جامعہ پنجاب سے میرا تعلق بہت پراناہے۔ میں نے جامعہ پنجاب سے کل وقتی طالب علمی کی حیثیت سے ابلاغیات میں ماسٹر ڈگری حاصل کی۔ ابلاغیات کے طالب علم کی حیثیت سے میں اپنے ہم مکتب ساتھیوں کے ہمراہ جامعہ میں ہونے والی تمام علمی تقریبات میں شرکت کرتا رہا۔ دین، سیاست، معیشت اوردیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین جب بھی جامعہ میں خطاب کرنے کے لیے آتے، میں ضرور ان کے علم اور تجربے سے استفادہ کرتا ۔ بعد ازاں کئی دن تک ان مجالس میں ہونے والے خطابات اور گفتگو پرتبصر ہ ہوتا رہتا۔ تعلیم حاصل کرنے کے دوران میں نے ایک طالب علم کی حیثیت سے مختلف نشستوں میں بطور مقرر بھی شرکت کی اور اپنی بساط و استعداد کے مطابق ان میں اپنا حصہ بھی ڈالتارہا۔ جامعہ سے ابلاغیات کی تعلیم مکمل کرنے کے بعدبھی میں نے جامعہ سے مختلف علوم میں ڈگریاں حاصل کیں اور اس سارے عمل کے دوران میرا جامعہ سے تعلق مضبوط ہوتا رہا۔ جامعہ سے فارغ ہونے کے بعد میں منبر ومحراب سے وابستہ ہو گیا۔ اس وابستگی کی وجہ سے بھی مجھے بہت سے تعلیمی اداروں میں خطاب کرنے کا موقع میسر آتا رہا۔
جامعہ پنجاب کے طلبہ بھی مجھ سے ہمیشہ محبت کا مظاہر ہ کرتے رہے اور انہوں نے مجھے مختلف قومی اور مذہبی عنوانات پر کئی مرتبہ خطاب کی دعوت دی۔ حال ہی میں ایک بار پھرجامعہ میں ایک تین روزہ پر وقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ پہلے روز مجھے بطور مہمان مقرراظہارِخیال کی دعوت دی گئی۔ مجھے بتلایا گیا کہ میں نے حیا ء کے عنوان پر طلبہ کے سامنے اپنے خیالات و گزارشات کو رکھنا ہے۔
جب میں جامعہ کی طرف جا رہا تھا تو مجھے اپنے طالب علمی کے ایام یاد آ رہے تھے۔ ابلاغیات میں ڈگری لیے ہوئے مجھے اٹھارہ برس کا عرصہ بیت چکا ہے۔ میرے ذہن میں وقت کی تیز رفتاری کے حوالے سے مختلف خیالات گردش کر رہے تھے۔ زندگی کس قدر تیز رفتاری سے گزر رہی ہے، یہ احساس مجھے بری طرح جھنجھوڑ رہا تھا۔ انسا ن کس قدر سرعت سے اپنے انجام کی طرف پیش قدمی کرتا ہے، لیکن پھر بھی وہ اس عارضی زندگی کی رنگینیوں کی وجہ سے اپنی فنا سے غافل رہتا ہے۔ انہیں سوچوں میں غلطاں و پیچاں میں جامعہ پنجاب کے چار نمبر گیٹ سے یونیورسٹی میں داخل ہو گیا ۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ذمہ داران نے بڑے پرتپاک انداز میں میرا استقبال کیا۔ مجھے ان کی گرمجوشی دیکھ کر اپنا ماضی یاد آگیا کہ جب ہم جامعہ میں آنے والے معزز مہمانوں کا استقبال پرجوش اندازمیں کیا کرتے تھے۔ پنڈال کو بہت خوبصورت انداز میں ترتیب دیا گیا تھا۔ تلاوت قرآن مجید،حمد باری تعالیٰ اور نعت رسولِ مقبول رسولﷺ کے بعد مجھے حیاء کے موضوع پر اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی۔ تقریباً پچاس منٹ تک میں نے طلبہ کے سامنے جن گزارشات کو پیش کیا، ان کا خلاصہ میں قارئین کے سامنے بھی رکھنا چاہتا ہوں:
اسلام ایک مکمل ضابطہ ٔ حیات ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے ماننے والوں کی کامل رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام کی سماجی زندگی میںجن خصوصیات کو نمایاں حیثیت حاصل ہے ان میں سرفہرست حیا ہے۔ ایک با حیاء اور مہذب انسان جہاںاپنے کردار اور پاکدامنی کی حفاظت کرتا ہے وہاں معاشرے کو بھی اس بے ضرر اور باعمل انسان کی وجہ سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ بدکرداری، زناکاری ، ہم جنس پرستی جیسے گناہ بے حیائی کی انتہا ہیں جن سے اجتناب کرنا ہر باعمل مسلمان مرد اور عورت کے لیے ضروری ہے، لیکن ان سارے مذموم افعال سے کہیں پہلے ایسے اعمال سے اجتناب کرنا بھی انتہائی ضروری ہے جو انسانوں کو ان برائیوں کی طرف لے جانے والے ہوں۔ دور حاضر کے بہت سے نوجوان بڑی برائیوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ ان کی کثیر تعداد ایسی بھی ہے جو گندی فلمیں اور گندے پروگرام یکھنے کی عادی ہو چکی ہے۔ بہت سے نوجوان اپنی نجی مجالس میں فحش مزاح اور گندی گالیوں کا بکثرت استعمال کرتے ہیں ۔ اس قسم کے رویوں کی وجہ سے انسانوں کی سیرت مسخ ہو جاتی ہے اور یہ عادات پختہ ہو جانے کے نتائج انتہائی بھیانک نکلتے ہیں۔ اگر انسان اس طرح کی عادات سے چھٹکارا حاصل نہیں کرتا تو وہ کبھی مثالی شوہر اور باپ نہیں بن سکتا۔
جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس بات کو سمجھ لیتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء اور رُسل علیھم السلام کے واقعات کومختلف مقامات پر اس لیے بیان کیا ہے کہ وہ مثالی کردار کے مالک تھے اور برائی کے قریب جانے کو بھی باعث عار سمجھتے تھے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے عزیز مصر کی بیوی کی دعوت گناہ کو ٹھکرا دیا۔ جب اُس نے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن سے مصر کی عورتوں کو آگاہ کیا تو حضرت یوسف علیہ السلام نے مستقبل میں اُبھرتے ہوئے ممکنہ فتنوں سے بچاؤ کے لیے جیل جانے کی دعا کی۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ کردار آج کل کے نوجونواں کے لیے مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے برائی کے مقابلے میں جیل خانے کی تنہائیوں کو ترجیح دی تھی۔
حضرت لوط علیہ السلام بھی اپنی قوم کے لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے رہے اور بستی والوںکی مخالفت کے باوجود ان کی اصلاح کا فریضہ انجام دیا۔ حضرت لوط علیہ السلام کے اس عمل میں ہمارے لیے سبق ہے کہ حالات خواہ کیسے ہی کیوں نہ ہوں انسان کو برائی کے خلاف آواز اُٹھاتے رہنا چاہیے۔ حضرت لوط علیہ السلام نے جہاں ہم جنس پرستی کے خلاف آواز اُٹھائی وہاں پروردگار عالم سے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے نجات کی دعا بھی کی۔ دانش مندی کا تقاضا یہ ہے کہ انسان برے ماحول سے نجات حاصل کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے اور اس حوالے سے اللہ سے مدد طلب کرتا رہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے بڑھ کر ایک مثالی زندگی بسر کی۔ لوگوں کو تزکیہ نفس اور تقویٰ کی دعوت دی۔ بے پردہ معاشرے کو پردہ داری کا سبق دیا ، زنا کاری کی روک تھام کے لیے کڑی سزائیں تجویز فرمائیں۔ جلد ازجلد نکاح کی رغبت دلائی اور اختلاط کی حوصلہ شکنی کی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا اثر تھا کہ معاشرے سے اخلاقی جرائم کا خاتمہ ہوگیا۔اگر کوئی شخص برائی کا ارتکاب کر بھی لیتا تو اللہ تعالیٰ کا خوف اور یوم احتساب کا ڈر اس کو اعتراف جرم پر مجبور کر دیتا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تربیت کا اثر تھا کہ زمانہ جاہلیت میں غیر عورتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ، اسلام لانے کے بعد اُن کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں بیٹھنے والے لوگوں کو برائی سے نفرت ہو جایا کرتی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جو فطری صلاحیتیںاورتوانائیاںعطا کی ہیں ان کا درست اور صحیح استعمال یہی ہے کہ انسان اپنی محبتوں کا مرکز و محورفقط اپنی شریک حیات کو بنائے ، کسی کی بہن ، بیٹی ، بیوی اور بہو کے بارے میں برے تصورات کو اپنے دل میں جگہ نہ دے۔ جو شخص کسی کی بہن ، بہو ، بیٹی اور بیوی کے بارے میں برے جذبات اور میلی نگاہ نہیں رکھتا اس کی اپنی بہو، بیٹی اور بہن کے تحفظ کے امکانات بھی خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں۔ حیاء ایک فرد سے شروع ہوتی ہے اور خاندان سے لے کر سماج تک ہر فرد اور ادارے پر اپنے اثرات چھوڑتی ہے۔ ایک حیاء دار معاشرے میںامن اور سکون ہوتا ہے جب کہ بے حیائی کے فروغ کے نتیجے میں فساد، خلفشار اوراحساس عدم تحفظ کو فروغ ملتا ہے۔ ہم سب کو اپنے معاشرے کو مثالی معاشرہ بنانے کے لیے حیا داری کو فروغ دینا چاہیے اور بے حیائی کی ہر قسم کا قلع قمع کرنے کی بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