"AIZ" (space) message & send to 7575

آفات اور پریشانیاں کیوں آتی ہیں؟

ہفتے کے روز نیپال ایک شدید زلزلے کی زد میں آ گیا جس کی وجہ سے بلند وبالا عمارتیں زمین بوس ہو گئیں۔ تازہ اعدادو شمار کے مطابق زلزلے کے نتیجے میں 4ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے اور لاکھوں بے گھر۔ ہمارا اپنا ملک پاکستان بھی عرصے سے قدرتی آفات کی زد میں ہے ۔ ہر سال دو سال بعد سیلابی ریلے نشیبی علاقوں کی تباہی و بربادی کا سبب بنتے ہیں ۔ چند برس قبل کشمیر اور سرحد میں آنے والے زلزلے نے ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔اسی طرح گزشتہ پیر کے روز پشاور میں چلنے والی آندھی اور موسلا دھار بارش سے قیامت صغریٰ برپا ہوگئی جس کے نتیجے میں50 افراد جاں بحق اور 200 کے قریب زخمی ہو گئے۔
ان مسائل کا سائنسی تجزیہ اکثر و بیشتر کیا جاتا ہے، ضرورت اس امرکی ہے کہ انسانی زندگی میںآنے والی پریشانیوں اور آفات کا دینی پہلو سے بھی تجزیہ کیا جائے۔ ان پریشانیوں اور آفات سے بچاؤ کے لیے قرآن و سنت سے رہنمائی لی جائے۔ قرآن کریم کا گہرائی سے مطالعہ کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آفات اور پریشانیوںکی متعدد وجوہ ہوتی ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ نیکو کاروں کے لیے آزمائش: اللہ تعالیٰ پریشانیوں اور تکالیف کے ذریعے اپنے نیکو کار اور مخلص بندوں کو گاہے ماہے آزماتے رہتے ہیں اور ان آزمائشوں میں نیکو کاروں کو صبر اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کر کے اللہ سبحان و تعالیٰ کو راضی کرنا چاہیے۔ نیک لوگ آفات اور پریشانیوں پر دل شکستہ ہونے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے فیصلے اور حکم پر راضی رہتے ہیں۔
2۔ مجرموں کے لیے عذاب: قدرتی آفات مجرموں کے لیے اللہ تعالیٰ کا عذاب بن کر آتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان اقوام کا ذکر کیا جو اپنے جرائم کی وجہ سے تباہ ہو گئیں۔ قوم عاد اور قوم ثمود بداعتقادی کی وجہ سے سیلاب، طوفان اور چنگھاڑ کی زد میں آگئیں۔ قوم لوط پر جنسی بے راہ روی کی وجہ سے آسمان سے پتھروں کی بارش ہوئی اور قوم مدین پر کاروباری خیانت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا۔
3۔ گناہوں کی کثرت : قرآن مجید نے گناہوں اور آفات کے باہمی تعلق کو مختلف مقامات پر واضح کیا ہے۔ سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 30 میں ارشاد ہوا : '''اور جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے تو تمہارے ان اعمال کی وجہ سے جو تمہارے ہاتھوں نے کمائے ہیں اور وہ بہت سے قصوروں سے درگزر کرتا ہے‘‘۔ اس طرح سورہ روم کی آیت نمبر 41 میں ارشاد ہوا: ''خشکی اور سمندر میں فساد برپا ہو گیا لوگوں کے ہاتھوں کی کمائی کی وجہ سے تاکہ اللہ ان کو ان کے کیے بعض کاموں کا مزہ چکھائے شاید کہ وہ واپس پلٹ جائیں‘‘۔ ان آیات سے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ انسانوں کے گناہوں کے نتیجے میں معاشرے آفات کا شکار ہو جاتے ہیں۔
آج اگر ہم اپنے گردوپیش کودیکھیں تو ہمارے معاشرے میں اقوام ِ سابق والی تمام برائیاں موجود ہیں۔ بداعتقادی کی کیفیت یہ ہے کہ ستارہ پرستی سے لے کر جادو ٹونے تک قوم مختلف قسم کے توہمات میں پھنسی ہوئی ہے۔ بے حیائی کا چلن عام ہے، جسم فروشی کا دھندہ عروج پر ہے، گھنائونے جنسی جرائم وجود میں آچکے ہیں، معصوم بچے بھی بداخلاقی سے محفوظ نہیں ۔ کاروباری معاملات میں اللہ اور اس کے رسولﷺ کی تعلیمات کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ شراب کی خریدو فروخت اور سودی لین دین کے ذریعے فائدہ حاصل کیا جارہا ہے۔ ریس‘ کرکٹ وغیرہ پر جوئے کی شرطیں باندھنے تک بڑے پیمانے پر احکام شریعت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ ان حالات میں اگر ہمارا معاشرہ آفات کا شکار اور ہمارا ملک مسائل کی دلدل میں دھنسا ہوا ہے تو اس میں کونسے اچنبھے والی بات ہے۔ اگر ہم ان آفات سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں توہمیں کم ازکم تین تدابیراختیار کرنا ہوں گی:
الف ۔ توبہ : اگر انسان توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے بڑے سے بڑے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ فرقان کے آخری رکوع میں شرک ، زنا اور قتل جیسے کبیرہ گناہوں کا ذکرکیا: ''اور جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور جس جان کے قتل کو اللہ تعالیٰ نے حرام کیا اسے قتل نہیں کرتے مگر حق کے ساتھ اور وہ زنا نہیں کرتے اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا۔ قیامت کے دن اس کو دوگنا عذاب دیا جائے گا اور اسی میں ہمیشہ ذلیل ہو کر رہے گا مگر جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں کے ساتھ بدل دے گا ‘‘۔ اسی طرح سورہ زمر کی آیت نمبر 53 میں ارشاد فرمایا: ''کہہ دو کہ اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، یقیناً اللہ تعالیٰ سب گناہوں کوبخش دیتا ہے‘‘۔
ب ۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنا : توبہ کے علاوہ انسان کو اللہ تعالیٰ سے بخشش اور مغفرت طلب کرتے رہنا چاہیے۔ استغفار بڑا بابرکت عمل ہے، حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرنے کی تلقین کی اور ان کو اس عمل کے فوائد سے آگاہ کیا۔ سورہ نوح میں فرمایا : ''پھر میں نے کہا اپنے رب سے معافی مانگو یقیناً وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ۔وہ آسمان سے تم پرخوب بارشیں برسائے گا اور مال اور بیٹوں کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لیے باغات پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں (جاری) کر دے گا‘‘۔ (آیات:10-11-12)
ج۔ پرہیز گاری اختیار کرنا : جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے نافرمانی سے اجتناب کرتا ہے اس کے لیے اللہ تعالیٰ آسمان اور زمین سے برکات کے دروازوں کو کھول دیتے ہیں۔ سورہ اعراف میں ارشاد ہوا: '''اور اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھو ل دیتے لیکن انہوں جھٹلایا پھر ہم نے ان کو اس کے بدلے میں پکڑ لیا جو وہ کماتے تھے‘‘۔ سورہ طلاق کی دوسری اور تیسری آیت میں تقویٰ کے یہ فوائد بیان ہوئے: ''اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اس کو رزق وہاں سے دے گا جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوگا‘‘۔
2 ۔ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری : بستیوں ، شہروں اور اقوام کو جن وجوہ کی بنا پر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان میں سے ایک بڑی وجہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری بھی ہے۔ کفرانِ نعمت سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے۔ سورہ ابراہیم میں ارشاد ہوا: ''اور جب تمہارے رب نے خبردار کیا تھا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں ضرور اور زیادہ دوں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بڑا سخت ہے‘‘۔ قرآن مجید میں سبا کی بستی کا ذکر ہواجو ناشکری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنی۔ سورہ نمل میں فرمایا: ''اور اللہ تعالیٰ ایک بستی کی مثال بیان کرتے ہیں جو پر امن اور مطمئن تھی۔ اس کا رزق بہ فراغت اس کے پاس ہر جگہ سے آرہاتھا۔ پھر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی۔ پھراللہ تعالیٰ نے اسے بھوک اور خوف کا مزا چکھایا ان کے اعمال کے سبب جو وہ کر رہے تھے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں پاکستان کی شکل میں آزادی کی نعمت سے نوازا۔خوبصورت موسم ، زراعت اور معدنیات کی نعمتوں سے بھرا ہوا ملک عطا فرمایا لیکن ہم نے ناشکری کی جس کے نتیجے میں مسائل کی دلدل میں دھنس گئے۔اگر ہم اپنے مسائل اور قدرتی آفات سے چھٹکارا چاہتے ہیں تو ہمیں شکر گزار بننا چاہیے۔ سورہ نساء میں ارشاد ہوا : ''اللہ تعالیٰ تمہیں عذاب دے کرکیا کرے گا اگر تم شکرگزاری کرو اور ایمان لاؤ؟ ‘‘۔
3 ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے سے انحراف : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ امت مسلمہ کے لیے بہترین نمونہ ہے ۔ آپ فرد کی زندگی سے لے کر سماج کی زندگی تک اور معاشرتی معاملات سے لے کر ریاستی معاملات تک ہمارے لیے مثال (اسوۂ حسنہ) کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ آپ کے طریقے سے انحراف کی وجہ سے امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستان بحرانوں کا شکار ہے۔ اللہ تعالیٰ سورہ نورکی آیت نمبر 63میں ارشادفرماتے ہیں : ''پھر جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں ان کو ڈرنا چاہیے کہ ان پر کوئی آزمائش یا دردناک عذاب آجائے‘‘۔ ان ساری آفات سے بچنے کے لیے ہمیں آپﷺ کی غیر مشروط اتباع کرنا ہوگی ۔ سورہ آل عمران کی آیت نمبر 21 میں ارشاد ہوا: ''آپ کہہ دیں کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو،اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا ‘‘۔ من حیث القوم قرآن وسنت میں مذکور تعلیمات سے روشنی حاصل کر کے ہم نہ صرف قدرتی آفات کا درست تجزیہ کر سکتے ہیں بلکہ ان پر قابو بھی پا سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں