اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ان گنت ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ ابراہیم کی آیت نمبر34 میں فرمایا ہے کہ: ''اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو ان کو گن نہیں سکتے ۔‘‘ انسان اگر کائنات ِ رنگ و بوپر غور کرے تو اس کو ہر سمت اللہ تعالیٰ کی نعمتیں بکھری ہوئی نظر آئیں گی۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ حم سجدہ میں اعلان فرما دیا کہ ''پس ہم ان کو اپنی نشانیاں دکھلائیں گے آفاق میں اور ان کی اپنی ذات میں۔‘‘چنانچہ انسان اگر اپنے جسم پر غور کرے تو اس کو اپنے بدن میں ایسے ان گنت نظام کام کرتے نظر آئیں گے جن کی تخلیق اور فعالیت میں انسان کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فضائے بسیط میں پھیلی ہوئی بیسیوں گیسوں کے درمیان سے آکسیجن کو کشید کرنے کے لیے انسان کو پھیپھڑے عطا فرمائے۔ اسی آکسیجن کی فراہمی کو برقرار رکھنے اور معمولی سی کمی کو دور کرنے کے لیے انسان کو بڑے بڑے سلنڈروں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اگر زیادہ مدت تک پھیپھڑے صحیح کام نہ کریں تو انسان اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
اگر انسان اپنے دوران خون پر غور کرے تو حیران رہ جاتا ہے کہ چھوٹا سا گوشت کا لوتھڑا پورے جسم کو تازہ خون فراہم کرتا ہے۔ تاحیات مسلسل چلنے والے دل کی حرکت کے ساتھ ہی زندگی کی حرکت ہے۔ دل میں پیدا ہونے والی معمولی سی خرابی سے انسان کا پورا جسم اور اعصاب بری طرح متاثر ہوتے ہیں اور اس کی صحت اور اعتدال سے انسان میں سکون اور راحت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ نظام انہضام پر غور کریں تو یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ معدے کی درستگی بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے۔ نظام انہضام میں پیدا ہونے والی معمولی سے بے ترتیبی ا نسان کو بے چین کر دیتی ہے۔ چند روز معدہ درست کام نہ کرے تو معمولات زندگی میں دلچسپی ماند پڑنے لگتی ہے۔ معدے کی درستگی اور فعالیت کے ساتھ انسان اپنے اندر ہمت اور توانائی محسوس کرتا ہے۔
انسان اپنی آنکھ سے دنیا کے مختلف مناظر دیکھتا اور ہر طرف رنگ ونور کے امنڈتے سیلاب کا مشاہدہ کرتا ہے۔ بینائی کے ذریعے انسان مطالعہ کرتا اور اپنے پسندیدہ مناظر سے لطف اندوز ہوتا ہے۔ بینائی میں واقع ہونے والا معمولی سا خلل زندگی کو اذیت سے دوچار کر دیتا ہے۔ انسان اندھیرے کے احساس سے ہی گھبراہٹ اور بے قراری کا شکار ہو جاتا ہے۔ آنکھوں کی صحیح کارکردگی سے انسان کو تمانیت اور سکون حاصل ہوتا ہے۔
انسان کے جسم میں بننے والے اضافی اور زہریلے مادوں کے اخراج کے لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو دو چھوٹے چھوٹے گردے عطا فرمائے ہیں جن کی فعالیت کا عالم یہ ہے کہ بڑی بڑی فلٹر مشینیں بھی وہ کام نہیں کر سکتیں جو یہ گرد ے انجام دیتے ہیں۔ گردوں کی خرابی کی صورت میں انسان مایوسی ، اضطراب اور اکتاہٹ کی گہرائی میں اتر جاتا ہے۔ گردوں کی درست کارکردگی کے دوران انسان کبھی اس نعمت کی اہمیت پر غور نہیں کرتا۔ انسان کے جسم میں بیسیوں ہڈیاں اور جوڑ ہیں جن کی درست کارکردگی کی وجہ سے انسان اپنے معمولات احسن طریقے سے انجام دیتا ہے۔ اگر ہڈیوں اور جوڑوں کی کارکردگی متاثر ہو جائے تو راتوں کی نیند اور دن کا چین کافور ہو جاتا ہے۔ انسان حسرت و یاس کی تصویر بن کر اپنے ایام تندرستی کی یادوں میں غرق رہتا ہے۔ صحت مندی کے حصول کے ساتھ ہی انسان کی ساری مایوسیاں اورکلفتیں دور ہو جاتی ہیں۔ انسان کی بھوک اور پیاس کو دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات پیدا کیے۔ ہر کھانے کا ذائقہ دوسرے کھانے سے جدا اور ہر مشروب کی کیفیت دوسرے سے علیحدہ ہے۔
اللہ تعالیٰ نے روزوشب کی تلخیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے انسان کو اس کی جنس میںسے ہی شریک زندگی کی نعمت سے نواز دیا۔ جس کی رفاقت میں وہ سکون محسوس کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے مرد اور عورت کے درمیان ایسی محبت اور کشش رکھ دی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی طرف مائل رہتے ہیں۔ ان میںسے کسی ایک کی جدائی دوسرے کے لیے بے چینی کا سبب بن جاتی ہے۔ عام حالات میں انسان اس نعمت کی قدروقیمت سے کماحقہ واقف نہیں ہوپاتا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے دل کو سرور عطا فرمانے کے لیے اولاد کی نعمت عطا کی ۔ اولاد کا وجود انسان میں نئی توانائیاں اور امنگیں پیدا کرتا ہے اورا ولاد کا مستقبل سنوارنے کے لیے انسان ہر قسم کی توانائیوں اور وسائل کو صرف کرنے پر آمادہ وتیار ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو گھر بار کی نعمت سے بھی بہرہ ور فرمایا۔ دنیا کی مہنگی سے مہنگی اور عالیشان عمارت میں انسان کو وہ سکون حاصل نہیں ہوتا جو اس کو اپنے گھر کی چار دیواری میں ملتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل اور حواس خمسہ کی نعمتوں سے بھی نوازا۔ حواس خمسہ انسان کی درست سمت میں رہنمائی کرتے ہیں اور عقل کے ذریعے انسان حالات اور واقعات کا تجزیہ کرتا ہے۔ عقل میں پیدا ہونے والا معمولی سا فتور زندگی کے لیے روگ بن جاتا ہے جب کہ عقل کی درستگی کی وجہ سے انسان زندگی میں صحیح اور متوازن فیصلے کرنے کے قابل رہتا ہے۔ حسن اور جوانی بھی اللہ تعالیٰ کی نعمتیں ہیں جن کے حصول کے لیے انسان کو کوئی تگ ودو نہیں کرنا پڑتی۔ حسن کی نعمت ہر کسی کو حاصل نہ بھی ہو تو جوانی کی نعمت سے ہر انسان بہر ہ ور ہوتا ہے۔
خارج میں اگر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر غور کیا جائے تو جگ مگ کرتے حسین ستارے، وقت کا تعین کرنے والا چاند اور حرارت اور روشنی کا منبع سورج اللہ کی بہت بڑی نعمتیں ہیں۔ اسی طرح دن اور رات کی آمدورفت بھی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی عطا ہے۔ رات باعث سکون اور دن معیشت کی گاڑی کو چلانے کا بہت بڑا ذریعہ ہے۔ انسان کی یہ کوتاہ بینی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا کما حقہ شکریہ ادا نہیں کرتا او ر بالعموم اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں سے فیض یاب ہو کر بھی کفران نعمت کا ارتکاب کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح انسان کی یہ بھی بدنصیبی ہے کہ وہ نعمتوں کا درست تعین اور تجزیہ بھی نہیں کر پاتا۔ انسانوں کی اکثریت کے نزدیک بالعموم دولت،جاہ، منصب، اقتدار اور شہرت کی غیر معمولی اہمیت ہے۔انسان اگر ان نعمتوں کو پالے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس نے سب کچھ پالیا ہے۔
حقیقی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت ہی قابل قدر ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی جملہ نعمتوں میں سے کوئی نعمت بھی ایمان کی نعمت کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ اگر انسان صاحب ایمان ہو تو ہر نعمت بامعنی اور بامقصد ہے۔ اگر انسان ایمان کی نعمت سے محروم ہو تو ہر نعمت فانی اور چھن جانے والی ہے اور اکثر صورتوں میں یہ نعمتیں انسان کی بازپرس کا باعث بھی بننے والی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ تکاثر میں اعلان فرمایا ''اور البتہ تم سے ضرورنعمتوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔‘‘ اگر انسان ایمان کی نعمت سے محروم ہے تو اس کا اقتدار مال اور سرمایہ اس کو اخروی سربلندی اورفلاح وبہبود سے ہمکنار نہیں کر سکتا۔ اس کے بالمقابل اگر انسان صاحب ایمان ہو تو دنیا میں پاکیزہ زندگی اور آخرت کی فلاح وبہبود اس کا مقدر بن کے رہے گی۔ انسان اگر ایمان کے ساتھ مادی نعمتوں سے بھی بہرہ ور ہو تو یہ اس کے لیے باعث سعادت و مسرت ہے اور اگر صاحب ایمان انسان مادی نعمتوں سے محروم ہو تو یہ چیز اس کے لیے گھاٹے اور خسارے کا باعث نہیں ہے، اس لیے کہ حقیقی کامیابی اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا میں پنہاں ہے۔ انسان اکثر نعمتوں کو گنتے وقت ایمان کو ترجیح دینا تو درکنار اس کو یکسر فراموش کر جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایمان کی نعمت سب نعمتوں سے بڑی ہے، ایمان کھو کر سب کچھ ملا تو کچھ بھی نہ ملا اور سب کھو کر ایمان مل گیا تو سب مل گیا۔ اس حقیقت کو صحیح معنوں میں اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پوری طرح سمجھا اور ایمان کی نعمت کو پانے کے لیے اپنا مالی اور جانی نقصان گوارہ کر لیا،اپنے گھر بار اوراپنے اعزہ واقارب کو بھی خیرباد کہنا پڑا تو اس سے بھی گریز نہ کیا۔ اے کاش! ہم سب کو بھی اللہ تعالیٰ کی یہ سب سے بڑی نعمت حاصل ہو جائے اور پروردگار عالم ہمیں بصارت کے ساتھ ساتھ بصیرت سے بھی نوازے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کی دیگر نعمتوں کے ساتھ ساتھ اس نعمت کا بھی شکریہ ادا کرنے والوں میں شامل ہو جائیں۔