4مئی کو دنیا اخبار کے پہلے صفحے پر چھپنے والی ایک خبر نے میری سوچ کو مکمل طور پر اپنی طرف مبذول کرلیا۔ خبر یہ تھی کہ سلطان فتح علی ٹیپو کو شہید ہوئے دو سوسولہ برس بیت چکے ہیں۔ فتح علی ٹیپو سامراج کے خلاف مزاحمت کی علامت تھے۔ میرا ذہن ماضی کے اوراق پلٹنا شروع ہوگیااور بہت سی عظیم ہستیوں کی یادیں اور ان کے کارنامے میرے دماغ کی سکرین پر چلنا شروع ہو گئے۔
دنیا میں بہت سی ایسی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے دنیا کے بہت بڑے حصے پر حکومت کی ، ایسے لوگوں کی تعداد بھی کم نہیں جو بے انتہا دولت کے مالک تھے۔ اسی طرح وہ لوگ بھی دنیا میں رہے جنہوں نے اپنے ہنر یاپیشہ ورانہ صلاحیتوں کے بل پر نام بھی کمایا اور دام بھی۔ انسانوںکی اکثریت کی یادیں تاریخ کے دھندلکوں میںکھو جاتی ہیںاور گردش ایام ان یادوںکو لوگوں کے دلوں سے کھرچ دیتی ہے۔ لیکن کئی شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنی قربانیوں اور اصولوں پر استقامت کو اختیار کرنے کی وجہ سے ہمیشہ تصورات اور خیالات میں زندہ رہتی ہیں۔
ایسے لوگ‘ جو اعلیٰ اقدار اور ارفع اصولوں پر کاربند ہوتے ہیں‘ دنیا سے چلے جانے کے باوجود انسانوں کے دل ودماغ میں بسے رہتے ہیںاور ان کے کردار کی عظمت آنے والی نسلوں کے لیے تحریک کا سبب بن جاتی ہے۔ تاریخ انسانیت میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہوں نے اپنے اعلیٰ اصولوں کو زندگی کے آخری سانس تک اپنائے رکھا اور ان اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے کی وجہ سے حوادث کا شکار ہوئے...، عہد کے ظالموں کے ظلم، جابروں کے جبرکا نشانہ بنے اور ان اعلیٰ اصولوں کی خاطر موت کو بھی گلے لگانے سے گریز نہیں کیا ۔
انبیاء علیہم السلام حوصلے اور استقامت کے پہاڑ تھے۔ اللہ کے پیغمبر اعدائے دین کی مخالفت کو ہمیشہ خندۂ پیشانی سے برداشت کرتے رہے۔ ان نفوس قدسیہ کی سیرت میں ہر مومن و مسلمان کے لیے بہترین رہنمائی موجود ہے۔ حضرت رسولﷺ اس اعتبار سے سب سے بلند مقام پر فائز ہیںکہ آپﷺ نے اپنے عہد میں سرداروں، چوہدریوں، سرمایہ داروںاور صاحب اثر لوگوں کی مخالفت کو برداشت کیااور گمراہ لوگوں کے طعن و تشنیع اور شقاوت کو بھی پورے حوصلے سے سہتے رہے۔ آپﷺ نے پتھر کھائے ، آپﷺ کے راستے میں کانٹوں کو بچھایا گیا ، آپﷺ کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا، آپﷺ کو اپنا وطن چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ آپﷺ نے اس سارے ظلم وجبر کا سامنا پورے حوصلے اور وقار سے کیااور جمیع انسانیت کے لیے کامل نمونہ بن گئے۔ آپﷺ کی ترتیب اورشفقت کے زیر اثر رہنے والے لوگوں نے بھی اصول پسندی اور ایثار کی نئی تاریخ کو رقم کیا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے ایمان اور نظریات کی خاطر اپنے گھر بار کو خیر باد کہہ دیا اورضرورت پڑنے پر اپنے قبیلے اور شہر والوں سے جنگ کرنے پر آمادہ و تیار ہو گئے۔ بدر کے معرکے کے دن ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والے صاحب ایمان اوراللہ کے منکروں کے درمیان تاریخی ٹکراؤ ہوا۔ اہل ایمان نے اپنے کردار سے اس حقیقت کو ثابت کیا کہ محبت کی بنیاد خاندان‘ قبیلہ ،جغرافیہ یا رنگ ونسب نہیں ہوتے بلکہ محبت کی بنیاد انسان کی ایمانی اورنظریاتی وحدت ہوتی ہے۔ صحابہ کرام رضوان علیہم اجمعین میں ایسی سرفروشی پیدا ہو چکی تھی کہ وہ ہمہ وقت اپنا سب کچھ دین کے لیے قربان کرنے پر آمادہ وتیار رہا کرتے تھے اور جس طرح پروانہ شمع پر قربان ہونے کے لیے بے قرار ہوتا ہے وہ بھی دین و ملت کی خاطر قربان ہونے کے لیے بے چین رہا کرتے تھے۔اس جذبۂ فدویت کو دیکھ کر کفار انگشت بدنداں رہ جاتے‘ وہ اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ آخر انسان موت کی آغوش میں اتنی آسانی سے کیوں کر اتر سکتا ہے ۔
حضرت سمیہؓ نے بیت اللہ کے سامنے اپنے وجود کو دوٹکڑوں میں تقسیم کروالیا۔ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس انداز سے شہید ہوئے کہ ان کا انگ انگ اللہ کے راستے میں قربان ہو گیا۔ حضرت جعفر طیارؓ نے اللہ کے راستے میں لڑتے ہوئے اپنے دونوں بازو شہید کر والیے لیکن اپنے عقیدے سے لمحہ بھر کے لیے بھی ہٹنا گوارا نہیں کیا۔ رسول کریم ﷺ کے انتقال پر ملال کے بعد بھی شہادتوں اور قربانیوں کا سلسلہ جاری وساری رہا۔ حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت حسین ، حضرت عبداللہ بن زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے درست اور صحیح نظریات اور اعلی اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا اور زمین کے سینے پر اپنا مقدس لہو گرا کر آنے والی نسلوں کو جینے کا ڈھنگ اور مٹنے کا سلیقہ بتلا دیا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد بھی قربانیوں کی داستانیں رقم کی جاتی رہیں۔ مسلمانوں کی قربانیوں کی وجہ سے کفر تادیر اسلام کے مقابلے میں مغلوب اور بے بس رہا۔حالات کے تغیر کے سبب اعلیٰ ایمانی کیفیات اوراخلاقی اقدار میں بتدریج کمی واقع ہونا شروع ہوگئی اور ایمان کی جگہ نفاق، اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کی جگہ مادے کی محبت اور آخرت کی فکر سے زیادہ دنیا داری میںالجھ جانے کی وجہ سے مسلمانوں نے رفتہ رفتہ عروج سے زوال کی طرف سفرکرنا شروع کر دیا۔
حاکمیت سے محکومیت کا سفر شروع ہواتو بہت سے دلیر اور غیرت مند لوگوں نے مسلمانوں کی خودداری اور غیرت کو بیدار کرنے کے لیے زبردست تگ ودو کی۔ برصغیر میں انگریزی استعمار کے خلاف جنگ کرنا آسان نہیں تھا۔ انگریزمادی اور عسکری اعتبار سے مسلمانوں کے مقابلے میںکہیں زیادہ طاقتور اور منظم تھے ۔ان حالات میں موقع پرست حکام اور چڑھتے سورج کے پجاری رہنما انگریزی استعمار کے سامنے زمین بوس ہوتے چلے جا رہے تھے ، لیکن میسور کے نواب حیدر علی نے ملک و ملت کے دفاع کا علم اُٹھالیا اور انگریز کے رعب اور دبدبے کے سامنے سرنگوںہونے سے انکار کر دیا ۔
حیدر علی کے فرزند فتح علی ٹیپو اپنے باپ کے انتقال کے وقت فقط 32سال کے جوان تھے‘ لیکن آپ نے اپنے باپ کے مشن کو پوری شدومد سے آگے بڑھایا اور انگریز کے رعب ، دبدبے اور توسیع پسندانہ عزائم کے راستے میں حائل ہو گئے۔ آپ نے 1782 ء میں میسور کا اقتدار سنبھال کر ریاست کو سلطنت خدا داد کا نام دیا ۔ اقتدار کی چمک دمک اور ریاست کی سربراہی سے کہیں زیادہ دلچسپی آپ کو سامراج دشمنی سے تھی جس کا اظہار آپ کے بہت سے فرمودات سے ہوتا ہے ۔ آپ کا مشہور زمانہ فرمان ''شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے‘‘ آج بھی خوددار نوجوانوں کی غیرت کو بیدار کرنے کا سبب بن جاتا ہے۔ آپ اپنے عہدمیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے سب سے بڑے مخالف تھے ۔
آپ نے انگریز کے خلاف پہلی جنگ اپنے والد کی ہمراہی میں 15 برس کی عمر میں لڑی اور ساری عمر مرہٹوں اور انگریزوں کے خلاف برسرپیکار رہے۔ جدید اسلحے اور تربیت یافتہ انگریزی فوجوں کے ساتھ بار بار ٹکراؤ کے باوجود آپ کے عزم اورحوصلے میں کسی قسم کی کمی واقع نہ ہوئی یہاں تک کہ آپ انگریزوں کے خلاف میسور کی چوتھی جنگ میں اپنے دارالخلافہ کا دفاع کرتے ہوئے 4مئی 1799ء کو سرنگا پٹم کے قلعے کے دروازے پر جام شہادت نوش فرما گئے۔ آپ نے زندگی کی صرف 49 بہاریں مکمل کی تھیں کہ آپ دنیا فانی سے کوچ کر گئے۔ آج آپ کو دنیا سے رخصت ہوئے دو سوسولہ سال کاعرصہ بیت چکا ہے لیکن آپ کی یادوں کی خوشبو سے آج بھی دل کا چمن مہک رہا ہے اور آپ کی آب وتاب دیکھ کر شاعر کی خوبصورت بات یا د آجاتی ہے ؎
صلہ شہید کیا ہے تب و تاب جاودانہ