کے لیے ایک ناسور بن چکی ہے اور ملک کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ ایک دور تھا کہ کرپٹ آدمی کو کوئی شخص اپنی بیٹی کا رشتہ بھی نہیں دیتا تھااور معاشرے میں رہتے ہوئے وہ اپنے آپ کوایک مجرم تصور کرتا تھا۔ لیکن اخلاقی انحطاط کی وجہ سے آج ملک میں ایسے لوگ بڑی عزت کی زندگی گزاررہے ہیں۔ صدر صاحب متمنی تھے کہ علماء اس حوالے سے اپنی اپنی تجاویز دیں تاکہ ملک کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچایا جا سکے۔ پیرامین الحسنات نے اس موقع پر ہر مکتبہ فکر کے دو دو علماء کو اپنا موقف بیان کرنے کی دعوت دی۔ تمام علماء نے قومی مسائل کے حوالے سے اپنا اپنا موقف دلائل اور وضاحت کے ساتھ پیش کیا۔ کرپشن کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور بدامنی کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی فحاشی پر بھی کڑی تنقید کی گئی کہ عصر حاضر کا میڈیا اس قدر آزاد ہو چکا ہے کہ کوئی بھی شریف آدمی اپنے خاندان اور اہلخانہ کے ہمراہ نیوز بلیٹن بھی نہیں دیکھ پاتا۔ ان تمام امور پر کی جانے والی گفتگو کو ایوان صدر کا عملہ نوٹ کرتا رہا۔ مجھے بھی اس موقع پر اظہار خیال کرنے کا موقع ملا میں نے صدر مملکت اور علماء کے سامنے جن تجاویز کو رکھا ان کاخلاصہ درج ذیل ہے:
یہ بات درست ہے کہ کسی بھی ملک کی مجموعی ترقی کا اس کی اقتصادیات سے گہرا تعلق ہوتاہے۔ تاہم جو ملک مادی اعتبار سے کمزور ہو اس کو انسانی اثاثوں کی بہت زیادہ قدر کرنی چاہیے اور معاشرے کے قابل اور ذہین افراد کی قابلیت سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔ اس وقت ملک کی حالت یہ ہے کہ جہاں ملک کا سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا جا رہا ہے وہیں پر ذہین افراد کی بڑی تعداد بھی کینیڈا، انگلستان، آسٹریلیااور دیگر یورپی ریاستوں کی طرف منتقل ہو رہی ہے جہاں ان کو چند برس کام کرنے کے بعد شہریت کے حقوق بھی حاصل ہو جاتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر مغربی ممالک ہمارے ڈاکٹرز، انجینئرز اور سائنسدانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کر سکتے ہیں تو ہم ان لوگوں کی صلاحیتوں سے کیوں مستفید نہیں ہو پاتے ۔ہمیں ان ذہین لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ تاکہ ان کی صلاحیتوں کے اشتراک سے ملک میں ایسے منصوبوں پر عمل کیا جا سکے جو ملک کے لیے مفید ہوں۔
اسی طرح کرپشن کی روک تھام کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر کرپشن کی روک تھام کے لیے قومی اتفاق رائے سے ایک آزاد اور غیر جانبدار عدالتی کمیشن قائم کردیا جائے جو تحقیق کے بعد کرپشن میں ملوث کسی بھی فرد پر فردِجرم عائد کرے اور مجرم کو اس کی سیاسی وابستگی سے قطع نظر کڑی سزا دی جائے تو ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ میں نے اس موقع پر نبی کریمﷺ کی سیرت کے حوالے سے ایک اہم واقعہ بیان کیاکہ جب بنومخزوم کی ایک بااثر عورت نے چوری کی اور نبی کریمﷺ کے محبوب صحابی جناب اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس کی سفارش کے لیے آپ کی بارگاہ میں بھیجا گیا تو آپ ؐنے فرمایا اگر میری بیٹی بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں گا۔ آپ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ سابق اقوام کی ہلاکت کا بڑا سبب یہ بھی تھا کہ ان میں سے جب کوئی عام آدمی جرم کرتا تو اسے سزا دی جاتی اور جب ان میں سے کوئی بااثر آدمی جرم کرتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا۔
موجودہ حالات میں مجرم بالعموم اپنے اثرو رسوخ کی وجہ سے قانون سے بچ نکلتے ہیں۔جس کی وجہ سے دیگر جرائم پیشہ ذہنیت کے افراد کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اگر پاکستان میں اسلامی قوانین کا عملی نفاذ ہو جائے تو جرائم پیشہ ذہنیت کی کلی طور پر حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ریاست کے ذمہ دار افراد اور ارباب سیاست کو کرپٹ افراد کے احتساب کے لیے اپنی ذمہ داریاں، توانائیاں اور اثر ورسوخ بھر پور طریقے سے استعمال کرنا چاہیے۔
علماء کے خطابات کے بعدنماز مغرب ادا کی گئی ۔نماز کے بعد جناب صدر نے شاندار ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔ اس دوران ایوان صدر کی راہ داری سے گزرتے ہوئے میری نظر سابق صدور کی تصاویر پر پڑی جن میں سے کئی ایک دنیا سے جا چکے تھے اور کئی ایک اپنے منصب سے محروم ہو چکے تھے۔ ایوان صدر کی چمک دمک کے درمیان سابق صدور کی تصاویر ایک عجیب پیغام دے رہی تھیں کہ دنیا کی بادشاہتیں عارضی ہیں اور ہمیشہ کی بادشاہی صرف اللہ تعالیٰ کی ہے جو اس کا تابعدار بن جائے گا وہ کامیاب ہو جائے گا اور جو اس کا تابعدار نہیں بنے گا خواہ کتنا ہی عروج کیوں نہ حاصل کر لے، حقیقی کامیابی اس کا مقدر نہیں بن سکتی۔