جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کافی حد تک بیت چکی تھی ۔ میں نے ہفتہ کے روز بیرونِ ملک سفر کے لیے جانا تھا اس لیے میں ضروری کاموں کو نمٹانے میں مصروف تھا۔ اچانک موبائل کی بیل بجی تو میں تشویش میں مبتلا ہو گیا۔ فون اُٹھا یا تو دوسری طرف برادرم عمار الاسلام چودھری موجود تھے۔ برادرم عمار چودھری سے میری کئی برسوں سے شناسائی ہے اور ہمارے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے ہیں ۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی والدہ کا انتقال ہو گیا ہے ۔ میرے لیے یہ خبر بہت زیادہ صدمے کا باعث تھی اس لیے کہ انسان قریبی رفقاء کے والدین سے بھی مانوس ہوجاتا ہے۔ ان کی والدہ ایک نیک اور پارسا خاتون تھیں اور ساری عمر درس و تدریس سے وابستہ رہیں۔دل کی تکلیف کی وجہ سے گزشتہ کئی روز سے ہسپتال داخل تھیں۔ گاہے گاہے میں برادرم عمار چودھری سے ان کی صحت کے بارے میں بھی استفسار کرتا رہتا تھا اور دل کی گہرائیوں سے ان کی صحت یابی اور خیریت کے لیے بھی دعا گو تھا۔لیکن جب اللہ تعالیٰ کا امر آجا تا ہے تو انسانوں کی خواہشات دھری کی دھری رہ جاتی ہیں اور وہی ہوتا ہے جو پروردگار کو منظور ہوتا ہے۔ ان کے والد چودھری غلام حسین گورنمنٹ کالج گوجرانوالہ کے چیف لائبریرین رہے اور ابھی تک ماشاء اللہ حیات ہیں۔
میرے دماغ کی سکرین پر میرے بچپن کے مناظر چلنا شروع ہو گئے کہ جب میری والدہ حیات تھیں۔ جب میں کریسنٹ ماڈل سکول میں داخل ہوا تو والدہ نے مجھے کس طرح تیار کرکے سکول روانہ کیا اور یہ بھی یاد آنا شروع ہوا کہ کس طرح سکول سے واپسی پروہ میرا استقبال کیا کرتی تھیں۔ ان کو میری اور دیگر بہن بھائیوں کی تعلیم کی بہت فکر ہوا کرتی تھی۔ ان کو اس بات سے گہری دلچسپی تھی کہ میں اپنی جماعت میں نمایاں کامیابی حاصل کروں۔ اگرمیں جماعت میں پہلی تین پوزیشن میں سے کوئی پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہوتا تو وہ گہرے رنج وغم کا اظہار کرتیں۔ میٹرک کے امتحانات کے دوران والد گرامی راوی روڈ پر ہونے والے جلسے میں خطاب کے دوران حادثے میں زخمی ہو گئے تو والدہ نے اس سانحے کے اثرات سے بچانے کے لیے خصوصی شفقت ومحبت کا مظاہرہ کیا تھا۔ وہ مجھے تسلی دیتی تھیں تاکہ میری امتحانی کارکردگی اس صدمے سے متاثر نہ ہو۔ والد صاحب کے جاں بحق ہونے کے بعد انہوں نے گھر میں کسی مرد کی عدم موجودگی میں جس شفقت ومحبت کا مظاہرہ کیا‘ وہ اپنی مثال آپ ہے۔ انہوں نے مجھے تسلسل سے کالج بھیجنے کا سلسلہ جاری رکھا۔
ایف ایس سی کے امتحانات کے دوران وہ خصوصی توجہ کے ساتھ میری کارکردگی کا جائزہ لیتی رہیں۔ امتحانات سے فارغ ہونے کے بعد انہوں نے ایک دن بڑی شفقت سے مجھے کہا کہ بیٹے میری ایک خواہش ہے کہ تم قرآن مجید حفظ کرلو۔ میں ان کی اس خواہش پر حیران ہوا کہ زندگی کے اٹھارویں برس میں‘ میںکس طرح قرآن حفظ کر سکوں گا۔ ان کی خصوصی توجہ اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے میں حفظِ قرآن مجید کی طرف مائل ہوگیا اور چند ماہ کی قلیل مدت میں اٹھارہ پارے حفظ کر لیے۔ ایف ایس سی کا نتیجہ آنے کے بعد میں انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخل ہوگیا ۔ فرسٹ ائیر کی چھٹیوں میں‘ میں نے چھ اور سیکنڈ ائیر کی چھٹیوں میں باقی ماندہ پارے حفظ کر لیے۔
والد صاحب کے انتقال کے بعد والدہ مرحومہ بالعموم دکھی رہا کرتی تھیں لیکن وہ اپنے اندرونی غم کو ہم پر کبھی ظاہر نہ ہونے دیتی تھیں۔ ایک دو مرتبہ انہوں نے اپنے دائیں بازو میں درد کا ذکر کیا۔ جب ڈاکٹر کے پاس معائنے کے لیے گئے تو ان کے ٹیسٹ میں کوئی واضح مسئلہ نظر نہیں آیا ۔ یونیورسٹی جاتے وقت وہ بڑے پیار سے مجھے الوداع کیا کرتی تھیں۔ زندگی کے آخری روز بھی مجھے پوری شفقت اور پیار سے الوداع کیا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ان کی زندگی کا آخری دن ہوگا۔ میں گھر آیا تو وہ مجھے بڑی محبت سے ملیں ۔میں اپنے کمرے میں آکر بیٹھا ہی تھا کہ وہ کمرے میں آئیں اور کہنے لگیں کہ ابتسام بیٹا! میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ میں نے غور سے چہرے کو دیکھا تو گھبرا گیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ ان کے چہرے کا رنگ سفید ہو چکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ان کے جسم سے خون نچڑ گیا ہو ۔ اس روز اتفاق سے میرے بہنوئی ڈاکٹر اکرام بھی گھر آئے ہوئے تھے۔ ہم دونوں ان کو لے کر سروسز ہسپتال پہنچ گئے ، ڈاکٹرنے ان کا بلڈ پریشر چیک کیا تو بہت زیادہ محسوس ہوا ۔بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں اور وہ دنیائے فانی سے کوچ کر گئیں۔
اللہ کی تقدیر کے سامنے ڈاکٹروں کی تدابیر ناکام ہو چکی تھیں ۔ ہم دکھی دل کے ساتھ ان کے جسد خاکی کو لے کر گھر آ گئے۔ ان کے جنازے میں شامل ہونا میری زندگی کی سب سے بڑی آزمائش تھی۔ بوجھل دل‘ ٹوٹے اعصاب لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ کانپتے کانپتے میں ان کے جنازے میں شامل ہوا ۔ جنازے سے فارغ ہو کر قبرستان پہنچے اور ان کے وجود کو قبر میں اتارا تو یوں محسوس ہوا کہ دل ٹوٹ چکا ہے۔ صبر کا قرآنی حکم اور اسوۂ رسول میرے سامنے تھا۔ میں نے اپنی سسکیوں کو شکوہ آمیزالفاظ میں تبدیل نہیں ہونے دیا ۔ آنسوؤں کی جھڑیوں کو لے کر گھر داخل ہوا۔ گھر پہلے والد سے خالی ہوا اور اب والدہ سے بھی خالی ہو چکا تھا۔
میں نے اپنے دل کو مضبوط کیااور نئے عزم کے ساتھ زندگی کے نشیب وفراز کا مقابلہ کرنے کا ارادہ کیا ۔ اللہ کی تائید اور نصرت کے ساتھ زندگی کا سفر جاری وساری رہا لیکن ہر امتحان کے نتائج آنے پر، ہرعید اور خوشی کے موقع پر والدہ کی یاد ستاتی رہی ۔ آج ان کو دنیائے فانی سے رخصت ہوئے 23 برس کا عرصہ بیت چکا ہے ۔ اللہ نے مجھے اولاد کی نعمت سے نوازا ہے لیکن ان کی جدائی کا غم ابھی بھی دل ودماغ میں سمایا ہوا ہے ۔
برادرم عمار چودھری کی اس صدمے پر کیا کیفیت ہوگی میں اس کا بخوبی اندازہ کر سکتا ہوں ۔ میں ان لوگوں کو خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ جن کے سروں پر باپ کا سایا اور گھروں میں ماں کا بابرکت وجود موجود ہے ۔ بہت سے کم نصیب مسلمان ایسے بھی ہیں جو ماں اور باپ کی نعمت کی قدر نہیں کرتے۔ میں ان کی یاد دہانی کے لیے قرآن وسنت کی روشن تعلیمات کو ان کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ۔
سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 میں ارشاد ہوا ''اور تیرے رب نے فیصلہ کیا کہ تم اس کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ احسان کرواگر ان میں سے ایک یا دونوں‘ تمہارے سامنے بڑھاپے کی زندگی میں پہنچ جائیں تو ان کو اف تک بھی نہ کہنا‘ نہ انہیں ڈانٹنا بلکہ نرمی اور عزت کے ساتھ ان سے بات کرنا‘‘۔ اسی طرح سورۃ لقمان کی آیت نمبر15 میں ارشاد ہوا ''اور اگر والدین تجھ پر دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ شرک کر کہ جس کاتیرے پاس ثبوت کوئی نہیں تو ان کی بات ہرگز نہ مان۔ لیکن دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہ البتہ (دین کے معاملے میں) اس شخص کے راستے کی پیروی کر جس نے میری طرف رجوع کیا اور تم سب کو میری طرف پلٹنا ہے اور میں بتاؤں گا تم جو کچھ کرتے رہے ہو‘‘۔ والدین کے حقوق کے بارے میں چند احادیث مندرجہ ذیل ہیں :
طبرانی میں حدیث آئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا والدین کی رضا میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔ اسی طرح جامع ترمذی میں حدیث مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک اور والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ سنن نسائی میں یہ حدیث آئی ہے کہ تین آدمیوں پر اللہ تعالیٰ نظر کرم نہیں فرمائے گا 1 ۔ والدین کا نافرمان 2۔عادی شرابی 3۔ احسان کرکے جتلانے والا۔ اسی طرح سنن نسائی میں یہ حدیث مذکور ہے کہ تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے والدین کا نافرمان ، دیوث ، مردوں کی مشابہت کرنے والی عورت۔مستدرک حاکم میں یہ حدیث آتی ہے کہ اپنے والدین کو گالی دینے والے پر اللہ کی لعنت ہے ۔ سنن نسائی میں یہ حدیث آتی ہے جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔ صحیح بخاری شریف میں حدیث آتی ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا: میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ آپ نے فرمایا‘ تیری ماں۔ دوبارہ پوچھا تو فرمایا‘ تیری ماں۔ تیسری مرتبہ پوچھا تو فرمایا‘ تیری ماں۔ چوتھی مرتبہ پوچھا تو فرمایا تیرا باپ۔
قرآن وسنت کی تعلیمات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہمیں ہر حال میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ کی ان عظیم نعمتوں کی ناشکری سے گریز کرنا چاہیے۔