ہمارے وطن پاکستان میں ایک عرصے سے امن و امان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ بدامنی کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے بھی معاشرے میں ہمہ وقت ایک بے یقینی کی کیفیت پائی جاتی ہے۔ بے روزگاری اور معیشت کی ابتر صورتحال بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اس ساری بدحالی کے باوجود پاکستانی معاشرہ اس اعتبار سے کافی بہتر سمجھا جاتا رہا ہے کہ ہمارا خاندانی نظام مربوط اور معاشرے کی مجموعی اخلاقی صورتحال تسلی بخش ہے‘ لیکن گزشتہ چند برسوں میں بدکرداری کے واقعات میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔
بدکرداری کا ہر واقعہ قابل مذمت ہے‘ لیکن جب معصوم بچے اس کا نشانہ بنیں تو اس پر ہر صاحب دل خون کے آنسو روتا ہے۔ حسین خان والا کے سانحے پر پورا معاشرہ شرمسار ہے۔ اس قسم کے واقعات میں ملوث وحشی درندے کسی بھی قسم کی رو رعایت کے مستحق نہیں‘ انہیں سرعام کڑی سزا ملنی چاہیے تاکہ آئندہ کسی بدطینت اور بدکردار شخص کو ایسا عمل کرنے کی جرأت نہ ہو۔ اس موقع پر جہاں پوری قوم کو یکجا ہو کر وحشی درندوں اور عصمت کے بیوپاریوں کے خلاف آواز اُٹھانی چاہیے‘ وہاں اس قسم کے واقعات کے مستقل تدارک کے لیے ٹھوس اقدامات بھی ہونے چاہئیں۔ بعض بے ضمیر اس گھٹیا کاروبار سے کروڑوں ڈالر کما رہے ہیں۔ اس واقعہ کی غیر جانبدار تحقیقات کرانا اور مجرموں کے اصل مقاصد کو بے نقاب کرنا حکومت اور ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کے اسباب کو سمجھنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔
حالیہ سالوں میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات میں بہت زیادہ اضافے کی متعدد وجوہ ہیں۔ ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں:
1۔ بڑے پیمانے پر فحش مواد کا پھیلاؤ: حالیہ سالوں میں معاشرے میں بڑے پیمانے پر فحش مواد کا پھیلاؤ ہوا ہے اور یہ مواد سی ڈیز، انٹرنیٹ اور کیبل نیٹ ورکس کے ذریعے پورے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔ جب نوجوان اس قسم کے مواد کو دیکھتے اور پڑھتے ہیں‘ تو ان میں جنسی ہیجان پیدا ہوتا ہے۔ نوجوانوں کے لیے صحت مند تفریحی سرگرمیاں نہ ہونے کے برابر ہیں اور وہ اپنی توانائیوں کو میدانی کھیلوں میں استعمال کرنے کی بجائے میڈیا کے غلط استعمال پر صرف کر رہے ہیں‘ جس سے وہ بڑی تیزی کے ساتھ اخلاقی انحطاط کا شکار ہو رہے ہیں۔ بے قابو خواہشات کااظہار زنا بالجبر اور بچوں کے ساتھ جنسی زیادتیوں کی شکل میں ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ برائی کا مرتکب شخص اس کے دوبارہ ارتکاب میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ بے باک ہو جاتا ہے اور رفتہ رفتہ ہلاکت کے گڑھے میں گر جاتا ہے۔
2۔ بری صحبت: اچھے افراد کے مشاغل مثبت جبکہ برے افراد کے منفی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ بری صحبت انسان کی تباہی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ برے افراد کی صحبت میں بیٹھنے والے بہت سے افراد منشیات، جوئے اور بدکرداری کے عادی ہو جاتے ہیں۔ برے دوست‘ انسان کی برے کاموں میں معاونت اور حوصلہ افزائی کرکے اس کے ضمیر کی آواز کو دبانے میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔ کم عمری میں چونکہ شعور ناپختہ ہوتا ہے اس لیے صحیح دوستوں کے چناؤ میں مشکل پیش آتی ہے۔ والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بچوںکی صحبت پر نظر رکھیں اور اگر ان کے تعلقات کسی منفی کردار والے بچے یا نوجوان سے ہو جائیں‘ تو ان کا فی الفور احتساب کر کے ان کو بھٹکنے سے بچائیں۔
3۔ والدین اور بچوں کے درمیان فاصلہ: والدین کو اپنے بچوں کو خود سے زیادہ فاصلے پر نہیں رکھنا چاہیے۔ ان کی دلچسپیوں اور سرگرمیوں کا خود بھی حصہ بننا چاہیے۔ ان کے روزمرہ معمولات کے بارے میں معلومات رکھنی چاہئیں۔ جو والدین اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ برتاؤ رکھتے ہیں وہ اپنے بچوں کے بدلتے ہوئے رجحانات سے بروقت آگاہ ہو جاتے ہیں اور کسی بھی منفی تبدیلی پر بروقت قابو پا سکتے ہیں۔ والد کی اپنے بچے اور والدہ کی اپنی بچی سے دوستی ان کی شخصیت کی نشوونما اور پختگی میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ دور حاضر میں معیشت کی گاڑی کو چلانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ضروریات زندگی کو پورا کرنا کسی آزمائش سے کم نہیں۔ ان حالات میں کئی گھروں کے معاملات کو درست رکھنے کے لیے شوہر اور بیوی کو بیک وقت محنت کرنا پڑتی ہے۔ معاشی ذمہ داریوں کی وجہ سے کئی مرتبہ والدین اپنے بچوں کے مشاغل سے غافل ہو جاتے ہیں اور اسی دوران اولاد بھٹک جاتی ہے۔ والدین کو اپنا معیار زندگی بلند کرنے پر نسبتاً کم اور اولاد کی تربیت پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ اگر اولاد کی تربیت درست ہوگئی تو معیار زندگی پر کیے گئے سمجھوتے کا وقت کے ساتھ ساتھ خودبخود ازالہ ہو جائے گا۔ دور حاضر کے بہت سے والدین اور ان کی اولادوں کے درمیان ''جنریشن گیپ‘‘ پایا جاتا ہے۔ بعض ناخواندہ یا کم پڑھے لکھے والدین جدید ٹیکنالوجی کے منفی اثرات سے بے بہرہ ہیں۔ وہ کمپیوٹر پر مشغول بچوں کو تعلیمی معاملات میں مصروف سمجھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں جبکہ حقیقت میں اس ٹیکنالوجی کا غلط استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے۔ والدین کو بچوں کو ہمیشہ اپنی آنکھوں کے سامنے رکھنا چاہیے اور ان کے کمپیوٹر اور موبائل فون کے استعمال کی نگرانی کرنی چاہیے تاکہ ان کو بے راہ روی سے بچایا جا سکے۔
4۔ دینی تعلیمات سے دوری: ہمارا معاشرہ بتدریج دینی تعلیمات سے دور ہوتا جا رہا ہے۔ قرآن مجید میں ظاہری اور پوشیدہ گناہوں اور برائیوں کی بھرپورطریقے سے مذمت کی گئی ہے۔ بدکرداری اور منکرات کو اُخروی تباہی کے ساتھ ساتھ دنیا کی تباہی اور بربادی کا بڑا سبب قرار دیا گیا ہے۔ چونکہ ہمارے سماج میں قرآن مجید کو سمجھنے کا شوق اور جستجو نہیں ہے‘ اس لیے برائی کے کاموں کے نقصانات کے بار ے میں بھی شعور اور آگاہی کی سطح انتہائی پست ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں سورہ بنی اسرائیل میں زنا کے قریب جانے سے بھی منع کیا ہے، وہیں پر اللہ تعالیٰ نے جنسی بے راہ روی کا شکار قوم سدوم کا ذکر بھی قرآن مجید میں بڑی تفصیل سے کیا ہے۔ اس قوم کے لوگ جنسی طور پر عورتوں کی بجائے مردوں کی طرف مائل تھے۔ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی حضرت لوط ؑ ان کو صحیح راستے پر آنے کی دعوت دیتے رہے‘ لیکن ان ظالموں نے حضرت لوط ؑ کی دعوت کو ٹھکرا دیا۔ حضرت لوط ؑ اصلاح کی شرط پر قوم کے لوگوں کے ساتھ اپنی بیٹیاں بیاہنے پر بھی آمادہ ہو گئے‘ لیکن ان بدبختوں نے اپنے رسول کی دعوت کو قبول نہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کو بلندی پر اُٹھا کر پستی کی طرف پٹخ دیا اور اس قوم کے ہر بدکار شخص کو نشانہ باندھ باندھ کر پتھروں سے کچل ڈالا۔ قوم لوطؑ کا واقعہ آنے والی قوموں کے لیے باعث عبرت ہے۔ اس درس عبرت کو حاصل کرنے کے لیے قرآن و سنت سے وابستگی انتہائی ضروری ہے۔ یہ المیہ ہے کہ عصری تعلیم و ترقی کا جذبہ رکھنے والی قوم اس نسخہ کیمیا سے غافل ہے‘ جسے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوںکی فلاح و نجات کے لیے نازل فرمایا۔
5۔ نکاح میں غیرضروری تاخیر: اسلام میں ہر عاقل و بالغ شخص کو جلد از جلد نکاح کی ترغیب دی گئی ہے۔ دور حاضر میں کچھ لوگ جہیز کی مجبوری اور کچھ لوگ لاپروائی کی وجہ سے خواہ مخواہ اپنی اولاد کے نکاح میں تاخیر کرتے ہیں۔ اولاد اور والدین کے درمیان فطری طور پر حجاب ہوتا ہے جس کی وجہ سے اولاد کھل کر اپنی خواہشات کا اپنے والدین سے اظہار نہیں کر پاتی۔ اگر اشارو ں کنایوں میں کسی وقت اظہار کیا بھی جائے تو والدین اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اس رویے کی وجہ سے معاشر ے میں ناجائز تعلقات اور جنسی بے راہروی کے دروازے کھلتے ہیں۔ بداخلاقی کی روک تھا م کے لیے والدین کو اپنی اولاد کی بلوغت کے بعد جلد از جلد ان کے نکاح کا بندوبست کرنا چاہیے تاکہ ان کو صاف ستھری زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
6۔ جرم و سزا کا کمزور نظام: جرم و سزا کے کمزور نظا م کی وجہ سے بھی معاشرے میں جرائم کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ایک مجرم کو کھلے عام پھرتا دیکھ کر دوسرے مجرم حوصلہ پکڑتے ہیں۔ حکمرانوں کے بلند بانگ دعووں کے باوجود عام طور پر جنسی جرائم میں ملوث افراد قانون کی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ اگر معاشرے میں جنسی جرائم میں ملوث افراد کو شرعی تقاضوں کے مطابق کڑی سزائیں دی جائیں تو بیمار ذہنیت کے بہت سے لوگ اس قسم کے جرائم کے ارتکاب سے باز آسکتے ہیں۔
ان تما م تجاویز پر عمل کو یقینی بنانے میں حکومت کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ طبقے، اساتذہ اور طلبہ نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹی اورکالجزکے فیکلٹی ممبران، مدارس کے اساتذہ، مساجد کے خطیبوں اور دینی اور دنیاوی طالب علموں کو معاشرے کی اخلاقی حالت بہتر بنانے کے لیے اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں جنسی جرائم کے خاتمے کو یقینی بنایا جا سکے۔