اللہ تعالیٰ نے انسان کوجو نعمتیں عطا کی ہیں ان میں سے ایک بڑی نعمت وقت بھی ہے۔ جو شخص وقت کی قدر کرتا ہے وہ اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں بہت حدتک کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس جو شخص وقت کی قدر نہیں کرتا وہ زندگی میں کامیابیاں حاصل نہیں کر پاتا۔ تاریخ میں جتنے بھی بڑے لوگ گزرے ہیں ان تمام نے اپنے اپنے شعبوں میں وقت صرف کیا اور اعلیٰ ترین کامیابیوں سے ہمکنار ہوئے۔ جب کہ وقت کو ضائع کرنے والے لوگ دنیا میں کبھی بھی سربلند نہ ہو سکے۔ تاریخ پر نظر دوڑائیں تو اس بات کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ قوموں کے عروج اور زوال میں وقت کی قدر نے نمایاں کردار ادا کیا۔ جن اقوام نے وقت کی قدر کو پہچانا وہ عروج پر پہنچ گئیں اور جن اقوام نے اس کو ضائع کیا وہ ناکام اور نامراد ٹھہریں۔
انسان دنیا میں ایک مرتبہ آیا ہے اس کی زندگی کا مقصد فقط عیش وآرام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اس کے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی کے لیے بھی وقت درکار ہے اور اسی طرح اس کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے بھی وقت نکالنا پڑتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حقوق میں سے اہم ترین ارکان اسلام ہیں۔ شہادتین کے بعد نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی کے لیے وقت صرف کرنا پڑتا ہے۔ جو شخص ان فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دیگر امور انجام دینے کے لیے مناسب وقت نکالتا ہے دنیا میں اس کو سکون اور آخرت میں جنت جیسی عظیم نعمت حاصل ہو جائے گی۔ ان شاء اللہ۔ اس کے بالمقابل جو شخص ان فرائض کی ادائیگی کے لیے وقت نہیں نکالتا‘ وہ دنیا میں بظاہر کچھ بھی کامیابی حاصل کرلے‘ آخرت کی سربلندی سے محروم رہے گا۔ اسی طرح دنیا میں رہتے ہوئے انسان پر اس کے والدین ، اہل وعیال، رشتہ داروں اور اعزاء واقارب کے حقوق ہیں۔ جو ان حقوق کی پاسداری کے لیے وقت نکالتا ہے معاشرے کے لیے ایک مثال بن جاتا ہے۔ بہت سے لوگ ان حقوق کی ادائیگی میں غفلت برت کر دنیا اور آخرت کی ناکامیوں کو سمیٹ لیتے ہیں۔ تعلیم اور کاروبار کے شعبوں میں کامیابیاں حاصل کرنے والے لوگوںکی حالاتِ زندگی کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی اس حقیقت کو بھانپنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ یہ تمام وہ لوگ تھے جنہوں نے وقت کی قدروقیمت کا احساس کیا اور فضول قسم کے مشاغل سے بچتے رہے۔ چنانچہ انہوں نے مادی اور علمی اعتبار سے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔
قرآن وسنت کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام اور رسل اللہ نے وقت کی قدروقیمت کا پوری طرح احساس کیا۔ سورہ نوح میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کی جدوجہد کا ذکر کیا ہے کہ وہ صبح وشام اپنی قوم کے لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے رہے۔ قوم کی مخالفت، عداوت اور شقاوت نے ان کی تندہی اور محنتوںکوکسی بھی طرح متاثر نہیں ہونے دیا۔ وہ توحید کے ابلاغ جیسے عظیم مشن کی پاسداری میں ہمہ وقت مصروف اور مشغول رہے۔ ان کی نگاہ مادی نتائج سے کہیں زیادہ پیغام حق کی نشرواشاعت پر تھی۔ بستی کے لوگ آپ کی دعوت کو سن کر اپنے کانوں میں اپنی انگلیوں کو ڈال لیتے، آپ کو دیوانہ اور مجنوں کہتے حتیٰ کہ ظلم اور بربریت کی انتہا یہ ہے کہ آپ کو پتھر مارے گئے۔ لیکن آپ عزیمت اور استقامت کی چٹان بن کر اپنے مشن کی پاسداری میں مشغول رہے۔ 950 سال کی طویل مدت میں آپ نے وقت کے ہر لمحے کو اپنے عظیم مشن کے ابلاغ کے لیے صرف کیے رکھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت و کردار سے بھی یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آپ نے زندگی کے ہر لمحے کو توحید کی دعوت کو عام کرنے کے لیے وقف کیے رکھا۔ کبھی بتوں کی بے بسی کو واضح کیا، کبھی ستارہ پرستی کی حقیقت کو واضح کیا۔ کبھی اپنے والداور برادری کے سامنے پیغام حق کو رکھا۔ کبھی دربار نمرود میں جا کر توحید کی دعوت دی اور کبھی اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کے ہمراہ اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کے پہلے گھر کو تعمیر کیا۔ حج اور قربانی جیسی عظیم عبادات کاابلاغ کیا۔ اس ساری جدوجہد کے نتیجے میں آپ جمعی انسانیت کے امام بن کر ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا کردار بھی اس اعتبار سے ایک اعلیٰ مثال ہے۔ آپ اپنی مسلسل جدوجہد سے مثبت مزاحمت کی ایک علامت بن گئے۔ آپ نے فرعون کی رعونت، قارون کے سرمائے، ہامان کے منصب اور شداد کی جاگیر کو خاطر میں لائے بغیر اللہ تعالیٰ کی بندگی کی کھلے عام دعوت دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے میدانوں میں نکل کر وقت کے جادوگروں کا مقابلہ کیا اور فرعون کے سامنے کھڑے ہوکر اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کی سرعام دعوت دی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی اعلیٰ ترین مقاصد کے حصول کے لیے گزری۔ اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کی جدوجہد کو اس طرح قبول فرمایا کہ رہتی دنیا تک آپ کے تذکروں اور جدوجہد کو اپنے آخری مقدس کلام کا حصہ بنادیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اللہ تعالیٰ کی توحید کا بھرپور طریقے سے ابلاغ کیا اور وقت کے حاکم اور بستی والوں کی مخالفت کو مول لے لیا۔ توحید کے پیغام کا ابلاغ کرنے کے سبب آپ کو صلیب پر چڑھانے کی کوشش کی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے کافروں کے مکر کو خاک میں ملا دیا اور آپ کو زندہ آسمانوں کی طرف اُٹھا لیا۔ قرب قیامت سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینار پر نزول فرمائیں گے ۔ صلیب کو توڑیں گے، خنزیر کو قتل کریں گے اور دجال کی شرانگیزی سے بنی نوع انسان کو نجات دلائیں گے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ساری زندگی بھی مسلسل جدوجہد اور کوشش میں صرف ہوئی اور اس میں بنی نوع انسان کے لیے ایک پیغام بھی ہے کہ اتنے بڑے منصب پر فائز ہونے والے لوگ مسلسل جدوجہد کرسکتے ہیں تو ہمیں بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے رہنا چاہیے۔
جب ہم امام کائنات حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں بھی مسلسل جدوجہد نظر آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح کی مخالفت سہی، جھوٹے الزامات اور طعنہ زنی کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ طائف میںکافروں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود اطہر پر پتھر برسائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے ہجرت کے غم کو سہا۔ اعدائے دین کے حملوں کا مقابلہ کیا ، ادھیڑ عمر میں تلوار اور تیر کو اُٹھالیا اوران تمام سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ اپنے اہل خانہ اعزاء واقارب اور ساتھیوں کے حقوق کو بھی احسن طریقے سے ادا کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کردار اور عمل سے مسلسل جدوجہد اور محنت کا پیغام دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد آپ کے خلفاء نے وقت کے ہر لمحے کو غنیمت جانااور پوری دنیا میں اسلام کے پیغام کو عام کیا۔ خلافت راشدہ سے لے کر خلافت عباسیہ تک اور خلافت عباسیہ سے لے کر یورپ کی اموی حکومت تک دنیا میں مسلمانوں کے غلبے کی بڑی وجہ وقت کی قدروقیمت کو پہچاننا بھی تھا۔ جب مسلمان وقت کی قدروقیمت کو فراموش کرکے تن آسان ہو گئے اور تعیشات کے عادی ہو گئے تو غیر مسلم اقوام کو دنیا میں عروج حاصل ہوا۔ جب ہم آج کے معاصرمسلمان معاشروں پر نظر دوڑاتے ہیں تو ان میں جہاں دیگر بہت سی کمزوریاں نظر آتی ہیں وہاں ایک بڑی کمزوری وقت کو ضائع کرنے کی بری عادت بھی ہے۔
آج پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کی بڑی تعداد وقت کی قدروقیمت کو ضائع کرکے انتہائی سطحی انداز سے زندگی گزارنے میں مشغول ہو چکی ہے۔ سال 2015ء کا اختتام جہاں ہمیں بہت کچھ سوچنے کا درس دے رہا وہیں پر ہمیں یہ بھی بتا رہا ہے کہ ہم نے غفلت کوتاہی اور لاپرواہی میں زندگی کا ایک اور سال گنوا دیا ہے۔ ہمیں قومی سطح سے لے کرانفرادی سطح تک اپنا احتساب کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم وقت سے صحیح طریقے سے استفادہ کر رہے ہیں یا اپنا وقت گنوا رہے ہیں‘ حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم ملک وملت کے بہی خواہ ہیں اور اپنی قوم اور امت مسلمہ کو سر بلند کرنا چاہتے ہیں تو جہاں ہمیں ایمان اور عمل صالح کے راستے کو اپنانا ہو گا وہیں پر ہمیں وقت کے ضیاع سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بصیرت عطا کرے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی اس عظیم نعمت کے قدر دان بن جائیں۔