"AIZ" (space) message & send to 7575

سقوط ڈھاکہ

اُمت مسلمہ کی تاریخ میں تین المناک سانحے ایسے گزرے ہیں کہ جن کی کسک آج بھی اسلامیانِ عالم اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں اور جب بھی ان کی یاد آتی ہے ہر حساس مسلمان کا دل دکھ اور کرب کے احساسات سے لبریز ہو جاتا ہے ۔ پہلا المناک واقعہ سقوط ِبیت المقدس کا تھا ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس کی چابیوں کے حصول کے لیے خود مسلمانوں کے دارالخلافہ کو خیرباد کہا تھا اور عہد فاروقیؓ کے بعد کئی صدیوں تک انبیاء علیہم السلام کی اس مسجد کے میناروں سے تواتر کے ساتھ حیَّی عَلَی الصَّلاۃ اور حیَّی عَلَی الفَلاح کی روح پرور صدائیں بلند ہوتی رہیں اور پھروہ وقت بھی آیا جب صلیبیوں نے یلغار کرتے ہوئے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے مسلمانان ِعالم کی بیداری کے لیے بے مثال جدوجہد کی اور صلیبی جنگوں میںصلیبیوں کو شکست دے کر ایک مرتبہ پھر القدس کو باز یاب کروالیا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے عہد سے لے کر بیسویں صدی کے وسط تک مسلمان بیت المقدس اور فلسطین پرحکمران رہے ۔ عرب مسلمانوں کی قبائلی اور علاقائی عصبیت کے نتیجے میں یہودی اس قابل ہوئے کہ انہوں نے 1967ء میں بیک وقت مصر، اردن ، لبنان اور عراق کو شکست دے کر قبلہ اوّل پر غاصبانہ قبضہ جما لیا ۔ گزشتہ 47برسوں سے غزہ اور فلسطین میں بسنے والے مسلمانوں پر طرح طرح کے مظالم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ۔ بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے لیکن قومیتوں میں تقسیم مسلمان اپنے مظلوم بھائیوں کو یہود کے پنجہ ستم سے نجات دلانے کے لئے کوئی موثر قدم نہیں اٹھا سکے ۔ 
دوسرا المناک سانحہ سقوط بغداد تھا ۔حملہ آور تاتاریوں نے قصر خلافت اور مرکز خلافت بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ دجلہ و فرات کے پانی مسلمانوں کے کتب خانوں کی کتابوں کے بہائے جانے کی وجہ سے سیاہی مائل ہو گئے اور انہی دریاؤں کا پانی مقتو ل مسلمانوں کے لہو سے سرخ بھی ہوا ۔ مسلمان اپنی نا اتفاقی اور کتاب وسنت کی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے جارحیت کا ارتکاب کرنے والے عناصرکے مقابلے میں ہر اعتبار سے بے بس اور لاچارہو گئے ۔
تیسرا المنا ک سانحہ سقوط ڈھاکہ ہے ۔ مسلمانوں نے محمد بن قاسم کی برصغیر میں تشریف آوری سے بہادر شاہ ظفر کے محدود اقتدار تک‘ گیارہ صدیوں سے زائد عرصہ تک برصغیر پر حکومت کی تھی ۔ مسلمانوں نے برصغیر کی تعمیر وترقی ، تہذیبی اور سیاسی ارتقاء کے لیے بھی نمایاں کردار ادا کیا ۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے برصغیر میں داخل ہونے والاانگریزرفتہ رفتہ مسلمانوں سے حکومت چھیننے میں کامیاب ہو گیا ۔1857ء کی جنگ آزادی میں انگریز فاتحین کا اصل ہدف مسلمان تھے ۔ مسلمانوں کو اقتدار پر براجمان ہونے کی وجہ سے براہ راست انتقام کا نشانہ بنایا گیا ۔ مسلمانوں نے سیاسی اور سماجی حقوق سے محروم ہونے کی وجہ سے ہندوؤں کے ساتھ مل کر انگریزوں سے آزادی کے حصول کے لئے جدوجہد کا آغاز کیا لیکن مسلمان رہنما بتدریج اس حقیقت کو بھانپ گئے کہ ہندو مسلمانوں کے ساتھ مخلص نہیں ہو سکتے، چنانچہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر ایک علیحدہ وطن کے حصول کے لئے بھرپور تحریک چلائی گئی ۔ تحریک کے قائدین علامہ محمد اقبالؒ، قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور دیگر رہنماؤں نے ایک علیحدہ اسلامی رفاہی مملکت کے حصول کے لئے بھر پور جدوجہد کی۔ مسلمانوں کے تمام طبقات نے لسانی‘ فرقہ وارانہ اور نسلی تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر ان لیڈروں کی قیادت میںپر خلوص کوششیں کیں اور بالآخر دنیا کے نقشے پر پاکستان سب سے بڑی اسلامی مملکت کی حیثیت سے ابھر آیا ۔ 
اس عظیم جدوجہد کا پس منظر، مسلمانوں کی مذہب سے والہانہ محبت تھی ۔ برصغیر کے طول عرض میں عوامی سطح پر ایک ہی نعرہ لگایا گیا تھا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ، یہ نعرہ کثیر القومی ریاست کے اتحاد اور اس کی اندرونی قوت کی علامت تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد پاکستان بدنصیبی سے ایک حقیقی اسلامی فلاحی ریاست میں تبدیل نہ ہو سکااور اس کے ساتھ ساتھ ملی وحدت کے بر خلاف مختلف قومیتوں کے درمیان اپنے اپنے حقوق کے حصول کے لیے تنازعات کا بھی آغاز ہو گیا ۔ پہلا تنازع اردو کے ساتھ بنگلہ کو قومی زبان قرار دینے پر ہوا ۔ بنگالیوں کے اس قابل غور مطالبے کو سیاسی طریقے سے حل نہ کیا جا سکا جس کی وجہ سے بنگالیوں میں احساس محرومی پیداہوا ،اس میں اس وقت بہت زیادہ اضافہ ہوا جب عوامی لیگ نے 1970ء کے انتخابات میں نمایاں کامیابی حاصل کی، لیکن اس کے باوجود اُسے اقتدار سے محروم رکھا گیا ۔ یہ سیاسی تنازع بڑھتے بڑھتے پاکستان کی تقسیم پرمنتج ہوا ۔ مشرقی پاکستان کے دینی حلقوں اور قائدین نے ملک کو یکجا رکھنے کے لئے پر خلوص جدوجہد کی لیکن انڈین فوج کی براہ راست مداخلت کی وجہ سے کامیابی نہ ہو سکی۔ 16 دسمبر 1971ء کو پاکستان دو لخت ہو گیا۔ بنگال میں پاکستان اور نظریہ پاکستان سے محبت رکھنے والے اتنے معتوب ہوئے کہ تاحال ان سے انتقام لینے کا سلسلہ جاری و ساری ہے ۔
کتاب وسنت کی تجرہ گاہ کے طور پر حاصل کیے جانے والے وطن میں عملاً کتاب وسنت کا نفاذ کرنا مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری تھی۔ لیکن آئینی اور نظریاتی طور پر اسلام کے نفاذ کی یقین دہانیوں کے باوجود بہت سے معاملات میں عملاً کتاب وسنت سے بہت زیادہ اعراض کیا گیا۔ اسی طرح مختلف قومیتوں کے درمیان پائے جانے والے تنازعات اور خلیج کوپاٹنا بھی قومی رہنماؤں کی اہم ذمہ داری ہے تاکہ ملک کو یکجا اور متحد رکھا جا سکے۔ اسی طرح انتخابی عمل کو ہر اعتبار سے شفاف بنانا بھی حکومتوں اوراداروں کی ذمہ داری ہے لیکن 1971ء کے بعد بھی بہت سے اہم معاملات پر مناسب پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے اسلامی اور نظریاتی تشخص کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری ہے اوربعض این جی اوز اور دانشورپاکستان کی نظریاتی بنیادوں کو منہدم کرکے اس کو ایک قومی ریاست میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ ملک کے ایک حصے میں بسنے والی بعض قومیتوں کے دوسری اقوام کے بارے میں رنجشیں اور تحفظات موجود ہیں۔ان کا ایک بڑا سبب سیاسی نا ہمواری اوربعض جائز حقوق کا میسر نہ آنا ہے۔ حکمران اقتدار کے نشے میں دھت ہو کر قومیتوں کی محرومیوں کے ازالے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر پاتے۔ان محرومیوں کے ازالے کے لیے پالیسی سازوں کو جامع حکمت عملی مرتب کرنا چاہیے تاکہ منفی عزائم رکھنے والے گروہوں کی منفی سرگرمیوں کو روکا جا سکے۔ اسی طرح بڑی جماعتوں کو علاقائی سے زیادہ قومی سطح پر کام کرناچاہیے۔ 
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ملکوں کی تمام بڑی جماعتوں کو ملک گیر کی بجائے صوبائی اور علاقائی مینڈیٹ حاصل ہے۔ ملک کا مینڈیٹ پانچ حصوں میں تقسیم ہے۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف، سندھ کے دیہی علاقوں میں پیپلز پارٹی، سندھ کے شہری علاقوں میں متحدہ قومی موومنٹ اور بلوچستان میں بعض مذہبی اور قوم پرست جماعتوں کو مخلوط مینڈیٹ حاصل ہے۔ مینڈیٹ کی یہ تقسیم ملکی وحدت کے لیے مفید نہیں۔سیاسی جماعتوں کو جماعتی اور علاقائی مفادات سے بالا ہوکر ملک وملت کی وحدت اور ترقی کے لیے کام کرنا چاہیے، پاکستان کو مضبوط فلاحی ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے توانائیوں کو صرف کرنا چاہیے تاکہ پاکستان کو آئندہ ہر قسم کے صدمات اور حادثات سے محفوظ رہ کر امن اور سکون کا گہوارا بنایا جا سکے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں