"AIZ" (space) message & send to 7575

رشتوں کا انتخاب

دور ِحاضرکا انسان مختلف طرح کے مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ ان میں سے ایک اہم مسئلہ بچوں کی تعلیم اور مستقبل کے حوالے سے والدین کی ذمہ داریاں ہیں۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے بچے اچھی تعلیم حاصل کریں اور مستقبل میں ان کے لیے روزگار کے اچھے مواقع پیدا ہو جائیں۔والدین بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے بھر پور محنت کرتے ہیں۔ غریب اور متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے بہت سے لوگ اپنی بنیادی ضروریات کو نظر انداز کر کے اور اپنا پیٹ کاٹ کر بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں۔ بچوں کو میدان تعلیم میں ترقی کرتا دیکھ کر والدین خوشی سے باغ باغ ہو جاتے ہیں۔ جب تعلیم کے مراحل مکمل ہو نے کے بعد بچوں کو اچھی ملازمت یاکاروبار مل جاتا ہے تو والدین چاہتے ہیں کہ ان کی جلد ازجلد شادی کر دی جائے تاکہ وہ اپنی دنیاوی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے مکمل کر سکیں۔ شریک حیات کا حصول ہر انسان کی فطری خواہش ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورۃ النباء میں ارشاد فرمایا ''اور ہم نے تمہیں جوڑوں میں پیدا کیا‘‘۔ قرآن مجید کی سورہ روم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہارے میں سے ہی تمہارے جوڑوںکو تخلیق کیاتاکہ تم ان سے سکون حاصل کرواور تمہارے درمیان مودت اور رحمت کو پیدا کیا‘بے شک اس میں نشانی ہے غور کرنے والوں کے لیے‘‘۔اسی طرح سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ''وہ ذات وہ ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس میں سے اس کی بیوی کو بنایا تاکہ وہ اس سے سکون کو حاصل کرے‘‘۔ قرآن مجید کی یہ آیات بتلاتی ہیں کہ زندگی کے نشیب وفراز اور اتار اور چڑھاؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے انسان کو ایک غم خواررفیق حیات کی ضرورت ہے۔جس کی عدم موجودگی میں زندگی کی تلخیوں اور دکھوں کا صحیح طریقے سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ چنانچہ والدین کا اپنی اولاد کے لیے اچھے رشتے کی خواہش رکھنا فطری اور مذہبی تقاضوں کے عین مطابق ہے۔ مگر دور حاضر میں والدین کو اس حوالے سے بہت سی دشواریوں کا سامنا ہے۔ فی زمانہ اچھے خاصے تعلیم یافتہ، سنجیدہ اور خوش شکل نوجوان لڑکے لڑکیوں کا رشتہ کرنا بھی بہت مشکل ہو چکا ہے۔ اس دشواری کی ایک بہت بڑی وجہ حقیقی بصیرت، دوراندیشی ، حکمت اور ترجیحات کے درست تعین کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے۔ ان صلاحیتوں سے دور حاضر کے والدین کی اکثریت محروم ہے۔ 
کتب احادیث اور کتب سیرت سے اس حوالے سے بہت زیادہ رہنمائی حاصل ہوتی ہے۔ احادیث مبارکہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے بعض واقعات کا ذکر ہے جن میں سے ایک واقعہ بہو کے انتخاب کے حوالے سے آپ کی سوچ اور نظریات کا مظہر ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک مرتبہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کے گھر تشریف لے گئے ۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کام کی غرض سے گھر سے باہر تھے۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اہلیہ گھر میں تھیں۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی بابت پوچھا توان کی اہلیہ نے جواب دیا کہ وہ کام کے سلسلے میںگھر سے باہر ہیں ۔ جب حالات کے بارے میں استفسار کیا تو اہلیہ نے تنگدستی کا گلہ کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام آئیں تو انہیں سلام کہنا اور کہنا کہ اپنی دہلیز کو تبدیل کرلیں۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام جب گھر تشریف لائے تو ان کی اہلیہ نے انہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آمد اور پیغام سے آگاہ کیا ۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے پیغام سننے کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام نے بعد ازاں ایک اور عورت سے نکاح کر لیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام دوبارہ کچھ عرصے کے بعدحضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے ملاقات کے لیے مکہ تشریف لائے ۔ اس دفعہ بھی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام گھر پر موجود نہ تھے ۔ حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی اہلیہ سے گھر کے حالات کے بارے میں پوچھاتو ان کی اہلیہ نے کہا: اللہ کا شکر ہے پینے کے لیے آب زم زم ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس نے بابرکت اور پاکیزہ رزق کا بھی ذکر کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو سلام کہنا اور کہنا کہ اپنی دہلیز کو قائم رکھیں۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام جب گھر تشریف لائے تو آپ کی بیوی نے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا پیغام سنایا۔ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سمجھ گئے کہ والدگرامی اپنی بیوی کے ساتھ رہنے کی تلقین فرما گئے ہیں۔ یہ واقعہ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بہو کے صابرہ شاکرہ ہونے کی تمنا کی۔ حالانکہ آپ علیہ السلام اس گھر میں خودبھی مقیم نہیں تھے۔ آپ کی اس خواہش کا اصل سبب یہ تھا کہ آپ چاہتے تھے کہ آپ کی بہو آپ کے بیٹے کے دکھ سکھ اور زندگی کے اتار اور چڑھاؤ میں ان کی معاون ہو۔ 
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی شادی اپنے سے عمر میں بڑی خاتون حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کی پارسائی اور سمجھداری کی وجہ سے کی تھی۔ حضرت خدیجتہ الکبریٰ نے زندگی کے نشیب وفراز میں ہر طرح سے نبی کریمﷺ کی رفاقت کا حق ادا کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے بعد کفار مکہ نے ظلم وستم کے پہاڑ توڑ دئیے، آپ کے راستے میں کانٹوں کو بچھایا گیا، آپ کے وجود اطہر پر سنگباری کی گئی ، آپ کے گلو ئے اطہر میں چادر کو ڈال کر کھینچا گیا‘ آپ نے ان تمام تکالیف اور اذیتوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ جب آپ گھر تشریف لاتے تو سیدہ خدیجۃ الکبریٰ آپ کے زخموں پر مرہم رکھتیں ‘آپ کی ڈھارس بندھاتیں اور اس انداز سے ایک مثالی شریک ِزندگی ہونے کا ثبوت فراہم کرتی رہیں۔ بعد ازاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جتنی بھی شادیاں کیں، دین ، قابلیت اور اخلاق کی بنیاد پر کیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گو عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت چھوٹی تھیں لیکن دین، ذہانت اور اخلاق کی نعمتوں سے مالا مال تھیں۔ ان کی ذہانت اور دین سے محبت کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہزاروں احادیث ہمارے سامنے آئیں۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے آپ ﷺکے بیٹے چھوٹی عمر میں وفات پاگئے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نیک بیٹیاں عطا فرمائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے جب داماد کا انتخاب کیا تو حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما جیسے اشخاص کا انتخاب کیا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما دین اور اخلاق کے اعتبار سے مثالی لوگ تھے۔ 
ہمارے معاشرے میں رشتوں کے انتخاب کے وقت اگر نیکی، شرافت اور اخلاق کو اہمیت دی جائے تو یہ معاشرہ رشتوں کے بحران سے باہر نکل سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں مالی حیثیت، خوبصورتی ، ذات پات، برادری اور عمر کے ہم پلہ ہونے پر بے جا اصرار کیا جاتا ہے اس کی وجہ سے بہت سے قابل قبول رشتے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ بیت جانے کے بعد انسان کو احساس ہوتا ہے کہ اس نے کئی معقول رشتے اپنے ہاتھ سے گنوا دیے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ'' اگر ایسا شخص جس کا دین اوراخلاق تمہیں بھلا معلوم ہو اگر تم سے رشتہ طلب کرے تو اس کو رشتہ دے دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین پر بہت بڑا فساد اور فتنہ ظاہر ہو جائے گا‘‘۔ اس وقت معاشرے میں رشتوں کا جو فقدان، اخلاقی بے راہ روی اور خاندانی بگاڑ پورے عروج پر نظر آتا ہے اس کا بنیادی سبب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے دُوری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیںاپنی اولادوں کے لیے ایسے رشتوں کا انتخاب کرنے کی توفیق دے جو ان کے دین اور دنیا کی کامیابی کا سبب بن جائیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں