صحابہ کرامؓ کو یہ شرف حاصل ہے کہ انہوں نے حالتِ ایمان میں رسول اللہ ﷺ کے روئے انور کی زیارت کی تھی۔ ہر شخص اپنی صحبت اور رفاقت کے ساتھ پہچانا جاتا ہے۔ صحابہ کرامؓ کو دنیا کی سب سے عظیم صحبت اور رفاقت حاصل ہوئی اور زبانِ رسالت مآب ﷺ سے ان کو یہ بشارت حاصل ہوئی کہ آگ اس چہرے کونہیں چُھو سکتی جس نے حالتِ ایمان میں رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ اقدس کی زیارت کی ۔
صحابہ کرامؓ نے اس رفاقت اور صحبت کا حق ادا کر دیا اور اللہ تعالیٰ کی توحید اورنبی کریم ﷺ کی رسالت پر ہر حالت میں کاربند رہے۔ مکہ میں کیے جانے والے ظلم و ستم اور حالات کا جبر صحابہ کرامؓ کے پایۂ ثبات میں معمولی سی لرزش بھی پیدا نہیں کر سکا۔ حضرت بلال حبشیؓ کوتپتی ہوئی ریت پر لٹا کر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ، حضرت یاسرؓکے گھرانے والوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جاتے‘ یہاں تک کہ حضرت یاسرؓ کی اہلیہ حضرت سمیہؓ کے جسم پر نیزے کی انی ماری گئی اور آپ کی ٹانگوں کو اونٹوں کی پشتوں سے باندھ کر دائیں اور بائیں سمت ہانک دیا گیا۔ حضرت سمیہؓ کا وجود دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو گیا لیکن حضرت سمیہؓ نے لمحے بھر کے لیے اسلام اور ایمان کے راستے سے ہٹنا گوارا نہیں کیا۔ حضرت زنیرہؓ کو بڑھاپے کے عالم میں شدید جسمانی اور ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیااور آپؓ کی آنکھوں میں لو ہے کی تپتی ہوئی سلاخوں کو پھیر دیا گیا۔ صحابہ کرامؓ پر متواتر ظلم و ستم ہوتے دیکھ کر نبی کریمﷺ غمزدہ ہو جا یا کرتے اور ظلم کا نشانہ بننے والے ان نفوس ِ قدسیہ کو صبر کرنے کی صورت میں اُخروی جزا کی خوشخبری بھی سنایا کرتے تھے لیکن آپ ﷺ کی یہ دلی خواہش تھی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے دکھ درد دور فرما دے۔ جب مسلمانوںپر ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچ گئے تو نبی کریمﷺ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو عمر بن ہشام یا عمر بن الخطاب سے عزت د ے ۔
اسلام ایک آفاقی دین ہے جس کا مقدر دنیا پر حکومت کرنا اور باطل نظام کو تبدیل کرنا تھا لیکن اپنے آغاز میںاس کو ایسے بہادر پاسبانوں کی ضرورت تھی جو اعدائے دین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسلام کی حقانیت کا پر چار کر سکیں ۔
ابو جہل ،عتبہ ،شیبہ ،ولید ،ابولہب اور رئوسائے قریش کسی بھی قیمت پر اسلام قبول کرنے والوں کو برداشت کرنے پر تیار نہیں تھے۔ بت پرستی کے یہ علمبردار ہر قیمت پر اسلام اور مسلمانوں کو دبانا چاہتے تھے۔ ان حالات میں ایک ایسے مرد جری کی ضرورت تھی جو ظلم وستم کے دھارے پر کھڑے ہوکر کلمہ حق کہہ سکے۔ حضرت عمر ؓ خود اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ کی ذات سے بدگمان تھے ۔ (نعوذباللہ )حضرت عمر ؓ کا ارادہ تھا کہ مکہ کی سرزمین کو بتوں کی مخالفت کرنے والوں سے ''پاک‘‘ کر دیا جائے لیکن ان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ نبی کریم ﷺ کی دعا بارگاہ رب العالمین میں شرف قبولیت سے بہرہ ور ہو چکی ہے ۔
نبی کریم ﷺ کی شہادت کا ارادہ لے کر نکلنے والے حضرت عمرؓ کی سمت کو ایک ایسی خبر نے بدل دیا جو ان کے لیے ناقابل یقین اور ناقابل برداشت تھی۔ حضرت عمرؓ کو جب یہ علم ہوا کہ ان کی بہن اور بہنوئی حلقہ بگوش اسلام ہو چکے ہیں تو حضرت عمرؓ نے پہلے ان سے نمٹنے کا ارادہ فرمایا ۔آپ ؓ جب اپنی بہن کے گھرپہنچے تو قرآن پاک کی تلاوت ہو رہی تھی۔ حضرت عمرؓ کی آمد پر مصحف کے صفحات کو چھپالیا گیا ۔ انتقام اور تعصب کے شعلے بھڑک رہے تھے ۔اپنے سابق دین کو چھوڑنے کا احساس اور ابتلا حضرت عمرؓ کے غصے کو دو چند کر رہی تھی ۔ حضرت عمر ؓ نے مغلوب الغضب ہونے کی وجہ سے بہن اور بہنوئی کو بے حد تشدد کا نشانہ بنایا ۔بہن اور بہنوئی نے پورے صبرو تحمل سے آپؓ کے رویے اور جارحیت کا مقابلہ کیا ۔ غصے میں کچھ کمی واقع ہوئی تو حضرت عمرؓ نے بھی قرآن پاک کو دیکھنے اور سننے کی خواہش کا اظہار کیا۔ جب قرآن مجید سنا تو حضرت عمرؓ کے حق پرست ضمیر نے شہادت دی کہ آپ کا تعصب بلاجواز اور اسلام کی دعوت سچی اور حق پر مبنی۔ فوراً دعوتِ حق قبول فرما کر حضرت رسول اللہﷺ کی زیارت کا ارادہ فرمالیا۔حضرت عمر ؓ جب اس مقام پر پہنچے جہاں حضرت رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ہمراہ موجود تھے تو آپﷺ کے جاں نثار حضرت عمرؓ کی غیر متوقع آمد پر مضطرب ہوگئے ۔ اس موقع پر حضرت حمزہ ؓ نے مسلمانوں کو تسلی دی کہ اگرحضرت عمرؓ کی نیت درست نہ ہوئی تووہ ان کا راستہ خود روک لیں گے ۔
حضرت عمرؓ نے جب داخل ہوتے ہی کلمہ شہادت پڑھ لیا‘ تو صحابہ کرامؓ حیرت اورخوشی سے دنگ رہ گئے ۔خود نبی کریم ﷺ اپنی دعاکی قبولیت پر خوشی سے معمور ہوگئے ۔ حضرت عمرؓ کے حلقہ بگوش اسلام ہونے پر پہلی مرتبہ مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کے اس گھر میں علانیہ نماز ادا کی جس کے دروازوں کو بت پرستوں نے توحید پرستوں پربند کر رکھا تھا ۔ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام پر جہاں مسلمانوں کے جذبات دیدنی تھے‘ وہاں کافروں کے اعصاب پر یہ خبر بجلی بن کر گری ۔ ابو جہل ، عتبہ، شیبہ، ولید اور ابولہب یہ خبرسن کر حیرت زدہ رہ گئے ۔ آپ ؓ کا قبول اسلام ضعیف مسلمانوں کے لیے خوشخبری اور اسلام دشمنوں کے لیے ایک المناک سانحہ تھا ۔مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑنے والوں نے بھانپ لیا کہ اب اسلام کے رستے میں کھڑی کی گئی ان رکاوٹوں کے ہٹنے کا وقت قریب آچکا ہے ۔
حضرت عمرؓ قبول اسلام کے بعد مکہ کے رؤسا کے لیے چیلنج اور ناتواں مسلمانوں کے لیے نفسیاتی ڈھارس کا سبب بن گئے ۔ جس حد تک ممکن ہوا آپ ؓ کمزور مسلمانوں کی مددکو پہنچے اور ظالموں کے ہاتھ روکتے رہے ۔ مکہ کے تلخ اور پُراذیت ماہ و سال کے بعد جب مسلمان ہجرت کر گئے تو حضرت عمرؓ نے بھی مکہ کو خیرباد کہہ کر مدینہ کو اپنا مسکن بنالیا ۔
نبی کریمﷺ کی ہمراہی میں ساری زندگی کفار کے خلاف بر سرِ پیکار رہے ۔ حضرت عمرؓ نے ہر موقع پر نبی کریمﷺ کی دعوت پر لبیک کہا ۔ غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت عمر ؓ نے اپنے گھر کا آدھاسامان اللہ کے راستے میں وقف کر دیا۔ آپ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے عقیدت اور محبت کا اظہار یوں بھی فرمایا کہ اپنی لختِ جگرحضرت حفصہؓ کو رسول اللہﷺ کے حرم ِمبارک میں داخل فرمادیا ۔
نبی کریم ﷺ کی ذات آپ ؓ کی عقیدتوں اور محبتوں کا محوراور مرکز تھی اور آپ ﷺ کے انتقالِ پُرملال کی خبر آپ ؓ کے لیے ناقابلِ یقین اور ناقابلِ برداشت سانحہ تھی۔ آپ ؓ نے نبی کریم ﷺ سے والہانہ محبت کی وجہ سے اس خبر کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ نے جب یہ خطبہ ارشاد فرمایاکہ رسول کریم ﷺ دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں تو حضر ت عمر ؓ نے اس حقیقت کو قبول فرمالیا ۔آپ ﷺ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد حضر ت عمر ؓ شریعت محمدی ﷺ کی عمل داری کے لیے حضرت ابو بکر ؓ کے مشیر خاص کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہے اور بعد ازاں خود مسلمانوں کے امیر بن کر غلبہ دین کے فر یضے اور مشن کے پاسباں بن کر میدان عمل میں اتر پڑے۔
حضرت امیر المومنین ؓ نے اپنے عہد خلافت میں کسریٰ کے آتش کدے کو بجھا دیا‘ کلیسا کی ہیبت کو مٹا دیا اور مسلمانوں کو دنیا کی سب سے بڑی سیاسی اور فوجی قوت بنا دیا۔دنیاوالوں کو پہلی مرتبہ سماجی انصاف اورخوشحالی کی اصطلاحات سے متعارف کرایا اور ہر شہری کے بنیادی حقوق کی فراہمی کو ریاست کی ذمہ داری قرار دیا۔
حضر ت امیر المومنین ؓ اپنی زندگی کے آخری ایاّم مدینہ طیبہ میں گزارنا اور جام ِ شہادت نوش فرمانا چاہتے تھے۔ مدینہ میں رہتے ہوئے بظاہر شہادت کا ملنا آسان نظر نہیں آتاتھا لیکن اللہ تعالیٰ نے حضرت امیر المومنین عمر ؓ کی تمنا اوردعا کو قبول فرمایا اور آپ ؓ پر نماز کی امامت کے دوران قاتلانہ حملہ ہوا جس میں آپ ؓ شدید زخمی ہوئے اور چنددن زخمی رہنے کے بعدیکم محرم الحرام کو اس دارِفانی سے کوچ کرگئے ۔ حضرت امیر المومنین عمرؓ کو ان کی وصیت اور خواہش کے مطابق نبی کریمﷺ اور حضرت ابو بکر ؓ کے پہلو میں دفن کر دیاگیا اور یوں رسول کریمﷺ کا یہ پروانہ قیامت کے دن تک آپﷺ کے پہلو میں محو ِ خواب ہو گیا۔