"AIZ" (space) message & send to 7575

مدارس کا جرم

علم کی مختلف شاخیں ہیں اور ان کے ذریعے انسان صحیح اورغلط کا تعین کرتا ہے۔ مادی علوم کی بنیاد انسانوں کا تجربہ اور مشاہدہ ہے ۔ جب مختلف طرح کے تجربات کا نتیجہ یکساں نکلتا ہے تو انسان ان نتائج کی روشنی میں نظریات اور قوانین وضع کرتا ہے۔ اس کے برعکس دینی اورشرعی علوم کی بنیاد مشاہدہ نہیں بلکہ وحی الٰہی ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء اور رسل پر مختلف ادوار میں وحی کا نزول فرماتے رہے اور یہ سلسلہ خاتم النبیین حضرت رسول اللہﷺ کی ذات گرامی پر مکمل ہو گیا۔ آپﷺ کے بعد نبوت ورسالت ختم ہو چکی ہے اس لیے کسی شخصیت پر وحی آ نے کے امکانات بھی باقی نہیں رہے۔ 
دینی اور مادی علوم میں ایک مشترکہ امر یہ ہے کہ دونوں علوم کا مقصد انسانوں کی فلاح وبہبود ہی ہے۔ مادی علوم انسانوں کی زندگی کو سہل کرنے اور دینی علوم انسانوں کو گناہوں سے پاک زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتے ہیں۔ دینی علوم زندگی کے تمام شعبوں میں انسانوں کی رہنمائی کرتے ہیں اور جائز اور ناجائز معاملات کا تعین کرکے انسانوں کی سیدھے رستے کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔ 
انسان ہمیشہ سے آزادی کاطلب گار رہا ہے ۔ دین و شریعت انسان کی اس فطری خواہش کوتنظیم کے دائرے میں لے کر آتے ہیں اور انسان کو ایسی آزادی سے روکتے ہیں جس سے دوسروں کی حق تلفی ہو ۔ اسلام ہر شخص کے جبلی اور فطری تقاضوں کو پورا کرنے کی اجازت دیتا ہے بشرطیکہ ان تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے کسی دوسرے کی آزادی اور خود مختاری متاثر نہ ہو۔ 
انسانوں کی مختلف اقسام ہیں۔ بعض لوگ اللہ سے ڈرنے والے ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی خواہشات اور ضروریات کی تکمیل جائز اور درست طریقوں سے کرتے ہیں اور ان کی ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ دوسرے انسانوں کے ساتھ بھی کسی قسم کی زیادتی نہ کی جائے۔ ایسے لوگ احکامات شریعت کی بلا چون و چرا پوری طرح پیروی کرتے ہیں اور آخرت میں اللہ کے سامنے جوابدہی کے احساس سے دنیا میں بھی ڈر ڈر کے زندگی گزارتے ہیں۔ 
اس کے برعکس بہت سے ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو ہر قیمت پر اپنی خواہشات کی تکمیل چاہتے ہیں ۔ ان کو حلال وحرام اورجائز وناجائز سے کچھ سروکار نہیں ہوتا ۔ معاشرے کو ان کی ہوس اور حد سے بڑھی ہوئی خواہشات سے سنگین نوعیت کے خطرات لا حق ہوتے ہیں ۔ معاشرے کو ان کے شر سے بچانے کے لیے اسلام میں حدود اللہ کا تصور موجود ہے جس کا مقصد فسادی اور بے لگام لوگوں کوحد اعتدال میں لانا ہے۔ 
زنا کی سزا کا مقصد حفاظت نفس، قتل کی سزا کا مقصد حفاظت جان، چوری کی حد کا مقصد حفاظت مال، قذف کی حد کا مقصد حفاظت ناموس اور شراب کی حد کا مقصدحفاظت عقل ہے۔ 
تاریخ اس عمل پر شاہد ہے کہ جب تک اسلامی حدود کا نفاذ رہا اس وقت تک معاشرے میں جرائم کی شرح نہ ہونے کے برابر رہی اور لوگ جرائم سے بالعموم اور اعلانیہ جرائم سے بالخصوص احتراز کرتے رہے‘ لیکن گردش دوراں کی وجہ سے جب مسلمان خلافت کی نعمت سے محروم ہوئے تو جرائم کی روک تھام کو یقینی بنانے والی ان سزاؤں سے بھی محروم ہوگئے ۔
جب تک خلافت رہی اس وقت تک دنیا وی علوم کے ساتھ ساتھ دینی علوم کے حصول کا رجحان بھی مسلمانوں کے ہاں اپنے پورے عروج پر رہا۔ سقوط ِ خلافت کے بعد اُمت کا بڑا حصہ اسلامی نظام کی کلی برکات سے محروم ہوگیا لیکن دینی تعلیم کو پڑھنے اور پڑھانے والے ادارے کسی نہ کسی طور پر اپنے معاملات چلاتے رہے۔ 
