اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو تخلیق فرمایا ،جہاں انواع واقسام کے حیوانات ، نباتات اور جمادات پیدا فرمائے وہاں کائنات کی تنظیم کے لیے بھی کئی قسم کے معاملات اور نظاموں کو مرتب فرمایا ۔ وقت کی پیمائش کے لیے، زمین و آسمان کی تخلیق کے دن سے ہی بارہ مہینوںکو مقرر فرمایا جن میں سے چار مہینوںکو حرمت والا قرار دیا۔ان مہینوں میں سے ایک مہینہ محرم الحرام بھی ہے۔ محرم الحرام میں روزے رکھنے کا ثواب رمضان المبارک کے بعد باقی تمام مہینوں سے زیادہ ہے اوراس مہینے کی نویں اور دسویں تاریخ کو روزہ رکھنے سے اللہ تعالیٰ انسان کے گزشتہ ایک برس کے گناہ معاف فرما دیتے ہیں۔
محرم الحرام میں تین اہم واقعات رونما ہوئے جن میں سے ہر ایک اپنی جگہ پر نمایاں اہمیت کا حامل ہے۔ پہلا واقعہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کا فرعون کے ظلم سے نجات کا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے اولوالعزم پیغمبر ہیں جنہوں نے توحید کی سربلندی کے لیے گراں قدرخدمات انجام دیں۔ عام طور پر حق پرستوں کا ٹکراؤ وقت کے جابر حکمرانوں ، ان کے حاشیہ بردار وزیروں اور مشیروں سے ہوتا ہے یا جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے ان کا مقابلہ ہوتاہے۔ حق پرست لوگ اقتدار، جاگیراور سرمائے کی چکا چوند سے متاثر ہوئے بغیر حق کی پاس داری کا فریضہ انجام دیتے ہیں لیکن ایسا بہت کم ہوتاہے کہ انسان کا مقابلہ یا ٹکراؤ بیک وقت ان تمام عناصر سے ہو۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے بیک وقت ان تمام عناصرکے مقابلے میں مبعوث فرمایا۔ آپ ؑ نے فرعون کی رعونت، ہامان کے منصب ، شداد کی جاگیر اورقارون کے سرمائے کامقابلہ کیا اور ہر ایک کے مقابلے میں حق پرپوری طرح کاربند رہے۔
موسیٰ علیہ السلام فرعون اوراس کے قبیلے کے لوگوں کو توحید کی دعوت دینے گئے تو فرعون نے اس موقع پر اپنی قوم کے لوگوں کو مخاطب ہوکرکہا کہ کیا میرے پاس مصر کی حکومت نہیں ہے اورمصر کے دریا میرے نیچے سے نہیں بہتے ؟کیا میں بہتر ہوں یا (معاذاللہ)یہ کم حیثیت والے موسیٰ ؑکہ جن کو بولنے میں بھی دشواری ہے۔ ان کے پاس سونے
کے ڈھیرکیوں نہیں اور فرشتے ان پر پرے باندھ کرکیوں نہیں اترتے؟ فرعون نے اپنے اس استدلالِ باطل سے بنی اسرائیل کے لوگوں کو اپنی طرف مائل کرلیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکرانے کی وجہ سے فرعون کو پہ درپے عذابوں کا سامنا کرنا پڑا۔ فرعون اور اس کے قبیلے والوں پرکبھی جوؤوں ،کبھی ٹڈیوں ، کبھی خون کی بارش، کبھی امڈتے سیلابوں کا عذاب آیا ۔ جب بھی اللہ تعالیٰ کا عذاب فرعونیوںکو ہلاک کرنے کے قریب ہوتا فرعون، موسیٰ علیہ السلام سے سمجھوتہ کرنے پرتیار ہوجاتا اور ان سے عرض کرتا کہ آپ اپنے پروردگار سے دعا کیجئے کہ وہ عذاب کو ہم سے ٹال دے ، تو ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لے آئیں گے۔ جب اس سے عذاب کو ٹالا جاتا تو وہ دوبارہ کفر اختیار کر لیا؛ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ ؑکو بنی اسرائیل کے ضعیف اورکمزور لوگوں کے ساتھ فرعون کے علاقے سے ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ راستے میں آنے والے سمندرکو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے قبیلے والوں کے لیے کھول دیااورسمندرکے دو حصوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے موسیٰ علیہ السلام ا پنے ساتھیوں اور پیروکاروں کے ساتھ بآسانی فرعون کے علاقے سے نکل گئے ۔ جب فرعون کو اس بات کی اطلاع ملی کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے لوگوں کے ساتھ علاقے کو خیربادکہہ رہے ہیں تو فرعون نے بھی اپنے لشکر اور حواریوں کے ہمراہ حضرت موسیٰعلیہ السلام کا تعاقب کیا ۔ جب فرعون کا لشکر سمندرکے درمیان میں پہنچا تو اللہ تعالیٰ نے سمند ر کی لہروں کو آپس میں ملادیا اورفرعون سمندر میں غوطے کھانے لگا۔اس وقت اس نے کہا کہ میں ایمان لایا اس اللہ پر جس پر بنی اسرائیل کا ایمان ہے اور میں بھی مسلمان ہوں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس موقع پر فرعون کی توبہ کو مسترد کردیا اور اس کو غرقِ آب کرکے اس وجود کو ہمیشہ کے لیے نشان ِعبرت بنادیا تاکہ رہتی دنیا تک الوہیت کے جھوٹے دعویدارکے انجام کو دیکھ کر دنیا عبرت حاصل کرتی رہے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون کے ظلم سے نجات محرم الحرام کی دس تاریخ کو ہوئی جس کی یاد منانے کے لیے یہودی دس محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ نے حضرت موسیٰ ؑسے اپنی نسبت کا اظہارکرنے کے لیے 10تاریخ کے ساتھ 9تاریخ کے روزے کو بھی ملالیا اور اس روزے کو گزشتہ برس کے گناہوں کا کفارہ قرار دے دیا۔
دوسرا اہم واقعہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا ہے۔ حضرت عمر فاروق ؓ ایک غیر معمولی انسان تھے اور بے پناہ انتظامی صلاحیتوں کے حامل تھے۔انہوں نے اپنی استطاعت اور ہمت سے انسانی تاریخ کو نئی جہتوںسے روشناس فرمایا۔ آپؓ کا قبول اسلام کمزور اور ضعیف مسلمانوں کے لیے خوشخبری اور جابروظالم کافروں کے اسلام دشمن عزائم کو شکست دینے والی خبر تھی۔ حضرت عمر فاروق ؓ جری اور بہادر انسان تھے۔ زمانہ قبل اسلام میں بھی پوری جرأت اور بہادری سے اپنے نظریات پر ڈٹے رہے اور قبول اسلام کے بعد بھی پوری ہمت واستقامت سے اللہ کے دین پر کاربند رہے۔ اللہ کی خوشنودی اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی تابع فرمانی ہی آپ ؓ کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ حضرت رسول اللہ ﷺ کی ذات سے والہانہ محبت کی وجہ سے آپ ؓ ہمہ وقت رسول اللہ ﷺ کے احکامات ، تعلیمات اور ارشادات کی نشرو اشاعت میں مصروف رہا کرتے تھے ۔
حضرت رسول اللہ ﷺ کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد آپؓ نے اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا ۔ پہلے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مشیر اور بعد ازاں خود مسلمانوں کے امیرکی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتے رہے۔ دنیا کی دو سپر طاقتوں کا غرورخاک میں ملانے والا اسلام کایہ عظیم المرتبت اور جلیل القدر فرزند 27 ذوالحجہ کو نمازفجر کی امامت کراتے ہوئے ایک آتش پرست ابولؤ لوکے حملے کا نشانہ بنااوریکم محرم الحرام کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگیا۔ حضرت عمر ؓکی شہادت مسلمانوں کے لیے بہت بڑا سانحہ تھی جس کے اثرات اسلامی تاریخ پر آج تک برقرار ہیں۔
تیسرا اہم واقعہ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا ہے۔ حضرت حسین ؓ حضرت رسول اللہ ﷺ کے نواسے، حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے لخت جگر اور حضرت فاطمۃ الزہرہ ؓ کے نورِ نظرتھے ۔ آپ ؓ کی تربیت خاتون جنت اور شیر خدا کے کاشانہ پر ہوئی تھی۔ آپ ؓ کے ساتھ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کو والہانہ محبت اور پیار تھا ۔ آپ ﷺ کئی مرتبہ نماز پڑھ رہے ہوتے تو سیدنا حسن و حسین ؓ آپ ﷺکی کمر پر چڑھ جاتے ،آپ رکوع اور سجدے کولمبا فرماتے تاکہ سیدنا حسن و حسین ؓ کی دل شکنی نہ ہو ۔ حضرت حسن و حسین ؓ کو نبی کریم ﷺ نے نوجوانان جنت کا سردار قرار دیا ۔ آغوش نبوت اور اس کے بعد حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ ایسے عظیم والدین کی تربیت نے حضرت حسین ؓ کو ہر اعتبار سے مثالی انسان بنا دیا۔آپ ؓ شب زندہ دار‘ پرہیزگار اور غیرت مند شخصیت کے مالک تھے۔ آپ زندگی کے آخری لمحے تک نماز اور فرض داری کابہترین التزام فرماتے رہے۔ آپ ؓ ایک عظیم زندگی گزارنے کے بعد اس انداز میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ شہادت کی خلعت فاخرہ کو زیب تن کر رکھاتھا۔ آپ ؓ کی شہادت اس انداز میں مقبول ہوئی کہ آج دنیائے اسلام کے ہر پیروجواں کے دل میں آپ ؓ کی محبت رچی اور بسی ہوئی ہے۔
محرم الحرام جہاں حرمت اور عظمت والا مہینہ ہے، وہیں اس سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی استقامت ، حضر ت عمر فاروق ؓ کی اسلام سے بے پناہ وابستگی اور حضرت حسین ؓ کی عظمت کی داستان بھی جڑی ہوئی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ، حضر ت عمر فاروق اور حضرت حسین رضی اللہ عنھما کے نام لیواؤںکو اس مہینے میں اپنے اپنے رہنماؤں کے کردار کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے کردار کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا ہم انہی روایات کے امین اور پاسبان ہیں جن پر چلتے ہوئے یہ ہستیاں اس فانی دُنیا سے رخصت ہوئیں، اگر تو ہمارا کردار ان کے کردار سے مطابقت رکھتاہے تو ان کی داستانوں کو بیان کرنے کا ہمیں حق حاصل ہے،لیکن اگر ہمارے قول و فعل میں تضاد ہے تو جان لیجیے کہ سلف صالحین کے واقعات بیان کرکے ہم ان سے اپنی نسبت کو معتبر نہیں بنا سکتے‘ کہ اسلام داستان سرائی نہیں، قول و فعل اور اعمال و کردار میں مطابقت کا تقاضا کرتا ہے۔