مملکت خداداد پاکستان اللہ تعالیٰ کی وہ عظیم نعمت ہے جس کے حصول کے لیے مسلمانانِ برصغیر نے کئی عشروں تک جدوجہد کی۔ حضرت قائد اعظم محمد علی جناح، حضرت علامہ اقبال، حضرت مولانا محمد علی جوہر، حضرت مولانا ظفرعلی خان اور دیگر رہنماؤں کی قیادت میں طویل عرصے تک مسلمانوں نے بیک وقت انگریز سامراج اور مکار ہندو کا مقابلہ کیا۔
اس ملک کو اپنا مسکن بنانے کے لیے ہزاروں مسلمانوں نے برصغیر کے طول و عرض سے پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ بوڑھوں کی داڑھیوں کو لہو سے رنگین کیا گیا، نوجوانوں کا قتل عام ہوا، بڑی تعداد میں مسلمان بیٹیوں کی آبروکو پامال کیا گیااورہزارہا معصوم مسلمان بچوں کو شہیدکیا گیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد90 برس کی غلامی سہنا کچھ آسان نہ تھا۔ نوعشروں کی غلامی کے بعد جب مسلمانوں کو آزادی حاصل ہوئی تو ہر چہرہ خوشی سے چمک اُٹھا اور ہر دل پرسکون ہوگیا۔ مسلمانوں کو اپنے مال کے چھن جانے، اپنے گھروں کے لٹ جانے اور اپنی عزتوں کی پامالی کا غم تو تھا لیکن اپنے خوابوں کی تعبیر دیکھ کے وہ سارے غموں کو بھول گئے۔ پاکستان کے قیام سے پاکستان کے دشمنوںکے سینوں پر سانپ لوٹ گیا اور وطن عزیر کے ان مخالفوں نے اسے غیر مستحکم کرنے کی بھر پور کوشش شروع کر دی۔ پاکستان کے ہمدرد اور بہی خواہ طبقات نے خارجی اور داخلی دشمنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل وعنایت سے پاکستان حاسدوں کے حسد کے باوجود اپنے باسیوں کے لیے خوشی، سکون اور فخر کا سبب بنا رہا۔
انڈیا نے قیام پاکستان کے دن سے ہی پاکستان کو آزاد ریاست کے طور پر قبول نہ کیا اور خواہ مخواہ پاکستان کے خلاف جارحیت پر تیار رہا۔ قیام پاکستان کے دن سے لے کر تا حال انڈیا چار جنگوں کو پاکستان پر مسلط کر چکا ہے اور جن کا مقصد پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے سوا کچھ نہ تھا۔ پہلی جنگ اکتوبر 1947ء میں کشمیر سیکٹر پر ہوئی ، دوسری جنگ ستمبر 1965ء میں ہوئی، تیسری جنگ 1971ء میں بنیادی طور پر مشرقی محاذ پر لڑی گئی، چوتھی جنگ 1999ء میں کارگل کے محاذ پر ہوئی۔ 1971ء میں پاکستان کو کاری زخم لگا، پاکستان اپنوں اور غیروں کی سازشوں کا نشانہ بنا، بعض غیر ذمہ دار اور ناعاقبت اندیش رہنماؤں کی غفلت اور خود غرضی کے ساتھ ساتھ انڈیا کی غیر قانونی مداخلت کی وجہ سے اپنے مشرقی بازو سے محروم ہوگیا۔ تاہم 1947ء،1965ء اور1999ء کی جنگوں میں پاکستان کی افواج نے جارح دشمن کی پیش قدمی کا پورے جذبے اور طاقت سے مقابلہ کیا۔ انڈیا کو منہ کی کھانی پڑی، اس کے مکروہ اور ناپاک عزائم خاک میں مل گئے اور پاکستان اللہ کے فضل سے ان تمام محاذوں پر سرخرو ہوا۔
6 ستمبر1965ء پاکستان کی تاریخ کا یادگار دن ہے۔ ہندو فوجی اپنی دانست میں لاہور پر قبضہ کرنے کے قریب تھے، لیکن پاکستانی افواج اوران کی پشت پر موجود جذبہ جہاد سے سرشارعوام کے اتحاد کی وجہ سے انڈین افواج کے قدم اکھڑ گئے۔ لاہور اور سیالکوٹ سیکٹر میںانڈین افواج کو یادگار ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ تکبیرکے نعروں اورتہلیل کی صداؤں نے انڈین فوجوں کے رُخ موڑ دیئے اور پاکستان کے خلاف جارحیت کی منصوبہ بندی کرنے والے ذلت ورسوائی سے دوچار ہوئے۔ 1965ء کی جنگ میں پوری قوم اور بالخصوص اہل لاہور وسیالکوٹ کا جذبہ دیدنی تھا۔ چونڈہ سیکٹر پر نہتے عوام انڈین ٹینکوں کے سامنے لیٹنے پر آمادہ و تیار ہوگئے اور علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تصویر بن گئے کہ ؎
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتاہے سپاہی
1971ء میں لگنے والے زخم پوری قوم کے لیے تکلیف کا باعث تھے۔ پوری قوم تادیر اس صدمے سے دوچار رہی۔ لیکن زندہ قومیں صدموں اور زخموں کی وجہ سے کبھی مایوس نہیں ہوتیں۔ سانحہ سقوط ڈھاکہ کے بعد پاکستان نے ایک نئے جذبے اور ولولے کے ساتھ نئے سفر کا آغاز کیا۔1974ء میں انڈیا نے ایٹمی ہتھیار بنا کر برصغیر میں طاقت کا توازن ختم کر دیا، ایٹمی طاقت کے نشے میں دھت ہونے کی وجہ سے انڈیا خطے کی سالمیت کے لیے بھی خطرہ بن گیا۔ انڈین حکومت اور سیاستدانوں نے کئی مواقع پر پاکستان کے ساتھ حقارت آمیز رویہ اپنانے کی کوشش کی۔ پاکستان کے قابل سائنسدانوں نے پاکستان کی اس کمزوری کو دور کرنے کے لیے انتھک کوشش کی اور چند برسوں میں غیر علانیہ جوہری صلاحیت حاصل کرلی۔
واجپائی نے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان پر ایٹم بم گرانے کی دھمکیاں دینا شروع کیں اور اکھنڈ بھارت بنانے کے ناپاک ارادے ظاہر کرنا شروع کئے۔ معاملہ صرف دھمکیوں تک محدود نہ رہا بلکہ11مئی 1998ء کو انڈیا نے باقاعدہ ایٹمی دھماکے کر کے اپنے منفی ارادوں کا برملا اعلان کر دیا۔ اس موقع پر پاکستان کی عسکری قیادت اور سائنسدانوں نے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھا اور حکومت پاکستان کواس بات پر آمادہ کیا کہ انڈیا کی جارحیت کابھر پور طریقے سے جواب دیا جائے۔ چنانچہ بین الاقوامی دباؤ،اقتصادی پابندیوں اور سفارتی تعلقات کے خاتمے کی دھمکیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان نے28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کر کے طاقت کے بگڑے ہوئے توازن کو بحال کر دیا۔ پوری قوم کو ان دھماکوں کی وجہ سے ایک نیا ولولہ، ہمت اور توانائی حاصل ہوئی۔ پاکستان ایٹمی صلاحیت کے حصول کے بعد دفاعی اعتبار سے بحمد اللہ ناقابل تسخیر ہو چکا ہے اور انڈیا سمیت پاکستان کا کوئی بھی دشمن پاکستان کو للکارنے یا اس کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔
پاکستان کے جغرافیائی دفاع کے ساتھ ساتھ اس کی نظریاتی سرحدوں کا تحفظ بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بعض عناصر وقفے وقفے سے نظریۂ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کر کے اسے ایک نظریاتی ریاست کی بجائے قومی ریاست میں تبدیل کرنے کی مذموم کوششوں میں مصروف رہتے ہیں، لیکن قرار داد مقاصد اور 1973ء کا آئین ان کے غلط عزائم پر خاک ڈال دیتا ہے۔ پاکستان کی بقاء اور وحدت لاالٰہ الا اللہ میں پنہاں ہے اور اس کو اس راستے سے ہٹانے کے نتائج انتہائی خطرنا ک ہو سکتے ہیں۔ ایک کثیرالقومی ریاست میں لسانی ،گروہی اور قبائلی اختلافات کا پیداہونا فطری بات ہے اور ان اختلافات کی تحلیل کے لیے نکتۂ وحدت و اشتراک ہمارا دین ہے جس سے روگردانی کی صورت میں ہم اپنے حقیقی اتحاد کو برقرار نہیں رکھ سکتے۔ بدقسمتی سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو نظریہ پاکستان سے کہیں زیادہ اپنے اقتدار سے دلچسپی ہے اور نظریے کے تحفظ کی ذمہ داری عام طور پر اقتدار کی منزل سے کوسوں دور مذہبی جماعتوں ، مدارس اور علماء پر ڈال دی جاتی ہے۔
پاکستان کے جغرافیائی اور نظریاتی دفاع کے ساتھ ساتھ پاکستان کو مستحکم کرنے کے لیے بھی پوری قوم کو موثر اور فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ استحکام پاکستان کے لیے حکومت اور منصوبہ سازوں کو ترجیحات کا درست تعین کرنا چاہئے اور جن شعبوں پر توجہ کی ضرورت ہے ان پرکما حقہ توجہ دینی چاہئے۔ پاکستان کے جو شعبے فی الفور توجہ کے مستحق ہیں وہ درج ذیل ہیں :
1۔ صحت 2۔ تعلیم 3۔ بے روزگاری 4۔ دہشت گردی وانتہا پسندی 5۔ بجلی اور توانائی کا بحران۔ ان تمام شعبوں پراگر صحیح طریقے سے توجہ دی جائے تو پاکستان مستحکم ریاست کی شکل اختیارکر سکتا ہے۔ ہمارے حکمران ایک عرصے سے سیاسی حریفوں کو زیر کرنے اور اپنے قریبی احباب کو نوازنے کی طرف متوجہ اور مائل ہیں۔ اگر وہ حالات اورضروریات کا صحیح طریقے سے ادراک کریں تو پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک مثالی ریاست کی حیثیت سے ابھر سکتا ہے۔