اخبارات میں آئے روز اس قسم کی خبریں پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں کہ شوہر نے بھوک سے تنگ آکر بیوی کو گھرسے نکال دیا اور اپنے بچوں کا گلا گھونٹ دیایاکسی غربت سے تنگ ماں نے بچوں کو دریا میں پھینک دیا۔ اسی طرح حال ہی میں فیصل آباد میں ایک عورت نے بچیوں کو زہریلی دواپلانے کے بعد خود بھی وہ دوا پی لی۔ہسپتال میں اس ماں اور بچیوں کو بچانے کی بھر پور کوشش کی گئی لیکن عورت اور اس کی دو بچیاں جانبر نہ ہوں سکیں۔ خبر کے مطابق عورت کا شوہر مالی مسائل کا شکار تھا اور عورت کے لیے غربت اور بھوک کو برداشت کرنا مشکل ہو چکا تھا۔ اس طرح کی خبروں کو پڑھ کر یہ جانچنا کچھ مشکل نہیںرہتا کہ غربت اور افلاس کا شکار بہت سے لوگ حالات کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہو کر بعض اوقات اپنے بچوں کی جان لینے پر بھی آمادہ وتیار ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح مایوسی کی انتہا کا شکار بہت سے لوگ خود اپنے ہاتھوں سے اپنی جان تک لے لیتے ہیں۔
اس قسم کے واقعات میں حکومتوں، سیاسی رہنماؤں ، علماء اور معاشرے کے لیے سوچ بچار کا بہت ساسامان موجود ہے۔ اگرچہ اس قسم کے قبیح اور قابل نفرت جرائم کا نہ تو کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس پر کوئی صفائی دی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس قسم کے واقعات کی روک تھام کے لیے حکومتوں، معاشرے کے ذمہ داران، علماء اور ہر شہری کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا ہوگا۔ پہلی ذمہ داری حکومتوں پر عائد ہوتی ہے۔ حکومتوںپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ معاشرے میں سطح غربت سے نیچے رہنے والے طبقات کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے احسن طریقے سے بندوبست کریں اور اس سلسلے میں خلفاء راشدین کی سیرت اور بالخصوص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کردار سے بھرپور رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ حضرت عمر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں غریب اور محروم طبقات کی ضروریات کو پورا کرنے کا ہر ممکن بندوبست فرمایااور بیت المال کا بنیادی مقصد عوام کی فلاح وبہبود کے معاملات کو بہتر سے بہتر بنانا تھا۔ اس حوالے سے آپ کے نمائندگان بھی آپ کو معلومات فراہم کرتے اور خود حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی لوگوں کے حالات سے آگہی حاصل کرنے کے لیے راتوںکو گشت فرمایا کرتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سماجی تحفظ کے جس نظام کی کتاب وسنت کی روشنی میں بنیاد رکھی بعد ازاں اسی نظام کو اختیارکر کے یورپ کے بہت سے ممالک میں سوشل سکیورٹی کا منظم نظام اپنے معاشروںمیں متعارف کروایا۔اس وقت برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، ناروے اور دیگر بہت سے ممالک میں عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے منظم اور مربوط سکیورٹی سسٹم موجود ہے۔ پیپلزپارٹی نے بھی ایک دور میںروٹی، کپڑا اور مکان کی فراہمی کا نعرہ لگایا تھالیکن عملی اعتبارسے اس حوالے سے کچھ خاص پیشرفت نہ ہو سکی۔ اپنی جان اور اپنے اہل خانہ کی زندگی کا نقصان کرنے والے لوگوں کو جہاں اس جرم کے حوالے سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جوابدہ ہونا پڑے گا وہیں پر حکمرانوں کو بھی اس حوالے سے جوابدہی کے لیے تیار رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں کو اقتدار اور منصب عطا کیے کیا انہوں نے اپنے عہدے یا منصب کے ساتھ انصاف کیا یا فقط حکومتی مراعات اور منصب کے جاہ وجلال سے فیض یاب ہوتے رہے۔
حکمرانوں کے ساتھ ساتھ علماء پر بھی اس حوالے سے بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عوام کی اس حوالے سے رہنمائی کریںکہ زندگی میں پیش آنے والی تنگیاں اور تکالیف در حقیقت اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہیں اور معیشت کے حوالے سے درجات میں جو فرق پایا جاتا ہے اس کی اصل وجہ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فیصلہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کئی مرتبہ اپنے نیک بندوں کو بھی کم رزق عطا فرماتے ہیں اور کئی مرتبہ اپنے نافرمانوں کے رزق میں بھی وسعت فرماتے ہیں۔ رزاقِ حقیقی اللہ تبارک وتعالیٰ ہی کی ذات ہے اور کاروبار اور ملازمت میں توسیع یا تنگی اسی کے حکم سے ہوتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے فیصلوں پر راضی رہنے والے اور تنگیوں اور تکالیف پر صبر کرنے والوں سے اللہ تبارک وتعالیٰ بھی راضی ہوتاہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے بندوں کے درمیان دنوں کو پھیرتے رہتے ہیں اور ہر تنگی کے ساتھ آسانی بھی جڑی ہوتی ہے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہیں ہونا چاہیے اور اچھے وقت کا انتظار پورے حوصلے اور خندہ پیشانی کے ساتھ کرنا چاہیے۔ تنگ دستی کے شکار شخص کوقناعت کے ساتھ اپنا وقت گزارنا چاہیے اور جو کچھ اس کو میسر ہے اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔ جو شخص شکرگزاری کے رویے کو اختیار کرتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے اپنی نعمتوں کے دروازوں کو کھول دیتا ہے۔ علماء کو عوام کو یہ بات بھی سمجھانی چاہیے کہ تنگ دستی کا شکار لوگوں کے کام آنا کارِثواب ہے اور انسان کو اپنے اعزاء واقارب اور پڑوس میں بسنے والے غریب اور مفلوک الحال لوگوں کی مالی مشکلات کو دور کرنے کے لیے زکوٰۃ، صدقات، خیرات اور تحائف سے ان کی بھرپور مدد کرنی چاہیے اور ان کی دل جوئی کے ذریعے اپنی آخرت کو بہتر سے بہتر بنانے کی تگ ودو کرنی چاہیے۔ علماء کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماؤں کی بھی یہ ذـمہ داری ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کی سطح پر خدمت خلق کے منصوبوں کا اجراء کریں تاکہ غریب ،مستحقین اور نادار لوگوں کی امداد کا سلسلہ جاری وساری رہ سکے۔عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ سیاسی رہنما انتخابی مہم کے دوران عوام کے ساتھ بڑے بڑے وعدے کرتے ہیں لیکن الیکشن جیتنے کے بعد عوام اور اپنے وعدوں کو فراموش کر دیتے ہیں۔یہ سیاسی رہنما عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ہر انتخاب سے قبل ازسرنو عوامی خدمت کے عزم کا اظہار کرتے ہیں اور طویل عرصے تک سادہ لوح عوام کو بے وقوف بناتے رہتے ہیں۔ بعض سیاسی رہنما عوام کے احتساب کا شکار ہو کر اپنی نشست سے محروم ہوجاتے ہیں لیکن بہت سے رہنماجھوٹ بول کرعوام کو راضی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ ایسے رہنماؤں کو یاد رکھنا چاہیے کہ اگر وہ عوام کے احتساب سے بچ بھی گئے تو یوم حساب اللہ کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ملک میں بہت سے مخلص رہنما بھی موجود ہیں جو عوامی خدمت کو ذمہ داری سمجھ کر انجام دیتے ہیں عوام کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں اور ہر حال میں عوام کے کام آنے پر آمادہ وتیار رہتے ہیں ۔
سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہیے۔ غربت اور مفلوک الحالی کا شکار لوگوں کے ہمسائے میں بسنے والے خوشحال لوگوں کو اپنے ہمسایوں کی خبر گیری ضرورکرنی چاہیے۔ اگر معاشرے کے خوشحال لوگ معاشرے کے غریب اور نادار لوگوں کی معاونت کا فریضہ بطریق احسن انجام دیں تو معاشرے کے پریشان حال لوگوںکے دکھوں کا کافی حد تک مداویٰ ہو سکتا ہے۔ کئی مرتبہ انسان دوسرے انسان کی مالی معاونت نہ بھی کر سکے تو اُس کو اس کے ساتھ اچھے طریقے سے بات چیت کرکے اس کی ہمت بندھانی چاہیے اور اُسے کو دلاسہ دینا چاہیے۔ اس طریقے سے تکلیف میں مبتلا انسان اپنے آپ کو تنہا محسوس نہیں کرتا۔
سائنس کی ترقی نے انسانوں کو جہاں بہت سی سہولیات اور تعیشات فراہم کیے ہیں وہیں پراس کا ایک منفی نتیجہ انسانوں کی باہمی دوری کی شکل میں نکلا ہے۔ موبائل اور انفارمیشن ٹیکنالوجی نے انسانوں کو اس حد تک جذب کرلیا ہے کہ کئی مرتبہ ایک ہی مجلس میں موجود تمام لوگ ایک دوسرے سے گفتگو کرنے کی بجائے اپنے اپنے موبائل پر مصروف نظر آتے ہیں۔
محروم اور محتاج انسان دوسروں کی توجہ اور شفقت کا طلب گار ہوتا ہے اور یہ شفقت اور محبت اس کی زندگی کی بہت سی محرومیوں اور اذیتوںکے لیے مرہم کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ انسانوں کی اکثریت جہاں پیسے کے مسئلے میں بخل کا مظاہرہ کرتی ہے وہیں پر اچھے الفاظ اورخوشگوارجملے بھی دن بدن نایاب ہوتے جا رہے ہیں۔ معاشرے کا باہمی جڑاؤ جتنا مضبوط ہوگا اتنی ہی نفسیاتی محرومیاں اور الجھنیں کم ہوں گی اور جتنا معاشرہ کٹا ہوا اور لوگ ایک دوسرے سے بکھرے ہوئے اور جدا جدا ہوں گے اتنی ہی نفسیاتی محرومیاں اور اذیتیںبڑھتی چلی جائیں گی۔ اگر حکومتیں، سیاستدان، علماء اور معاشرے میں بسنے والے افراد اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں تو معاشرے کے دکھ درد بہت حد تک کم ہو سکتے ہیں اور آئے دن اخبارات میں چھپنے والی تکلیف دہ خبروں کی اشاعت میں خاطر خواہ کمی واقع ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اپنی سطح پر اپنی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین