خوشی اور سکون کا حصول ہرشخص کا مطمح نظر ہوتا ہے۔ بے قرار اور بے چین انسان اپنے جملہ وسائل اور توانائیاں سکون اورخوشی حاصل کرنے کے لیے صرف کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ امام ابن حزم ؒ کے مطابق انسانوں کی زندگی کا سب سے بڑا مشترکہ ہدف غموں سے نجات حاصل کرنا ہے۔ دکھ اور بے قراری کی وجہ سے انسان کی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔دکھی انسان نہ تو اپنے کاموں پر توجہ دے سکتا ہے اور نہ ہی اپنی ذات اور شخصیت پر۔
دکھ اور بے قراری کی کیفیت سے نکلنے کے لیے انسان کی ذاتی خواہش اور تمناکافی نہیں ہوتی اور ایسے عالم میں اُسے مضبوط خارجی سہاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے وقت میں والدین اور قریبی مخلص رشتہ داروں کی حوصلہ افزائی انسان کے دکھوںکو کم کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے‘ لیکن کئی دفعہ رنج اور دکھ کی یہ کیفیت اس حد تک بڑھ جاتی ہے کہ قریبی اعزہ و اقربا کی ہمدردی اوردلاسے بھی انسان کو اس کیفیت سے نجات نہیں دلا پاتے۔ غم اور بے قراری کی کیفیت زیادہ دیر برقرار رہنے کی وجہ سے انسان نفسیاتی مریض بن جاتا ہے۔ غموں اور پریشانیوں کی وجہ سے لاحق نفسیاتی عارضے انسان کے تمام مشاغل اور سرگرمیوں پرنہایت منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ترقی پذیر معاشروں میں عام طور پر نفسیاتی بیماریوں ، مسائل ، عوارض ، ذہنی تناؤ اور تفکرات کو خاطر خواہ حیثیت نہیں دی جاتی اور اس کو عموماً وہم سمجھ کر نظر اندازکر دیا جاتا ہے۔ نفسیاتی عارضوں میں مبتلا شخص کو بہت زیادہ توجہ اور پیارکی ضرورت ہوتی ہے۔ مناسب توجہ اور علاج معالجہ نہ ملنے کے باعث نفسیاتی مسائل انتہائی گمبھیر ہو جاتے ہیں۔ مایوس اور مضطرب شخص معاشرے کی تعمیر وترقی کے لیے اپنا کرادار ادا کرنا تو درکنار، الٹا معاشرے پربوجھ بن جاتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں لوگ طرح طرح کے نفسیاتی مسائل اور عارضوں کا شکار ہیں جن میں احساس کمتری، احساس محرومی،حسد، جنسی گھٹن، بے قراری اورڈیپرشن سرفہرست ہیں۔ چند برس قبل ایک انگریزی اخبار میں ایک تجزیاتی رپورٹ شائع ہوئی جس میں واضح کیا گیا تھا کہ پاکستان کی دو تہائی آبادی کسی نہ کسی نفسیاتی مرض کا شکار ہے۔ نفسیاتی بیماری یا غم جب طول پکڑ جاتے ہیں تو انسان کو اپنی زندگی بوجھ لگناشروع ہو جاتی ہے۔ تندرست انسان کھانے پینے، سیر و سیاحت اور میل جول سے توانائی اور سکون حاصل کرتا ہے جبکہ نفسیاتی مریض کو ان تمام معاملات ِ زندگی سے خوشی اور سکون حاصل نہیں ہوتا۔
نفسیاتی مریض اپنے دل اوردماغ میں عجیب قسم کی اداسی، مایوسی اور بے قراری محسوس کرتا ہے اور روزمرہ کی دلچسپیوں اور مشاغل سے اس کی رغبت بہت کم ہو جاتی ہے۔کئی بار نفسیاتی اور ذہنی خلفشارکا شکار انسان رات کو سونے سے قاصر رہتا اور 24گھنٹے منفی اور مایوس کن خیالات کے تانے بانے بُنتا رہتا ہے۔ یہ نفسیاتی الجھاؤ، پریشانیاں اور غم انسان کی فکری صلاحیتوں اوراستعداد کو اس حد تک متاثر کرتے ہیں کہ بے قراری اور نفسیاتی عارضوں کا شکار ہونے والا انتہائی ذہین وفطین انسان بھی دوسروں کو سست ،کاہل اور ناکارہ محسوس ہوتا ہے۔ عام طور پر کم پڑھے لکھے لوگ مغموم اور مایوس شخص کی ذہنی کیفیت اور تکلیف کودرست تسلیم نہیں کرتے اور ایسے شخص کو خواہ مخواہ طعن و تشنیع کا نشانہ بنا کراس کے غم اور پریشانیوں میں مزید اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اس کے برعکس پڑھے لکھے لوگ نفسیاتی امراض اور پریشانیوںکے بڑھتے ہوئے اثرات کو دیکھ کر نفسیاتی معالج اورماہرین سے رجوع کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات بالعموم انتہائی درجے کے نفسیاتی دباؤکوکرنے کے لیے مریض کومسکن ادویات دیتے ہیں۔ ان ادویات کے استعمال سے وقتی طور پر انسان کے اعصابی تناؤ میں کمی آجاتی ہے لیکن اس کا منفی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان بتدریج ان ادویات کا عادی ہوجاتا ہے اور اس کے استعمال کے بغیر اس کے لیے زندگی گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
میں نے اپنی زندگی میں ڈیپرشن اور دیگرنفسیاتی امراض کے شکارکئی ایسے اشخاص دیکھے ہیں جو برس ہا برس بھاری مقدار میں مسکن ادویات استعمال کرتے رہے۔ ماہرین نفسیات مسکن ادویات کے علاوہ علاج کے لیے تحلیل نفسی اور ہپناٹزم کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ نفسیات کے علم کی افادیت اور اہمیت مسلّم ہے اورتحلیل نفسی یقیناً ایک مؤثرطریقہ علاج ہے لیکن سچی بات یہ ہے کہ نفسیاتی امراض کا حقیقی اور مؤثر ترین علاج دین کی طرف پلٹنے میں ہی ہے۔ سائنس اور مادے کی ترقی نے جہاں انسانوںکی سہولیات، تعیشات اور مصروفیات میں اضافہ کیا ہے وہیں انسان کو اپنے رب کی بندگی اور عبادت سے دور کر کے دلوں کو مردہ بھی کر دیا ہے۔ مادہ پرستی نے انسان سے ایثار، محبت، قربانی اوررحم کے اوصاف چھین کر اسے خود غرضی، بے مروتی ،خود پسندی اور انانیت کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اس ساری صورت حال کو بھانپ کر ہی علامہ اقبال نے کہا تھا:
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
بعض لوگ نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے علما اورروحانی معالجین سے رجوع کرتے ہیں ۔ صحیح روحانی معالج اورعالم باعمل انسان کو قرآن و سنت کی طرف پلٹنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ جس طرح جسم کو اچھی خوراک کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح انسان کو توانا رہنے کے لیے پروردگارکی یاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ رعد کی آیت28 میں ارشاد فرمایا کہ مومن اپنے دلوںکو اللہ کی یاد سے مطمئن کرتے ہیں۔کیا اللہ کے ذکر سے دلوںکو اطمینان نہیں ملتا۔ خود نفسیات کا علم بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہے کہ انسان کو اپنے خالق اور پروردگار کی عبادت سے ذہنی سکون حاصل ہوتا ہے۔ قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ نے جہاں کتاب ہدایت کے طور پر نازل فرمایا ہے وہیں اس کتاب میں انسان کے نفسیاتی عارضوں، غموں، بے چینیوںاور دل کی بے سکونی کا علاج بھی تجویز فرما دیا ہے۔ قرآن مجید میں خوف اور غم کی کیفیت سے نجات حاصل کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت سی تدابیر بتلائی ہیں ۔ چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔آنے والی مصیبت پر صبر کرنا: سورہ بقرۃ کی آیات 155،156 اور157 میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو واضح کیا کہ جب انسان اپنی زندگی میں ہونے والے نقصانات کو اللہ کا حکم سمجھ کر صبر کرتا ہے اور''انا للہ وانا الیہ راجعون‘‘ کا ورد کرکے اپنے آپ کو سمجھاتا ہے کہ ہمیں اپنے اللہ کی طرف پلٹنا ہے تواللہ تعالیٰ اس کے غموںکو دور فرما کراس پر رحمتوں کا نزول فرماتے ہیں اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔
2۔ اللہ کی ذات پر بھروسہ: جو لوگ اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کردیتے ہیں تو سورہ طلاق کی آیت نمبر3کے مطابق اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے لیے کافی ہوجاتے ہیں۔
3۔ مصیبتوں کے وقت دعا: جو شخص تکلیف ومصیبت میں اللہ کی بارگاہ میں آکر دعا مانگتا ہے تو سورہ نمل کی آیت نمبر 62 کے مطابق اللہ تعالیٰ اس کی فریاد سنتے اور اس کی تکالیف اور مشکلات کو دور فرما دیتے ہیں۔اس سلسلے میں سورہ انبیاء میں مذکور حضرت یونس علیہ السلام کی دعا خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔ جو شخص بھی ''لا الہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین‘‘ کا ورد کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے تمام غموںکو دور فرما دیتے ہیں۔
4۔ ایمان اور تقویٰ کے راستے کو اختیار کرنا: جو شخص اللہ کی ذات پر پختہ ایمان رکھتا ہے اور اپنے آپ کو ہر طرح کے گناہوں سے بچاتا ہے تو سورہ یونس کی آیت نمبر62 کے مطابق ایسا شخص اللہ کے دوستوں میں شامل ہوتا ہے اور ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ خوف اور غم سے نجات دے دیتے ہیں۔
5۔ اپنے مال کو خفیہ اور علانیہ اللہ کے راستے میں خرچ کرنا: جو شخص تواتر کے ساتھ خفیہ اور علانیہ اپنے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرتا ہے تو سورہ بقرۃ کی آیت نمبر274 کے مطابق ایسے شخص کا اجر اللہ کے پاس ہے اور ایسے شخص کو کوئی خوف اور غم نہیں ہوگا۔
صحیح عالم اور روحانی معالج کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کو اپنی ذات کی طرف مائل کرنے کی بجائے اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی طرف متوجہ کرے۔ اگر دور حاضرکا مسلمان قرآن مجید کی حکمتوں پر عمل پیرا ہو جائے تو اس کے تمام نفسیاتی اور مادی مسائل آناً فاناً حل ہو سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ موجودہ دور میں پریشانیوں کے شکار لوگوںکی اکثریت کا سبب قرآن وسنت سے دوری ہے۔علامہ اقبال نے بجا طور پر کہا تھا:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر