عظیم لوگوں میں ایسے اوصاف پائے جاتے ہیں جو ان کی عظمت کو مزید واضح کر دیتے ہیں۔ ان اوصاف میںسے بڑا وصف استقامت اور مستقل مزاجی ہے۔
تاریخ انسانیت کا سب سے عظیم گروہ انبیا علیہم السلام کا ہے۔ جب ہم ان پاکیزہ ہستیوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ استقامت کے پہاڑ نظر آتے ہیں۔ حضرت نوح علیہ السلام قوم کے لوگوں کو ساڑھے نو سو سال تک توحید کی دعوت دیتے رہے۔ انہوں نے اسے قبول کرنے کی بجائے آپ کی دشمنی کا راستہ اختیار کیے رکھا۔ آپ کو دیوانہ اورمجنوں کہتے اور پتھر مارتے رہے۔ حضرت نوح علیہ السلام اس ساری اذیت کو انتہائی خندہ پیشانی اور صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔ آپ نے قوم کی بے رغبتی کے باوجود ان کو صبح شام اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دی۔ آپ کی استقامت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں مقبول ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے تذکروں کو قیامت تک اپنے کلام کا حصہ بنالیا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے کردار سے استقامت کی ایک پوری داستان رقم کی۔ جوانی کے عالم میں بت پرستوں کی مخالفت مول لی، بت کدے میں داخل ہو کر بتوں کو توڑ ڈالا۔ بستی والوں نے آپ کے خلاف منصوبہ تیارکیا۔ آگ کی چتا جلائی اور اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اتارا گیا۔ اس موقع پر آپ نے کہا ''ہمارے لیے اللہ کافی ہے اور وہ بہترین کارساز ہے‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے جلتی چتا گلستان بنا دی۔ آپ نے دربارنمرود میں توحیدکی حقیقت واضح فرمائی۔ نمرود نے خدائی کا دعویٰ کر رکھا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ بھی کرتا ہے اورمارتا بھی ہے۔ نمرود نے اس دلیل کو مکاری اور دھوکے سے پلٹنے کی کوشش کی اور کہا میں بھی زندہ کرتا اور مارتا ہوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نمرود کی چالبازی اورفریب کو بھانپ گئے اورآپ نے اُس کے سامنے یہ دلیل قطعی رکھ دی کہ پس بے شک اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے لے کر آتا ہے تُو اس کو مغرب سے لے کر آ! یہ دلیل سننے کے بعد نمرود مبہوت ہو کر رہ گیا۔ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جبر واستبداد کا مقابلہ پورے شان اور وقار سے کیا وہاں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے محبت اور پیار کی قربانی دینے پر بھی آمادہ وتیار رہے۔ اپنی شریک حیات کو اللہ کے حکم پر وادیٔ بے آب وگیاہ میں چھوڑ دیا۔ اس طرح آپ نے بڑھاپے میں پیدا ہونے والے اپنے عظیم لخت جگر کے گلے پر اللہ کے حکم سے چھری رکھ کر یہ ثابت کر دیاکہ آپ کی نظر میں بیوی اور اولاد سے کہیں زیادہ اپنے پروردگار کے حکم کی اہمیت ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اسی استقامت کی وجہ سے امر ہو گئے اور آپ کی سنتوں اور طریقوں کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے زندہ وجاوید کر دیا۔
حضرت نوح اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے اولوالعزم رسول حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بھی پوری استقامت سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا۔ آپ نے فرعون کی رعونت، قارون کے سرمایے، ہامان کے منصب اور شداد کی جاگیرکوکوئی اہمیت نہ دی اور اللہ تعالیٰ کا پیغام برسرعام آل ِفرعون اور بنی اسرائیل کے سامنے رکھ دیا۔ فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کئی بار مرعوب کرنے کی کوشش کی لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام پوری استقامت کے ساتھ توحید کی دعوت دیتے رہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی استقامت کا نتیجہ فرعونیوں کی تباہی کی شکل میں نکلا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی حاکم وقت کی مخالفت مول لی اور اللہ تعالیٰ کا پیغام عام کرنے میں مصروف رہے۔ فقط چند حواریوں نے آپ کی دعوت قبول کی، لیکن آپ نے دل شکستہ ہونے کی بجائے توحید کی دعوت عام کرنے کے لیے اپنی تمامتر توانائیاں صرف کردیں۔ آپ کی دعوت سے برگشتہ ہو کر دین کے دشمنوں نے آپ کو شہید کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندہ آسمانوں کی طرف اُٹھا لیا۔ قرب قیامت کے زمانے میں آپ دوبارہ آسمانوں سے اتریں گے اور اللہ تعالیٰ کی توحید کے مخالفین کو صراط مستقیم کی دعوت دیںگے۔ اللہ تعالیٰ کا دشمن دجال جب لوگوں کے لیے ایمان کے لیے خطرہ بن چکا ہو گا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہی اُس کو موت کے گھاٹ اتاریں گے۔
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے آخری نبی اور رسول ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انبیا علیہم السلام کی تاریخ کو اپنے کردار سے روشن فرما دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے میں کانٹے بچھائے گئے، آپ پر سنگ باری کی گئی اور آپ کو گلوئے اطہر میں چادر ڈال کرگھسیٹا گیا۔ طائف کی وادی میں ظالم ظلم کی ہر حد پار کر گئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اطہر لہو میں ڈوبا ہوا تھا۔ ایسے عالم میں حضرت جبرائیل علیہ السلام پہاڑوں کے فرشتے کے ساتھ آئے اورآپ کی خدمت میں یہ بات رکھی کہ اگرآپ حکم کریں تو طائف کی وادی کو دو پہاڑوں کے درمیان پیس کر رکھ دیا جائے‘ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ! میری قوم کے لوگوں کو ہدایت دے کہ یہ مجھے پہچانتے نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے دین کی سربلندی کے لیے اپنے وطن اور گھر کو خیرباد کہہ دیا۔ کفار کی جارحیت کو روکنے کے لیے ادھیڑ عمر میں تلوار اُٹھالی۔ مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کے قیام، بقا اور ترقی کے لیے اپنی ذمہ داریاں غیر معمولی طریقے سے انجام دیں اور اپنی حیات مبارکہ کے آخری لمحات تک استقامت سے اپنے مشن کو جاری وساری رکھا، یہاں تک کہ جب آپ دنیا سے رخصت ہوئے تو حجاز اور یمن پر اسلام کا پرچم لہرا رہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحابؓ نے بھی آپ کی دعوت پر دیوانہ وار لبیک کہا۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تپتی سنگلاخ زمین پر دھوپ میں تڑپتے ہوئے بھی احد احد کے نعرے لگا دیے۔ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جام شہادت نوش کرنا گوارہ کر لیا۔ حضرت زنیرہ رضی تعالیٰ عنہا نے بڑھاپے کے عالم میں ظلم وتشدد سہہ لیا، لیکن اپنے ایمان کا سودا نہ کیا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کے بعد بھی آئمہ دین کو ظلم و بربریت کا نشانہ بننا پڑا، لیکن آئمہ دین عزم اور حوصلے کی چٹان بنے رہے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے کوڑے کھا لیے، حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے قید خانوں میں زندگی کے کئی برس گزار دیے لیکن حالات کے جبر کے باوجود جھکنا گوارہ نہ کیا۔
برصغیر میں انگریز سامراج کی آمد کے بعد بے شمار لوگ مصلحتوں کے اسیر بن گئے، لیکن فتح علی عرف ٹیپو شہید، نواب سراج الدولہ اور شاہ اسمٰعیل جیسی ہستیوں نے عزیمت اور استقامت کا راستہ ترک نہیں کیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد مسلمانوں کو اپنا مستقبل مخدوش نظر آرہا تھا اور غلامی کی زنجیروں کے ٹوٹنے کی کوئی سبیل نظر نہیں آ رہی تھی، ایسے عالم میں قائد اعظم حضرت محمد علی جناح، حضرت علامہ محمد اقبال، حضرت مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان جیسے مستقل مزاج رہنماؤں نے عشروں کے جمود کو توڑ دیا اورمسلمانانِ ہندکو آزادی کا سپنا دکھایا۔ آزادی کا خواب جو حقیقت سے کوسوں دور لگ رہاتھا، ان قائدین کی شبانہ روز محنتوں اور عشروں کی جدوجہد سے شرمندۂ تعبیر ہوگیا۔ قیام پاکستان جہاں اللہ تعالیٰ کی عظیم عنایت ہے وہاں قائدین تحریک پاکستان کی استقامت کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ تاریخ نے اپنے پڑھنے والوں کو استقامت کا جو درس دیا اُس کاخلاصہ یہ نکلتا ہے کہ آج بھی اگر کوئی شخص یا گروہ اللہ کی بندگی اور انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہے تو حالات کا جبر اور دباؤ اس کو اپنی منزل کی طرف سفر کرنے سے نہیں روک سکتا۔ جو شخص اور گروہ بھی عزم اور استقامت کا راستہ اختیار کرے گا وہ ہمیشہ کے لیے امر ہو جائے گا اور ناقدین اور حاسدین اس کا نام تاریخ کے اوراق سے کھرچنا بھی چاہیں تو ایسا کرنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوں گے۔