ایک وقت تھا کہ جب مسلمانوں کی دینی اورعصری تعلیم کو بیک وقت دینی اداروں نے جاری رکھا اور قابل عالم‘ قابل حکیم یا ماہر کاتب بھی ہوا کرتے تھے۔ برصغیر کے کئی نامور علماء کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دنیاوی فنون پر بھی خاصی دسترس ہوا کرتی تھی ۔ چنانچہ حافظ عبدالمنان وزیرآبادی رحمتہ اللہ علیہ محدث ہونے کے ساتھ ساتھ جیومیٹری کے ماہر، حافظ محمد گوندلوی رحمتہ اللہ علیہ حدیث کے استاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہت بڑے طبیب اور کیلانی خاندان کے علماء کو کتابت میں بہت زیادہ عبور ہوا کرتا تھا۔
دینی تعلیم لوگوں کو منتقل کرنے کے ساتھ ساتھ یہ علماء عصری علوم کی تعلیم دینے کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے۔ بعد ازاں جب علم میں تخصص کی اہمیت بڑھ گئی تو جہاں عصری علوم میں ایک فن پر توجہ مرتکز کرنے والے افراد میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا چلا گیا وہیں دینی علوم میںبھی تخصیص کی اہمیت بڑھتی چلی گئی۔
تفسیر، حدیث، علم الرجال، صرف ونحو، اصول فقہ اور علم الکلام ایسے علوم نہ تھے کہ جن میں جزوی توجہ کے ساتھ کمال حاصل کیا جا سکتا، چنانچہ علماء ان علوم کو دل جمعی کے ساتھ سیکھتے اور سکھلاتے رہے۔ ان علوم کے حصول کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ انسانوں کو اللہ اور اس کے رسول کی تعلیمات سے کلی طور پر آگاہ کیا جائے اور معاشرے میں جہاں کہیں بھی دین سے دوری یابیگانگی محسوس کی جائے وہاں اس کی اصلاح کی جاسکے۔ 
جدید سماج میں جب افکار اور نظریات کا تنوع بہت زیادہ بڑھ گیا تو انسانوں کی ایک بڑی تعداد نے شریعت کی لگائی ہوئی پابندیوں اور دین کے بتلائے ہوئے راستوں کو اپنے لیے بوجھ سمجھنا شروع کر دیا ۔ فقط دنیاوی علوم کو پڑھنے والے بعض لوگ دین وشریعت کی حکیمانہ تعلیمات سے غافل تھے۔ یہ لوگ دین کو انسانوں کی ترقی کے راستے میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ ان کا ناقص ذہن اورقلیل مطالعہ ان کو اس بات پر اکساتا تھا کہ کسی نہ کسی طور پر دین وشریعت کی مخالفت کی جائے۔
یہ لوگ گو شناخت اور پس منظر کے اعتبارسے مسلمان ہی تھے لیکن ان کے نزدیک دین کا سماج ، سیاست، ریاست اور معیشت سے کوئی لینا دینا نہیں تھا ۔ یہ لوگ یورپ میں کلیسا کی شکست کومذہب کی عمومی شکست سے تعبیر کرتے تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ پارلیمان یا مقننہ کثرت رائے سے جو فیصلہ کرے وہی راستہ انسان کی فلاح کے لیے درست اور جائز راستہ ہو سکتا ہے۔ وہ اس بات سے غافل تھے کہ خالق اپنی مخلوق کی فلاح وبہبود سے جس حد تک واقف ہو سکتا ہے اس حد تک کبھی انسان اپنی یا دوسروں کی ترقی اور بقا کے معاملات سے آگاہ نہیں ہو سکتا ۔
خالق کی بصیرت اور اس کے پیغمبر کی رہنمائی ایسے لوگوں کے لیے قابل قبول نہیں تھی لیکن اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرنا ان کے بس میں نہیں تھا ۔ چنانچہ ان لوگوں نے اپنے غلط نظریات کے اظہار اور ترویج کے لیے ہر دور میں علماء اور مدارس کو ٹارگٹ کیا تاکہ جذبات اور غصے کے اظہار کے لیے معاشی طور پر ایک کمزور عالم دین کو نشانۂ ستم بنایا جا سکے۔ 
مدارس کا جرم کیا ہے ؟
مدارس آج کے مادیت زدہ معاشرے میں بھی معاشرتی فلاح وبہود اور اخروی نجات کا درس دے رہے ہیں ، الحادی فکر کے سامنے آج بھی توحید کے نقیب بنے ہوئے ہیں ، دنیا پرستی کے اس ماحول میں فکر آخرت کی شمع کو فروزاں کر رہے ہیں ‘ آج بھی لوگوں کو حیی علی الصلوٰۃ اور حیی علی الفلاح کا پیغام سنا رہے ہیں ، آج بھی بچوں کے کان میں اذان دے رہے ہیں، آج بھی نکاح پڑھا رہے ہیں ، آج بھی جنازے اُٹھا رہے ہیں، پیدائش سے لے کر موت تک خدمت بھی کر رہے ہیں اور طعن وتشنیع بھی سہہ رہے ہیں۔ کاش مدارس کا یہ عظیم کردار لوگوں کی سمجھ میں آجائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں