"AIZ" (space) message & send to 7575

نظریاتی سیاست کی ضرورت!

سیاست امور حکومت چلانے کے لیے کی جاتی ہے اور یہ ان تدابیر پر مشتمل ہوتی ہے جن کے ذریعے حکمران ریاستی معاملات چلاتے ہیں۔ سیاست انبیا اور خلفائے راشدین نے بھی کی اور اپنے حسن تدبیر سے اس شعبے کو نئی جہتوںسے روشناس کرایا۔ لیکن فی زمانہ سیاستدانوں کی بڑی تعداد اقتدارکے ایوانوں تک پہنچنے کے لیے ہر جائز و ناجائز ذریعہ استعمال کرتی ہے۔
سیاست کی تاریخ لہو سے رنگین ہے اور حکمرانوں نے مختلف ادوار میں اپنے مخالفین کو انتقام اور تشدد کا نشانہ بنانے کے لیے ہر طرح کے منفی ہتھکنڈے اختیارکیے۔ جبر و تشدد اور خون ریزی کے ذریعے اختیار ایک شخص سے دوسرے شخص اور ایک خاندان سے دوسرے خاندان کو منتقل ہوتا رہا۔ برصغیر میں ایسے خاندان بھی گزرے جن سے تعلق رکھنے والے شہزادوں نے اپنے سگے بھائیوںکے خون سے ہولی کھیلی تاکہ و ہ ان کے ساتھ شریک اقتدار نہ ہوسکیں۔ایسے بادشاہ بھی گزرے جنہوں نے اقتدارکی خاطر اپنے باپ کو قید میں ڈال دیا۔ اقتدار کی خاطردوسروں کے ساتھ بدسلوکی کرنے والے افراد اپنے غلط اقدامات کے لیے ہمیشہ منفی جواز تلاش کرتے رہے اور اہل اختلاف کو باغی اور فسادی سے تعبیر کرتے رہے۔ اس کے برعکس اہل اختلاف، اہل اقتدارکو بالعموم غاصب، ظالم ، جابر اور فرعونی صفت کے حامل حاکم قرار دے کر اپنی مخالفت کا جواز عوام کے سامنے رکھتے رہے۔
بسا اوقات مخلص اہل اقتدار نے واقعتاً ریاست کو فسادی اور فتنہ پرور عناصر سے نجات دلائی۔اسی طرح کئی مرتبہ اہل اختلاف نے بھی حقیقت میں فرعون صفت حکمرانوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے مخلصانہ جدوجہد کی اور یہ حق پرست افراد کئی مرتبہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوئے جبکہ کئی مرتبہ مادی اعتبار سے ناکام ہوئے اورجام شہادت نوش کیا یا قیدو بندکی صعوبتیں برداشت کیں۔اپنے اقتدارکو ہر طریقے سے دوام دے کر اس کے تحفظ کے لیے کوششیں کرنے والے اورحکمرانوں سے ہر جائز و ناجائز طریقے سے اقتدار اور اختیار چھیننے کی کوشش کرنے والے لوگ ''پاور پالیٹکس‘‘ یعنی سیاست برائے اقتدار پر یقین رکھتے ہیں جبکہ اس کے بالمقابل اپنے نظریات پر استقامت اختیار کرنے والے اور ان کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے والے لوگ نظریاتی سیاست کے علمبردار ہوا کرتے ہیں۔
پاور پالیٹکس کرنے والے لوگوں کی نظروں میں انسانی جانوں، املاک اور اموال کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔اس کی حالیہ مثالیں اسرائیل اور برما کے اقتدار پسند طبقات ہیں جنہوںنے ہزاروں کی تعداد میں مظلوم مسلمانوں کا قتل عام کیا اوراس سلسلے میں نہ توعمر کا لحاظ کیا اورنہ ہی صنف کا۔ ظلم کی کوئی حد ہی نہ رہی۔مسلمانوں کے گھروں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا ڈالا اور ان کے ساتھ وہ سلو ک کیا جس نے چنگیز خان اور ہلاکو خان کے مظالم کو بھی بھلا دیا۔
اس کے برعکس مسلمانوں اور غیرمسلموں میں کئی ایسے رہنما بھی گزرے جنہوں نے ہر آزمائش کو جھیلا مگر وقت کے حکمرانوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر تیار نہ ہوئے۔ حضرت اما م مالک ؒ، حضرت امام حنبل ؒاور امام ابن تیمیہ ؒ نے سلاطین وقت کے جبرکے باوجود ان کے سامنے حق بات کی ۔کوڑوں کی سزاؤں اور قید و بند کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا لیکن وقت کے جابر کے سامنے جھکنا گوارا نہ کیا۔
تحریک پاکستان کے رہنما بھی اصول پرست اور نظریات پرقائم رہنے والے لوگ تھے۔ان لوگوں نے تاریخ رقم کی۔مولانا محمد علی جوہر، مولانا ظفر علی خان، علامہ محمد اقبال اور حضرت محمد علی جناح نے اپنی سیاست کو نظریات کی بنیاد پراستوارکیا اوراپنے کردار سے لوگوں کے سامنے اس حقیقت کو واضح کیا کہ سیاست شخصی مفادات سے بالاتر ہوکر بڑے مقاصد کے لیے جدوجہد کرنے کا نام ہے۔
قیام پاکستان کے بعد بھی بہت سے ایسے رہنما گزرے جو اعلیٰ سیاسی اقدارکے حامل تھے اور عہدوں اورمناصب کے حصول کے لیے نظریات پر سمجھوتہ نہیں کرتے تھے۔
نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم کی جمہوریت کے ساتھ و الہانہ وابستگی تھی۔ انہوںنے اس وابستگی کا حق ادا کر دیا اور مختلف ادوار میں کی جانے والی پیشکشوںکو حقارت کے ساتھ ٹھکرادیا۔اہل صحافت میں اس کی ایک بڑی مثال آغا شورش کاشمیری کی عظیم شخصیت ہے جنہوںنے ہر دورکے آمروں کے خلاف حق کا بے باکی کے ساتھ اظہارکیا اور عطاء اللہ شاہ بخاری ؒ اور مولانا ابوالکلام آزاد ؒکی شاگردی کا حق نبھایا۔کئی مرتبہ ان کو قیدوبند کی صعوبتیں سہنا پڑیں مگر شورش مرحوم نے پورے وقار اورتمکنت کے ساتھ ان مشکلات کو برداشت کیا۔جناب ذوالفقارعلی بھٹو اور غلام مصطفی کھر کے سخت ترین اقدامات کے باوجود آپ سوشل ازم کے خلاف برہنہ شمشیر بنے رہے۔والد گرامی(علامہ احسان الہی ظہیر) بھی نوابزادہ نصراللہ خاں مرحوم اور آغا شورش کاشمیری کی استقامت اور نظریات سے وابستگی کے معترف تھے اورکئی مرتبہ ان کے واقعات ہمارے سامنے رکھاکرتے تھے۔
نظریاتی سیاست سے وطن کے گلشن کو مہکانے والے یہ لوگ سفید پوشی کی زندگی گزارتے رہے اور اسی سفید پوشی کی حالت میں بڑی بڑی تحریکوں کی قیادت اور سیادت فرماتے رہے، لیکن اپنے دامن پرکسی قسم کی مالی یا اخلاقی کرپشن کا دھبہ نہیں لگنے دیا۔ معاصر رہنماؤں اور ماضی قریب کے قائدین میں سے شاہ فیصل مرحوم اور نیلسن منڈیلا نظریاتی سیاست کی عمدہ ترین مثالیں ہیں۔شاہ فیصل مرحوم نے اُمت کو ایک اکائی کی شکل دینے کے لیے تمام تر صلاحیتوںکو استعمال کیا اور ملت کو ایک لڑی میں پرو دیا۔اسی جرم میں انہیں جام شہادت بھی نوش کرنا پڑا۔ ملا عمر نے بھی قلت وسائل اور کمزور عسکری طاقت کے باوجود وقت کی سپر پاور کے ظلم اور جبر کاکھل کر مقابلہ کیا اور اپنی تحریک کو مشکل ترین حالات میں بھی جاری و ساری رکھا۔
نیلسن منڈیلا نے بھی نسلی تعصبات کے خلاف بھر پور طریقے سے جدوجہد کی اور برس ہا برس تک جیل خانوں اور سلاخوں کے پیچھے رہ کر بھی اپنی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کر کے دم لیا۔ تاریخ میں ان کا نام آزادی کے علمبردار کے طور پر لیا جاتا رہے گا۔ سعودی عرب کے موجودہ فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز بھی ایک نظریاتی لیڈر کی حیثیت سے منظر عام پر آئے ہیں۔ امریکہ کے صدر بارک اوباما کو نمازکی ادائیگی کے لیے تنہا چھوڑکر انہوں نے اُمت مسلمہ کے دل جیت لیے۔ مسلمان توقع رکھتے ہیںکہ شاہ سلمان ، شاہ فیصل کی روایات کو آگے بڑھاتے ہوئے حرم کے صحیح پاسبان ثابت ہوں گے۔ آج بھی ہمارے وطن اور اُمت مسلمہ کو اِن جیسے رہنماؤں کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان لمبے عرصے سے پاورپالیٹکس کی زد میں ہے۔چڑھتے سورج کی پوجا کی جاتی ہے اور سورج کو ڈھلتا یا ڈوبتا دیکھ کر لوگ فی الفور اپنی وفاداریاں تبدیل کرلیتے ہیں۔جماعتوں اور وفاداریوں کو تبدیل کرنے والے لوگوں کی مذمت نہیں کی جاتی بلکہ ان کو معاملہ فہم اورزیرک سیاستدان قرار دیا جاتاہے جبکہ اپنے نظریات کا برملا اظہارکرنے والے اور ان پر استقامت اختیارکرنے والے لوگوںکو ناعاقبت اندیش اور ناکام سیاست دان گردانا جاتاہے۔
پاکستان میں نظریاتی سیاست کے انحطاط کا عالم یہ ہے کہ دینی جماعتیں بھی کھل کر اپنے نظریات کا اظہار کرنے سے احتراز کرتی ہیں۔عوامی حقوق اور جمہوری آزادیوں کا تذکرہ تو بر سرعام ہوتا ہے جبکہ نفاذ اسلام اور آئین کی اسلامی دفعات کی عملداری کا تذکرہ خال خال ہی ہوتا ہے ۔روٹی ،کپڑا اور مکان کی بات تو ہر فورم پرکی جاتی ہے مگر قحبہ گری ، شراب نوشی اور سودی نظام کے خلاف آواز اُٹھانے میں دقت محسوس کی جاتی ہے۔دینی جماعتوںکے اس رویے نے جہاں نفاذ اسلام کی منزل کو دورکیا ہے وہاں دینی جماعتوں کو اقتدار سے بھی کوسوں دورکر دیا ہے۔اگر ہمارے قائدین اور سیاسی جماعتیںسیاسی کلچرکو بہتر بنانا چاہتی ہیں تو ان کو سیاست برائے اقتدارکو چھوڑکر سیاست برائے نظریات کو اپنانا ہوگا ، وگرنہ اقتدار اور جاہ پرستی کے نتیجے میں آئے دن ٹکراؤ اور تصادم ہوتے رہیں گے اور ہم قیام پاکستان کے مقاصد اور نظریہ پاکستان کے تقاضوں سے دور ہوتے رہیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں