انسان کا قیام اس دنیا میں عارضی ہے اورا س کو جلد یابدیر اپنے خالق حقیقی کی طرف پلٹنا ہے۔ اس دنیامیں رہتے ہوئے انسان جو کچھ بھی کرے گا آخرت میں اس کو اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ سورۃ الزلزال میں اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو بیان فرمایا کہ جو ذرہ برابر نیکی یا گناہ کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا ۔
انسانوں کی اکثریت دنیا داری میں الجھ کر اپنی آخرت کو فراموش کر چکی ہے۔ دنیا کی عارضی زندگی کی رونقیں اور حسن انسان کو اس حد تک جذب کرلیتا ہے کہ وہ اس عارضی زندگی کی ترقی ہی کو اپنا حقیقی ہدف سمجھ لیتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں اچھی زندگی گزارنے کی مکمل اجازت دی ہے بشرطیکہ انسان اپنی آخرت کو تباہ نہ کر بیٹھے۔ سورہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی ایک اچھی دعا کا ذکر کیا ہے کہ وہ اپنے پروردگار سے دعا مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی بہترین عطا کر اور آخرت میں بھی بہترین عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔ یہ ایک بہترین دعا ہے اور اس میں دین اور دنیا کی طلب میں توازن نظر آتا ہے ۔ جو انسان متوازن سوچ کا حامل ہوتا ہے وہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہتا ہے اور اپنے آپ کو گناہوں اور نافرمانیوں سے بچائے رکھتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے اور سورہ ا ٓل عمران میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے علاوہ کسی بھی اور دین کا انتخاب کرنے والوں کے آخرت میں خسارے کا ذکر کیا ہے۔ اسلام جیسے دین کا حامل ہونا یقینا اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا فضل ہے لیکن فقط صحیح راستے کا مل جانا کافی نہیں بلکہ انسان کو حتی الوسع اچھے اعمال کو بجالانے کی بھی جستجو کرنی چاہیے۔
سورۃ العصر میں اللہ تعالیٰ نے زمانے یا عصر کے وقت کی قسم اُٹھا کر انسان کو خسارے میں قرار دیا سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے اور حق اور صبر کی تلقین کرتے رہے۔ اگرچہ معمولی علم رکھنے والا مسلمان بھی اس حقیقت سے واقف ہے کہ نیکیاں اور اچھے اعمال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور اخروی کامیابیوں کے حصول کا سبب ہیں ۔ لیکن اس باوجود انسانوں کی اکثریت غفلت کی وجہ سے اخروی کامیابیوں کی طرف متوجہ نہیں ہوتی ۔ انسانوں کو اخروی نجات اور کامیابیوں کی طرف متوجہ کرنے کے لیے مسلسل یاددہانی کی ضرورت ہے ۔ اگر انسان قرآن وسنت کے مطالعے اور اچھی صحبت سے دور ہو جائے تو بہت جلد غفلت کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اس غفلت سے نجات حاصل کرنے کے بعد انسان اور اخروی کامیابیوں کے راستے میں چار بڑے فتنے حائل ہیں جن سے بچے بغیر کوئی بھی انسان کما حقہ اپنے خالق ومالک کو راضی نہیں کر سکتا ۔
پہلا فتنہ جس کا سامنا ہر نیکی کی جستجو کرنے والے انسان کو کرنا پڑتا ہے وہ ریاکاری ہے۔ بہت اچھے اور خوش نما اعمال فقط دکھلاوے کی وجہ سے بے وزن ہی نہیں ہو جاتے بلکہ انسانوں کی ہلاکت پر منتج ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ حدیث پاک میں بہت بڑے سخی، شہیداورقاری کا ذکر ہے کہ جن کو ان کے اچھے اعمال کے باوجود فقط دکھلاوے کی وجہ سے جہنم میں جانا پڑے گا۔ اللہ تعالیٰ اس عمل کو قبول فرماتے ہیں جو خالص اس کی رضاکے لیے کیا جائے اور جس عمل میں خودنمائی اور خود پسندی کا عنصر ہو اللہ تعالیٰ اس عمل کو برباد کر دیتے ہیں ۔ دور حاضر میں خالص اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے اعمال کرنے والے لوگ بہت کم ہیںاور لوگوں کی اکثریت دنیا ہی میں اچھے اعمال کا بدلہ شہرت اور تعریف کی شکل میں چاہتی ہے۔ یہ روش انسان کی تباہی پر منتج ہو گی اور وہی لوگ اللہ تعالیٰ کی جنت میں داخل ہوں گے جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضااور خوشنودی والے اعمال کیے ہوں گے۔
ریاکاری کے بعد دوسرا بڑا فتنہ مال ہے۔ انسان کو فطری طور پر مال سے بڑی محبت ہے ۔ اچھا گھر ، اچھی سواری، نقدی اور زیورات کی فراوانی اس کی فطری خواہش ہے ۔ اس خواہش کے ہونے میں اس وقت تک کوئی حرج نہیں جب تک انسان اس خواہش کی تکمیل کے لیے منفی راستوں کو اختیار نہیں کرتا ۔ محنت ، جدوجہد اور حلال طریقے سے اپنی خواہش کی تکمیل کے لیے کوشش کرنا ہر اعتبار سے جائز ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حق یعنی زکوٰۃو عشر ادا کرنے والے اس مال کی وجہ سے آخرت میں ندامت کا شکار نہیں ہوں گے لیکن ناجائز طریقے سے مال کو جمع کرنے والے اور لوگوں کی حق تلفی کرنے والوں کو اللہ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا ۔ اسی مال اور جاگیر کی فراوانی کی وجہ سے قارون ، شداد اور ابولہب ہلاکت کے گڑھے میں گر گئے اور دنیا میں ان کے مال ومتاع پر رشک کرنے والے لوگ ان کی تباہی اور انجام کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کی طرف مائل ہوگئے۔ انسان کو مال کماتے ہوئے شریعت کے مقرر کردہ اصولوں سے ہرگز غافل نہیں ہونا چاہیے، حلا ل اور حرام کے درمیان ہر صورت میں تمیز کرنی چاہیے اوراپنی خواہشات کو کبھی اپنے ضمیر کی آواز اور شعور پر غالب نہیں آنے دینا چاہیے۔
حب مال کے بعد انسان کی تباہی کا بڑا سبب اس کی جبلّی اور جنسی خواہشات ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے انسان میں صنف مخالف کے لیے جو کشش رکھی ہے اس کا مقصد خاندانوں کی تشکیل اور پاکدامنی کاتحفظ ہے۔ یہ کشش نسل انسانی کی بقاء میں بھی کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ اس کشش کے نتیجے میں پیدا ہونے والی خواہشات کی تکمیل کا جائز اور واحدمثبت طریقہ نکاح ہے ۔ اسلام میں نکاح کے راستوں کو آسان بنانے کی تلقین کی گئی ہے اور زنا ، ہم جنس پرستی اور جنسی بے راہ روی کے ہر طریقے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔ زنا کرنا تو ایک طرف رہا قرآن کی سورہ بنی اسرائیل میں ان راستوں کے قریب جانے سے بھی روکاگیا ہے جو انسانوں کو زناکاری کی طرف لے کر جانے والے ہوں۔ زانی کے لیے کڑی سزا کو مقرر کیا گیا ۔ غیر شادی شدہ زانی کی سزا اسلام میں سو (100) کوڑے جب کہ شادی شدہ زانی کی سزا سنگسار ہے۔ اس طرح ہم جنسی پرستی کے مرتکب کے لیے بھی موت کی سزا کو تجویز کیا گیا۔ ان کڑی سزاؤں کا مقصد انسانوں کو بے راہ روی سے بچانا اور معاشرے میں فحاشی پھیلانے والے عناصر کی بیخ کنی ہے۔
آج عصری معاشروں میں جنسی بے راہ روی چیلنج کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اس کے مرتکبین جہاں دنیا میں نیک نامی سے محروم رہتے ہیں وہیں پر اخروی محرومی اور ذلت کے بھی حق دار بن جاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں مسلمانوں میں فحاشی پھیلانے کے خواہشمند افراد کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے ۔
جنسی بدامنی اورفسادکے بعد انسان کی تباہی کا بڑا سبب اس کی ز بان ہے ۔ یہ زبان غیبت ، چغلی، بدکلامی ،بہتان طرازی اور فحش گوئی کی وجہ سے دنیا اور آخرت کی تباہیوں کو جمع کرنے کا سبب بن جاتی ہے۔ اگر انسان اپنی زبان کے منفی استعمال کو روک لے اور اس کو لوگوں کی اصلاح اور اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لیے استعمال کرے تو یہی زبان انسان کی اخروی کامیابی کا سبب بن سکتی ہے۔
انسان اگر دنیا و آخرت کی سربلندی چاہتا ہے تو اس کو ریاکاری، حرام کمائی، بے راہ روی اور زبان کے غلط استعمال سے بچ جانا چاہیے۔ اگر انسان اپنے آپ کو ان بڑے فتنوں سے محفوظ کرلے تو اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے دنیا وآخرت میں سر بلند ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کا اظہار سورہ نساء کی آیت نمبر 31 میں یوں فرمایا کہ ''اگر تم اپنے آپ کو بڑے گناہوں سے بچا لو جن سے تمہیں روکا گیا ہے تو ہم تمہاری خطاؤں کو معاف کر دیں گے ‘‘۔ انسان کو چاہیے اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس فرمان پر غور کرتے ہوئے اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھے میں گرانے والے فتنوں اورگناہوں سے بچا لے اور نیکی کے راستے پر چلنے کی حتی المقدور کوشش کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول اور اس کی جنت میں داخلے کے امکانات روشن ہو جائیں۔