ہر شخص نے ایک دن موت کا جام ضرور پینا ہے‘ لیکن بعض شخصیات ایسی ہوتی ہیں جو اپنی گفتار و کردار کے انمٹ نقوش رہتی دنیا تک چھوڑ جاتی ہیں۔ انہی میں سے ایک یادگار شخصیت مولانا اسحاق بھٹی مرحوم کی بھی تھی۔ مولانا اسحاق بھٹی صاحب گو اس وقت ہمارے درمیان موجود نہیں‘ لیکن وہ اپنی تحریروں کے ذریعے، اپنی ذہانت و فطانت اور کارکردگی کا احساس ہمیشہ دلاتے رہیں گے۔ مولانا اسحاق بھٹی صاحب کے ساتھ میرے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے‘ اور جب بھی بھٹی صاحب سے ملاقات ہوتی‘ بھرپور ہوتی۔ والد مرحوم علامہ احسان الٰہی ظہیر کے انتقال کے وقت میری عمر فقط پندرہ سال تھی‘ اور جن لوگوں نے میرے ساتھ انتہائی شفقت و محبت والا برتاؤ اور رویہ رکھا ان میں اسحاق بھٹی صاحب بھی شامل تھے۔ آپ مجھ سے کبھی ایک نوعمر طالب علم کی حیثیت سے نہیں ملتے تھے‘ بلکہ بڑے ہی بھرپور انداز سے میرے کاندھے تھپکتے اور میری حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔ والد کی عدم موجودگی میں اس طرح کا مشفقانہ رویہ انسان میں آگے بڑھنے کا عزم پیدا کرتا ہے۔ میں جوں جوں تعلیمی مدارج طے کرتا رہا‘ اسحاق بھٹی صاحب کی گرم جوشی میں اضافہ ہوتا رہا۔ وہ میری تعلیمی کامیابیوں پر ایک قریبی رشتہ دار والا رویہ اپناتے تھے‘ اور ان کی شفقت اور فراخ دلی کے سبب‘ میں انہیں انتہائی قریب محسوس کرتا تھا۔
اپریل 2004 ء میں‘ میں نے مینار پاکستان کے احاطے میں ایک پروگرام کا انعقاد کیا‘ جس میں بہت سے اہل علم کے ساتھ ساتھ اسحاق بھٹی صاحب بھی شریک ہوئے۔ انہوں نے اس پروگرام کے فوراً بعد میری حوصلہ افزائی کے لیے ایک کالم تحریر کیا،جسے پڑھ کر میں ان کی فیاضی کا مزید معترف ہو گیا۔ میں نے آج سے پانچ برس قبل ماہ رمضان المبارک میں ایک قومی اخبار میں قرآن مجید کا خلاصہ تحریر کیا‘ اور اسی سال پاکستان ٹیلی ویژن پر خلاصہ قرآن بھی بیان کیا۔ اس سے قبل میں یہ کام باقاعدگی سے فقط اپنی مسجد میں کیا کرتا تھا۔ ایک بڑے پلیٹ فارم پر قرآن مجید کا خلاصہ بیان کرنا‘ یا تحریر کرنا میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات تھی‘ اور میں اللہ تعالیٰ کی اس عنایت پر اُس کا حد سے زیادہ شکر گزار تھا۔ شکر گزاری کے ان لمحات میں جن بزرگوں نے میری بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی ان میں اسحاق بھٹی صاحب بھی شامل تھے۔ آپ نے نہ صرف یہ کہ زبان سے میری حوصلہ افزائی فرمائی‘ بلکہ آپ نے مفسرین قرآن پر اپنے مضامین میں مجھ ناچیز کو بھی جگہ دی۔ میں نے اسحاق بھٹی صاحب کے ہمراہ کچھ سفر بھی کیے‘ اور ان کو انتہائی خوش طبع انسان پایا۔ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان کی طبیعت میں تھکاوٹ اور کمزوری کی وجہ سے چڑچڑا پن پیدا ہو جاتا ہے‘ لیکن علم‘ تجربے اور مشاہدے کی وسعت کے سبب بھٹی صاحب میں ہمہ وقت تازگی، خوشگواری اور شگفتگی برقرار رہی۔ بھٹی صاحب کے ہمراہ ہونے والے سفروں کے دوران میں نے اس بات کا اندازہ لگایا کہ آپ صرف قلم کار ہی نہیں‘ بلکہ ایک بھرپور قسم کے مجلسی انسان بھی ہیں۔ آپ علمی نکات بڑے ہی احسن انداز میں بیان کرتے۔ ایک مرتبہ ان سے جادو کی حقیقت کے موضوع پر گفتگو ہوئی‘ تو انہوں نے اس حوالے سے بہت تفصیل سے اپنا موقف بیان کیا۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ بھٹی صاحب ایک مورخ ہی نہیں بلکہ قرآن مجید کی تفسیر اور احادیث نبوی شریف صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی گہری نگاہ رکھنے والے متبحر عالم دین ہیں۔ مولانا اسحاق بھٹی صاحب کو برصغیر کے نامور علما کے ہمراہ وقت گزارنے کا موقع ملا تھا‘ اس لیے وہ ان کے واقعات اور خیالات کو نہایت شرح و بسط سے بیان کرتے تھے۔ ان کا بیان کرنے کا انداز نہایت دلچسپ اور لطیف ہوتا تھا۔ انسان ان کی سحر انگیز شخصیت اور مسحور کن گفتگو میں کھو جاتا اور اسے یوں محسوس ہوتا کہ وہ خود ماضی میں چلا گیا ہے‘ اور ان تمام واقعات کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اسحاق بھٹی صاحب کے تعلقات صرف علما اور مذہبی اداروں کے ساتھ ہی نہیں تھے‘ بلکہ برصغیر پاک و ہند کی بہت سی سر کردہ شخصیات کے ساتھ بھی آپ کے ذاتی مراسم تھے۔ ان کے تعلقات کا دائرہ نظریاتی اور مذہبی اختلافات کے باوجود انتہائی وسیع نظر آتا تھا۔ انڈیا کے سابق صدر گیانی ذیل سنگھ ان کے ذاتی دوستوں میں شامل تھے۔ ان وسیع مراسم کے باوجود ان کی شخصیت میں تواضع اور انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ اور انسان ان کی مجلس میں بیٹھ کر یہ محسوس نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اپنے عہد کے اتنے بڑے انسان کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔
اسحاق بھٹی صاحب کی زندگی میں کسی بھی قسم کے تکلفات نہیں تھے۔ سادہ لباس زیب تن کرتے اور مجلس میں ایک عام شخص کی حیثیت سے تشریف فرما ہوتے لیکن جب بحث و تمحیص اور گفتگو میں حصہ لیتے تو پوری مجلس کی زینت بن جاتے تھے۔
اسحاق بھٹی صاحب نے بہت زیادہ محنت والی زندگی گزاری۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے سبب اخبارات اور رسائل میں اداریہ اور کالم نگاری کا سلسلہ مشن کے ساتھ ساتھ پیشہ ورانہ ضروریات کے تحت بھی انجام دیتے رہے؛ تاہم ایک مستقل مصنف کی حیثیت سے منظر عام پر آنے کے لیے ان کے پاس مطلوبہ وسائل موجود نہ تھے۔ آج سے تقریباً پندرہ برس قبل برادر ابوبکر قدوسی نے ان کی حوصلہ افزائی کی۔یوں اسحاق بھٹی صاحب نے اپنی پہلی کتاب طبع کرائی۔ بعدازاں مکتبہ قدوسیہ کی معاونت سے ان کی درجنوں کتابیں منظر عام پر آتی چلی گئیں۔ پچاس ہزار صفحات سے زائد مواد تحریر کرنے والا یہ عظیم مورخ کسی بھی سرکاری اور اداراتی سرپرستی کے بغیر اپنی مدد آپ کے تحت تاریخ نویسی کا فریضہ انجام دیتا رہا۔ بھٹی صاحب کی تحریریں پڑھنے والا ہر شخص آپ کی ثقاہت اور غیر جانب داری کا معترف بن جاتا تھا۔ آپ کی ہر کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد آپ کی اگلی کتاب کا شدت سے انتظار کیا جاتا تھا۔جونہی آپ کی نئی کتاب سامنے آتی، طالب علم خریداری کے لیے لپک پڑتے۔
بھٹی صاحب مجموعی طور پر تندرست اور توانا رہے۔ بڑھاپے کی کمزوری کے علاوہ انہیں کوئی خاص عارضہ نہیں تھا۔ آپ کی نماز جنازہ میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علما بالعموم اور اہل حدیث کے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بالخصوص شریک ہوئے۔ میں پہلے سے طے شدہ کسی سماجی مصروفیات کی وجہ سے بھٹی صاحب کے جنازے میں شرکت سے محروم رہ گیا‘ جس کا مجھے انتہائی شدید قلق رہے گا؛ تاہم میں نے اس روز نماز جمعہ کے بعد مرکز لارنس روڈ پر آپ کی غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا‘ اور پورے خلوص سے اپنے اس محسن اور مشفق بزرگ اور اس عہد کے عظیم مورخ کے لیے دعائے مغفرت کی۔ بھٹی صاحب دنیا سے رخصت ضرور ہوئے ہیں لیکن ان کی کتابیں پڑھنے والے طالب علم، علما اور عوام ہمیشہ ان کے پیغام، اسلوب، انداز تحریر اور معلومات سے مستفید ہوتے رہیں گے۔ بھٹی صاحب کی وفات نے دوبارہ اس حقیقت کو واضح کر دیا کہ دنیا میں جو شخص بھی آیا ہے ۔ایک دن اُسے جانا پڑے گا۔ باقی فقط رب کی ذات رہے گی۔ اللہ تعالیٰ بھٹی صاحب کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں اس فانی زندگی میں موت جیسی اٹل حقیقت کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین