"AIZ" (space) message & send to 7575

عزمِ نو

انسان کی زندگی نشیب وفراز سے عبارت ہے۔ اسے زندگی کے مختلف ادوار میں طرح طرح کی مشکلات، حادثات اور تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کئی بار انسان اِن دشواریوں کے مقابلے میں اپنے آپ کو انتہائی کمزور اور بے بس محسوس کرتا ہے۔ ایسے میں کسی دوسرے انسان کی مستقل مزاجی اور ہمت کا سچا واقعہ انسان کے اندر ایک نیاعزم بیدار کرتا ہے اوروہ اپنے اندر حالات کا مقابلہ کرنے کی نئی صلاحیت محسوس کرنے لگتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص نے کسی نہ کسی بڑے انسان کے واقعات کانوں سے سنے یا ان کا مشاہدہ کیا ہے۔ ان واقعات کو سن کر اور ان کا مشاہدہ کر کے ہمارے اندر بھی ایک اُمنگ اور توانائی پیدا ہوتی ہے کہ اگر یہ لوگ زندگی کے نشیب و فراز کا مقابلہ پورے حوصلے ، ہمت اور توانائی سے کر سکتے ہیں تو ہمیں بھی زندگی کی مشکلات سے نا اُمید اور مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب حمید میں بہت سے واقعات بیان کیے جن میں سے ایک اہم واقعہ حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے۔ یہ واقعہ پڑھنے سے انسان کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ اگر اللہ تبارک وتعالیٰ کی مدد انسان کے شامل حال ہو تو زندگی کی کوئی بھی تکلیف اور مشکل اس کا بال بیکا نہیں کر سکتی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید ونصرت سے انسان بالآخر منزل مقصود تک پہنچ جاتا ہے۔ 
حضرت یوسف ؑکی زندگی کے مختلف ادوارکو اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں بیان کیا ہے۔ جب آپ چھوٹی عمر کے تھے تو آپ نے خواب میں دیکھا کہ گیارہ ستارے، سورج اور چاند آپ کو سجدہ کر رہے ہیں۔ آپؑ نے اپنے بابا حضرت یعقوب علیہ السلام کویہ خواب سنایا تو وہ بھانپ گئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ حضرت ابراہیم، حضرت اسحاق علیھما السلام اور خود ان کے بعد حضرت یوسف ؑ کو بھی منصب نبوت و رسالت عطا فرمانے والے ہیں۔ حضرت یعقوب ؑنے حضرت یوسف ؑ کو نصیحت کی کہ آپ اپنا خواب بھائیوں کو نہ بتائیں ۔ حضرت یوسف ؑاس خواب کے بعد مختلف طرح کی مشکلات کا شکار ہوئے اور انہیں ایک سازش کے تحت اپنا ملک چھوڑنے پر مجبورکیا گیا۔ حضرت یوسف ؑکو ان کے بھائیوں نے ایک چال اور مکر کے ذریعے جنگل کے کنویں میں پھینک دیا، لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسف ؑکو مصر کے محلات کے اندر پہنچا دیا۔ یہاں بھی آپ کی زندگی میں مختلف ادوار آتے رہے۔ ابتدائی طور پر تو آپ ناز ونعمت میںپلتے رہے لیکن بعد ازاں آپ کو مشکلات اوردشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔ آپ کی جوانی کی ابتدا میںعزیز مصر کی بیوی آپ پر فریفتہ ہوگئی اور اس سلسلے میں اُس نے مصر کی دیگر نمایاں عورتوں کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان کے مکر سے بچنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو عورتوں کے مکر سے نجات دیں اور ان کو جیل میں پہنچا دیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسفؑ کی دعا قبول فرمالی اور آپ کئی برس جیل خانے میں رہے۔ جیل کے اندر بھی آپ نے دعوت وتبلیغ اوراللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت اور بندگی کا سلسلہ جاری رکھا۔ کئی برس جیل میں رہنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت یوسف ؑ کی تائید ونصرت فرمائی اور آپ کو باعزت طور پر رہائی نصیب ہوئی۔
بعد ازاں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو وزیر خزانہ اوراس کے بعد مصرکی بادشاہت عطا فرما دی۔ حضرت یوسف ؑاپنے وطن سے دور قید خانے کی تنہائیوں سے نکلنے کے بعد مصر کے والی بن چکے تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے انہی بھائیوںکو جنہوں نے آپ کو دیس سے نکال دیا تھا آپ کے سامنے پہنچا دیا اور حضرت یوسف ؑ بعد ازاں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید و نصرت کے ساتھ ان بھائیوں کے توسط سے اپنے بھائی بنیامین کو بھی اپنے پاس بلانے میں کامیاب ہوگئے۔ حضرت یوسف ؑ نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی دی ہوئی ذہانت و فطانت استعمال کرتے ہوئے حضرت بنیامین کو اپنے بھائیوں کی گرفت سے نکال کر اپنے پاس آباد کرلیا۔ 
طویل جدائی کے دوران حضرت یعقوب ؑ رو روکر بینائی کھو بیٹھے۔ حضرت یوسف ؑکے بھائی قحط سالی اور بدحالی کا شکار ہوکر اس سطح پر بھی اترآئے کہ وہی بھائی جنہوں نے آپ کو اپنے وطن سے نکلنے پر مجبور کیا تھا آپ کے سامنے ایسی حالت میں موجود تھے کہ بدحالی اورمفلسی کی تصویر بن چکے تھے۔ حضرت یوسف ؑکے بھائی جب ان کے پاس بغیر قیمت کے خیرات میں غلہ لینے آئے تو حضرت یوسف ؑان سے انتقام لینے پر قادر تھے لیکن حضرت یوسف ؑنے ان کے ساتھ بے رحمی اور انتقام والا معاملہ نہیںکیا بلکہ ان کی تمام تر زیادتیوں کو فراموش کرتے ہوئے ان کو معاف فرما دیا۔ حضرت یعقوب ؑ سے آپ کی جدائی کو دور کرنے کے لیے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسباب پیدا کر دیے۔ حضرت یوسف ؑ نے اپنی قمیض اپنے بابا یعقوبؑ کے پاس روانہ کی تو اس کے آنکھوں پر لگنے کی دیر تھی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے یعقوب ؑ کی بینائی کو بھی واپس پلٹا دیا۔ حضرت یعقوبؑ کی مدت مدید کے بعد جب یوسف ؑسے ملاقات ہوئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بچپن کا وہ خواب پورا فرما دیا جس میں چاند، سورج اور ستاروںکو اپنے سامنے سجدہ کرتے دیکھا تھا۔ حضرت یوسف ؑکی زندگی کے اندر آنے والے نشیب و فراز اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ پر اگر انسان کا بھروسہ ہو اور وہ اس کی رحمت اور تائید سے ناامید نہ ہو تو اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی جملہ مشکلات دور فرما کر اس کے لیے تنگیوں سے باہر نکلنے کا راستہ بھی بنادیتے ہیں۔ حضرت یوسف ؑکے واقعے میں یہ بات بھی موجود ہے کہ انسان تکالیف، اذیتوں اور مشقتوں کو جھیلنے کے بعد اگر اللہ تبارک وتعالیٰ کی تدبیر اور رضا پر صابر و شاکر رہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو عروج ضرور عطا فرماتے ہیں۔ اس واقعے میں یہ بات بھی موجود ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی پاکدامنی، عفت وعصمت کی حفاظت کا اجر و ثواب ضرورعطا فرماتے ہیں۔ اس واقعے میں یہ بات بھی موجود ہے کہ انسان سے حسد کرنے والے اور انسان سے جلنے والے خواہ کسی انسان کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ کرنا چاہیں اگر اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو نقصانات سے محفوظ کرنا چاہے تو کوئی شخص بھی انسان کو نقصان یاگزند پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ 
حضرت یوسف ؑ کا واقعہ اپنے جلو میں بہت سے دروس اور اسباق لیے ہوئے ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی طرح اگر ہم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر بھی غور کرتے ہیں تو اس میں بھی بہت سے نشیب وفراز اور مد و جزر نظر آتے ہیں۔ آپﷺ کو بھی اذیتوں اور تکلیفوں کا نشانہ بننا پڑا، آپ ﷺ کو بھی ہجرت کا غم سہنا پڑا، آپﷺ پر بھی جنگیں مسلط کی گئیں، لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب ﷺ نے ان تمام پریشانیوں اور تکالیف کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو دشمنوں پر فتح یاب فرمایا توآپ ﷺ نے بھی حضرت یوسف علیہ السلام کے انداز میں یہ بات فرمائی تھی کہ میں تمہاری تمام کی تمام زیادتیوں کو معاف کرتا ہوں۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ کے انبیاء کے سچے واقعات انسان کے اندر نئی ہمت، نئی توانائی اور نیا حوصلہ بیدار کرتے ہیں اور انسان مشکلات کا مقابلہ کرنے کی استعداد اور صلاحیت کو اپنے اندر موجود پاتا ہے۔ اگر انسان اپنی تکالیف کا موازنہ انبیاء علیہم السلام کے بیان کردہ واقعات سے کرنا چاہے تو انسان اس بات کو بھانپ جاتا ہے کہ اس کی تکالیف انبیاء علیہم السلام کی تکالیف کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔ اگر انبیاء علیہم السلام مشقتوں، اذیتوں اور تکالیف کابوجھ اُٹھا سکتے تھے تو عام انسان کو بھی ان کی سیرت و کردار سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی میں آنے والی مشکلات پر ناامید نہیں ہونا چاہیے، بلکہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات کے پر بھروسہ اور اس کے ساتھ اچھی امید وابستہ کیے رکھنا چاہیے۔ اگر انسان ان اوصاف کو اپنی ذات میں پیدا کرلے اور انبیاء علیہم السلام کی سیرت وکردار سے رہنمائی حاصل کرتا رہے تو بالآخر اس کی زندگی کی تمام تر مشکلات دور ہو جائیں گی اور انسان کامیابی وکامرانی کی ان منازل سے ہمکنار ہو جائے گا جن کی تمنا اور امنگ اس کے دل کے اندر موجود ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں انبیاء علیہم السلام کی سیرت وکردار سے صحیح طور پر رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگیوں میں آنے والی مشکلات کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے کی توفیق دے۔آمین۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں