اللہ تعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر 90 میں ارشاد فرمایا ہے کہ ''بے شک اللہ تعالیٰ عدل واحسان کا حکم دیتا ہے۔‘‘ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ رحمن کی آیت نمبر60 میں ارشاد فرمایا ''احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے؟‘‘۔
عدل بنیادی طور پر کسی چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنا ہے یعنی صاحب حق کو اس کا حق دلوانا ہے۔ جبکہ احسان ایسا عمل ہے جس میں حسن وجمال کی ایسی شان ہو کہ ظاہر اور باطن میں حسن ہی حسن ہو اور اس میں کسی قسم کی کراہت اور ناپسندیدگی کا امکان نہ ہو۔ گویا کہ احسان یہ ہے کہ کسی کے حسن سلوک کا جواب اس سے بڑھ کر دیا جائے اور کئی دفعہ بغیر طلب اور ضرورت کے بھی دوسرے انسان کے ساتھ فیاضی اور سخاوت والا معاملہ کیا جائے اور بعض صورتوں میں انسان کی زیادتی کو نظر انداز کر کے ان سے فراخ دلی اور عفو و درگزر والا معاملہ کیا جائے۔ عدل کے لیے انسان کو توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، جبکہ احسان کے لیے کئی مرتبہ انسان کو فیاضی، سخاوت اوریہاں تک کہ ایثار کا مظاہرہ بھی کرنا پڑتا ہے۔
انسانوں کے معیاری تعلقات کا عدل واحسان سے نہایت گہرا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں شوہروں کوطلاق رجعی کی صورت میںعدت طلاق پوری ہونے پر بیویوں کو معروف طریقے سے رکھنے یا احسان کے ساتھ رخصت کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس میں حکمت والا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اگر علیحدگی ہو جاتی ہے تو بیوی کے دل میں شوہر کے بارے میں گھٹن کا احساس پیدا نہ ہوبلکہ اُس کے حسن سلوک کا احساس باقی رہے۔ اسی طرح ایک سے زائد بیویوں کی صورت میں شوہر کو عدل کا حکم دیا گیا ہے تاکہ کسی ایک بیوی کی حق تلفی نہ ہو اور ہر ایک کے حقوق بطریقِ احسن پورے ہوتے رہیں۔
اس کے بالمقابل اللہ تعالیٰ نے والدین کے ساتھ احسان والا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے۔ والدین اولاد کی بھر پور توجہ اور شفقت کے مستحق ہیں اور کئی مرتبہ کمزوری اور بڑھاپے کی وجہ سے وہ اپنے حقوق کے لیے صحیح طریقے سے آواز بھی بلند نہیں کر سکتے۔ چنانچہ یہ اولاد کی ذمہ داری ہے کہ ان کے ساتھ احسان والا معاملہ کرے۔
اچھے اخلاق اور کردار کا حامل انسان کسی کے احسانات کو فراموش نہیں کرتااور جب بھی اسے موقع ملتا ہے وہ اپنی استطاعت اور صلاحیت کے مطابق احسان کا بدلہ چکانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ قرآن مجید میں ایسے لوگوں کا ذکر موجود ہے جو اخلاق کریمانہ کے مالک تھے اور لوگوں کے ساتھ احسان والا معاملہ کرتے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا شمار بھی انہی لوگوں میں ہوتا ہے جو احسان شناس تھے اور دوسروں پر احسان فرمانے والے بھی تھے۔ جب عزیز مصر کی بیوی نے جناب یوسف علیہ السلام کو بدی کی دعوت دی تو حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کی بیوی کی دعوت گناہ کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ عزیز مصر نے میری بڑے اچھے انداز میں کفالت کی ہے ، گویا کہ بدی کی کراہت کے ساتھ ساتھ آپ کے دل میں عزیز مصر کی شفقت کا پاس بھی تھا۔ آپ ہر قیمت پر حدوداللہ کی پاسداری کرنا چاہتے تھے اور ساتھ ساتھ آپ کسی بھی طور پر اپنے مربی کے احساسات کو مجروح نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکومت اور سلطنت عطا فرما دی تو آپ کے وہی بھائی جنہوں نے آپ کے ساتھ ہر طرح کی بدسلوکی کی تھی‘ جب آپ کے رحم و کرم پر تھے تو آپ نے ان سے انتقام لینے کی بجائے ان کی تمام تر زیادتیوں کو معاف فرما دیا ۔
ہمارے پیغمبر ﷺکی پوری زندگی بھی لوگوں کے ساتھ عدل و احسان والا معاملہ کرتے ہوئے گزری۔ بطور قاضی اور حاکم آپ نے کسی بھی صاحب اثر وصاحب حیثیت شخص یا گروہ کے دباؤ کو قبول نہیں کیا اورعدل وانصاف پر پوری طرح کاربند رہے۔ اپنی نجی زندگی میں آپﷺ نے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ احسان والا معاملہ رکھا۔ لوگ آپ سے زیادتیاں کرتے رہے لیکن آپﷺ ان کی زیادتیوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے رہے ۔ طائف کی وادی میں جن لوگوں نے آپﷺ کو لہو رنگ بنایاجب اللہ تعالیٰ نے ان ظالموں کی بیخ کنی کے لیے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہمراہ پہاڑوں کے فرشتے کو بھیجا تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ''اے اللہ! میری قوم کے لوگوں کو ہدایت دے دے‘ یہ مجھ کو پہچانتے نہیں‘‘۔
نبی کریمﷺ کو ایذا دینے والے، آپ کے راستے میں کانٹے بچھانے والے ، آپ کو پتھر مارنے والے، آپ کے گلو ئے اطہر میں چادر ڈال کر کھینچنے والے، آپ کو مکہ سے ہجرت پر مجبور کرنے والے اور آپ کے عزیز چچا حضرت امیر حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہیدکر دینے والے لوگ بھی جب فتح مکہ کے موقع پر آپﷺ کے سامنے مجرم کی حیثیت سے پیش ہوئے تو آپﷺ نے ان کے ساتھ بھی حسن سلوک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کو معاف کر دیا۔
نبی کریمﷺ کا کلمہ پڑھنے والے آپ کے امتیوں کی بہت بڑی تعداد آج عدل واحسان کے راستے سے ہٹ چکی ہے ۔ ہم اپنے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کے مرتکب ہو کر اور عدل کا راستہ چھوڑ کر ظلم کے راستے پر چل نکلے ہیں۔ گھریلو سطح پر بھی ہم عدل اوراحسان کو ترک کر چکے ہیں۔ بیٹیوں کا استحصال معاشرے میں عام ہے، بیویوں کے ساتھ ناروا سلوک مردانگی کے اظہار کا ذریعہ بن چکا ہے ۔ بوڑھے والدین کے ساتھ احسان والا معاملہ توایک طرف رہا‘ انہیں ان کا جائز حق بھی میسر نہیں۔ کئی بوڑھے والدین اس قدر چشم پوشی کی زندگی گزار رہے ہیں کہ دو وقت کی روٹی اور علاج معالجہ کی سہولیات سے محروم ہیں اور کئی حالات کے جبر کا شکار ہو کر اولڈ ہومز میں زندگی کے باقی ماندہ ایام گزار رہے ہیں۔ جب عدل واحسان رخصت ہو جاتا ہے تو اس کی جگہ ظلم وجبراور ناانصافی لے لیتی ہے۔ یہ نا انصافی اور بے اعتدالی انفرادی اور گھریلو سطح سے شروع ہو کر زندگی کے تمام شعبوں میں نظر آتی ہے۔ ملازموں، ماتحتوں اور مجبوروں کے ساتھ بدسلوکی کے مظاہر عام ہیں۔کاروباری معاملات میں بھی ہم نا انصافی اور زیادتی کے راستے پر گامزن ہیں۔ ناانصافی اور احسان فراموشی جب اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو انسان اخلاقی قدروں سے محروم ہوجاتا ہے اور ہر طرف چھینا جھپٹی، خودغرضی اور نفسانفسی کا دوردورہ ہوتا ہے۔
ہماری قومی سیاست میں بھی عدل و احسان کا عنصر سرے سے مفقود ہے ۔ طاقت اور اختیار کے حصول کے لیے ہر جائز اور ناجائز راستہ اختیار کیا جاتا ہے اور راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ہٹا دیا جاتا ہے۔ آج اگر ہم اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ڈالیں تو اس کے پس منظر میں بھی ناانصافی اور خود غرضی کا چلن عام نظر آتا ہے۔ ماضی میں قومی مفاد کے نام پر ہمسایہ ملک افغانستان کی خود مختاری کو چیلنج کیا گیا اور امریکہ کے ساتھ سمجھوتے کو قومی مفاد کا نام دے کر قبول کر لیا گیا ۔ اس وقت بھی ہم تاریخ کے اس نازک موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں صحیح اور غلط کا امتیاز کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف ہمارا محسن ہے تو دوسری طرف باغی قبائل ہیں جن سے ہماری کسی بھی اعتبار سے کوئی نسبت نہیں لیکن احسان کا بدلہ احسان تو ایک طرف رہا ہم تو عدل کے راستے پربھی چلنے کے لیے تیار نہیں۔
وزیراعظم پاکستان ذاتی طور پربھی سعودی عرب کے احسان مند ہیں کہ ا یام اسیری اور جلاوطنی کے دوران سرزمین حجاز ہی کے دروازوں کو ان کے لیے کھولا گیا تھا۔اگر پاکستان اپنی گزشتہ ساٹھ سالہ تاریخ پر نظر دوڑائے تو ہمیں ہر موقع پر سعودی عرب اپنے محسن کی حیثیت سے نظر آئے گا۔ لیکن چونکہ ہم عدل واحسان کے راستے سے دور جا چکے ہیں اس لیے شاید درست اور صحیح فیصلے کا چناؤ اب ہمارے لیے ممکن نہیں رہا ۔
زندگی کے تمام شعبوں میں ناانصافی اور احسان فراموشی کی روش کو اختیار کر کے اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم بہت سمجھ دار ہیں تو یہ ہماری بہت بڑی بھول ہے۔ اس لیے کہ انسان اور سماج کی بقاء اور ترقی میں خود غرضی ، انانیت اور ذاتی پسند ناپسند سے کہیں بڑھ کر اہمیت عدل واحسان کی ہے۔