جب حاجی حجاز مقدس کا سفر کرتا ہے تو اسے مکہ مکرمہ اور بیت اللہ کی زیارت کا شرف حاصل ہونے کے ساتھ شہر حبیب ﷺاور مسجد نبوی شریف کی زیارت کا موقع بھی میسر آتا ہے۔ جس طرح مکہ مکرمہ کا رسول اللہﷺ کی ذات گرامی سے گہرا تعلق ہے کہ مکہ آپ کا مولد و مسکن ہے،اسی طرح مدینہ طیبہ کی بھی حضورﷺکی ذاتِ بابرکات کے ساتھ انتہائی گہری نسبت ہے۔ حضرت رسول اللہﷺکی زندگی کے آخری دس برس مدینہ میں بسر ہوئے اور آپ ؐنے مکہ کی فتح کے باوجود مدینہ طیبہ کو خیرباد کہنا گوارا نہیں فرمایا۔ رسول کریمﷺکو مدینہ طیبہ سے والہانہ محبت تھی اور اہلِ مدینہ نے آپ ؐسے جس محبت اور خلوص کا مظاہرہ کیا، اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں پیش نہیں کی جا سکتی۔
رسول اللہﷺ نے مدینہ طیبہ کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے خود ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث مروی ہے کہ مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں۔اس میں نہ کبھی طاعون پھیل سکتا ہے، نہ دجال داخل ہو سکتا ہے۔ مدینہ منورہ میں قیام کرنا بہت بڑی سعادت کی بات ہے، مسلمانوں کو مدینہ طیبہ میں مرنے کی آرزوکرنی چاہیے۔ جامع ترمذی میں حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: جو شخص مدینہ منورہ میں رہ سکتا ہو (یعنی اپنے آخری ایام یہاں گزار سکتا ہو) اسے ضرور مدینہ میں مرنا چاہیے کیونکہ میں اس شخص کے لیے سفارش کروںگا جو مدینہ میں مرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ہمیشہ یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے شہادت کی موت اور اپنے نبیؐ کے شہر میں دفن ہونے کی جگہ عطا فرما۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت امیر المؤمنین ؓکی دونوں دعائیں پوری فرمالیں اور ان پر مسجد نبوی میں مصلیِٰ رسول پر حالتِ نماز میں قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ آپ ؓنے مدینہ طیبہ ہی میں جامِ شہادت نوش کیا اور حجرۂ عائشہ رضی اللہ عنہا میں رسول اللہﷺکی ہمراہی میں دفن ہوئے۔
نبی کریمﷺ نے مدینہ طیبہ کے لیے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ اس میں مکہ مکرمہ کے مقابلے میں دو گنا برکت پیدا فرما۔ اسی طرح نبی پاک ؐنے یہ بھی فرمایا کہ جس نے مدینہ طیبہ میں مشکلات اور مصائب پر صبر کیا، میں اس کی گواہی دوںگا یا فرمایا میں اس کی سفارش کروں گا۔ مدینہ کے شرف میں یہ بات بھی شامل ہے کہ فتنوں کے دور میں بھی مدینہ میں ایمان اور اسلام پوری طرح سلامت رہے گا۔ بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایمان مدینہ میں سمٹ کر اس طرح واپس آ جائے گا جس طرح سانپ پھر پھرا کر اپنے بِل میں واپس آ جاتا ہے۔ مدینہ منورہ کی کھجور انتہائی خوش ذائقہ ہے اور اس میں پیدا ہونے والی کھجوروں کی ایک خاص قسم عجوہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ تاثیر رکھی ہے کہ اس میں زہر اور جادوکا علاج ہے۔ جامع ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عجوہ کھجور جنت کا پھل ہے اور اس میں زہرکے لیے شفا ہے۔ بخاری شریف میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص ہر روز صبح کے وقت سات عجوہ کھجوریں کھائے گا، اس کو زہر اور جادو نقصان نہیں پہنچائے گا۔
رسول اللہﷺ نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ طیبہ ہجرت فرمائی تو آپ ﷺنے مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے قبل مسجد قبا تعمیر فرمائی اور جب آپ مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو آپ نے مسجد نبوی کو تعمیرکیا۔ مسجد نبوی شریف بیت اللہ شریف کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے اور اس میں ادا کی گئی نماز بیت اللہ میں ادا کی گئی نماز کے بعد سب سے زیادہ افضل ہے۔ روضہ رسول ﷺ اور مسجد نبوی اور کی زیارت کرنا اور اس میں ثواب حاصل کرنے کے لیے عبادت اور نماز ادا کرنے کی جدوجہدکرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ رسول اللہﷺنے حصولِ ثواب کے لیے تین مساجد کی طرف لمبا سفر کرنے کا حکم دیا جن میں بیت اللہ، مسجد نبوی اور بیت المقدس شامل ہیں۔ مسجد نبوی شریف ہی کے ایک گوشے میں حضرت رسول اللہﷺکی لحد اطہر ہے جو درحقیقت رسول اللہﷺکی رہائش گاہ تھی اور وہیں آپ کا وصال ہوا تھا۔ انبیاء علیہم السلام جس زمین پر انتقال فرماتے ہیں ان کی تدفین اسی مقام پر کی جاتی ہے؛ چنانچہ آپ ﷺ کی تدفین آپ کے اپنے گھرمیں ہی ہوئی۔ انسا ن جہاں پر مسجد نبوی شریف میں بکثرت فرض نمازوں، سنتوں اور نوافل کا اہتمام کرتا ہے، وہیں اس کو آپ ؐکی لحد مبارک پر آ کر درود شریف پڑھنے کا موقع بھی میسر آتا ہے۔ جو شخص رسول اللہﷺ کی ذات گرامی پر ایک مرتبہ درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ دس مرتبہ اس کی ذات پر درود بھیجتے ہیں اور جو بھیجتا ہی رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی تمام خطائیں معاف فرما دیتے اور تمام غم دورکر دیتے ہیں۔
رسول اللہﷺ کی لحد مبارک اور آپ ؐکے منبر مقدس کا درمیانی فاصلہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے اور مسجد نبوی میں نماز ادا کرنے والے کی خوش نصیبی ہوتی ہے کہ اسے روضۃ من ریاض الجنۃ میں نمازاور نوافل ادا کرنے کا موقع میسرآ جاتا ہے۔
مسجد نبوی شریف سے کچھ ہی فاصلے پر بقیع کا قبرستان ہے جس میں ہزاروں صحابہ کرامؓ، امہات المومنین ؓ، امام نافع رحمہ اللہ اور امام مالک رحمہ اللہ جیسے عظیم انسان مدفون ہیں اور اس قبرستان میں دفن ہونا یقیناً ہر مومن اور مسلمان کی خواہش ہے۔ اسی قبرستان میں کھڑے ہو کر والد گرامی علامہ احسان الٰہی ظہیررحمہ اللہ نے دعا مانگی تھی: اے اللہ تعالیٰ مجھے یہاں پر دو گز زمین عطا فرما دے۔ اللہ تعالیٰ نے صرف ایک مہینے بعد ان کی دعا قبول فرمائی اور وہ بقیع میں محبان رسول کی ایک بڑی جماعت کے ہمراہ حشر کے روز تک محوِ خواب ہوگئے۔ بقیع کے قبرستان میں رسول اللہﷺ خود تشریف لاتے اور اہل بقیع کی مغفرت کے لیے بھی آپ نے دعا مانگی۔ مدینہ طیبہ کا سفرکرنے والا شخص دنیا کی بے وقعتی اور ناپائیداری کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لیے بقیع کے قبرستان میں جاتا ہے اور اپنی آنکھوں سے اس حقیقت کا مشاہدہ کرتا ہے کہ '' زمیںکھا گئی آسماں کیسے کیسے‘‘۔
مدینہ منورہ میں احد پہاڑ بھی ہے، ایسا پہاڑ جس کو رسول اللہﷺ سے محبت اور رسول اللہﷺ کو اس پہاڑ سے پیار تھا۔ احد پہاڑ کے دامن میں غزوہ احد کے وہ ستر شہید مدفون ہیں جنہوں نے اللہ کی توحید کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیاتھا۔ مدینہ منورہ کے تاریخی مقامات میں مسجد قبلتین بھی شامل ہے۔ یہ مسجد وہ ہے جس میں تحویل قبلہ سے قبل صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نماز ادا فرما رہے تھے۔ جب منادی کرنے والے نے ندا دی کہ نبی کریمﷺ نے اللہ کے حکم پر قبلہ تبدیل فرما لیا ہے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے نمازکے دوران ہی اپنے چہرے کا رخ بیت المقدس سے بیت اللہ کی طرف فرما لیا اور اس غیر معمولی اتباع کا مظاہرہ کر کے اپنے بعد آنے والوں کو سمجھا دیا کہ جب اللہ اور رسول اللہﷺ کا حکم آ جائے تو اس پر فوراً عمل پیرا ہونا چاہیے اور اس میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
مدینہ منورہ اور مسجد نبوی کی زیارت انسان کی روح کو شاداب کر دیتی ہے اور شہر حبیب ؐکے سفر کے دوران انسان اپنے دل میں رسول اللہﷺکی محبت کے جذبات کو اُبلتے ہوئے محسوس کرتا ہے۔ یہ حقیقت اٹل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی خشیت اور عبادت کے بعد کوئی نیکی رسول کریمﷺکی محبت اور غیر مشروط اطاعت سے بڑھ کر نہیں۔ اس نیکی کی معراج تک پہنچنے کے لیے رسول اللہﷺکی مسجد کی زیارت کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ مدینہ منورہ کا سفر مکمل کرنے کے بعد جہاں انسان اپنی خوش نصیبی پر باغ باغ ہوتا ہے وہاں مسجد نبوی اور روضۃ من ریاض الجنۃ کی جدائی اس کے دل کو زخمی بھی کر رہی ہوتی ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو مسجد نبوی کی زیارت کا شرف بخشے اور جو ایک مرتبہ شہر حبیب ؐکی زیارت کرچکے ہیں ان کو دوبارہ زیارت کا موقع میسر آئے۔ آمین !