نکاح ایک اہم شرعی عمل ہے‘ جس کے نتیجے میں نئے خاندان معرض وجود میں آتے ہیں۔ تمام والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کا اچھے طریقے سے نکاح کریں‘ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ بہت سی رکاوٹوں کی وجہ سے اس اہم شرعی اور معاشرتی ضرورت کو مکمل نہیں کیا جا سکتا۔ ان رکاوٹوں میں سے ایک اہم رکاوٹ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے والدین کی جانب سے جہیز کا انتظام نہ کر سکنا ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کا صحیح عمر میں نکاح نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں بداخلاقی اور بے راہ روی پھیلتی ہے۔ مقام افسوس ہے کہ ارباب اختیار اور معاشرے کے دوسرے ذمہ داران اس مسئلے پر خاطر خواہ توجہ نہیں دیتے۔ آج سے دو سال قبل روزنامہ دنیا سمیت پاکستان کے تمام اخبارات میں ایک رپورٹ شائع ہوئی تھی‘ جس کے مطابق جہیز کی لعنت کی وجہ سے ہر سال کم از کم تین سو خواتین تذلیل برداشت کرتی ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق طلاق کے چالیس فیصد مقدمات میں جہیز کا عمل دخل ہوتا ہے‘ جبکہ سسرال کی طرف سے تشدد کا نشانہ بننے والی نوے فیصد خواتین اس لیے ظلم سہتی ہیں کہ ان کے والدین سسرالیوں کی خواہشات پوری کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس رپورٹ کے آخر میں یہ بتایا گیا کہ تذلیل اور تشدد سہنے کے علاوہ ہر سال چھ ہزار کے لگ بھگ خواتین جہیز کی وجہ سے شادی سے محروم رہ جاتی ہیں۔
والدین اپنی بیٹی کو اپنی مرضی سے گھر سے رخصت کرتے وقت تحفے تحائف اور ضروریات کی کچھ چیزیں ہدیہ کر سکتے ہیں‘ لیکن داماد اور اس کے گھر والوں کے لیے جہیز کی ایک لمبی فہرست لڑکی کے گھر والوں کے حوالے کرنے کی قرآن و سنت میں اور اخلاقی لحاظ سے کوئی گنجائش نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر 29 میں ارشاد فرمایا ہے: ''اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے نہ کھاؤ مگر یہ کہ تمہاری آپس میں رضامندی سے تجارت ہو‘‘۔ قرآن مجید کی آیت مبارکہ مسلمانوں کو دعوت فکر دے رہی ہے کہ تجارت کے علاوہ دیگر ذرائع سے کسی کا مال بٹورنا درست نہیں ہے۔
بیٹے اور بیٹیاں اللہ تعالیٰ کی عطا ہیں۔ بیٹیوں کی پیدائش پر غم زدہ ہونا جاہلیت کی نشانی ہے‘ لیکن جب ہم معاشرے کے رسوم و رواج پر غور کرتے ہیں تو اس حقیقت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ سفید پوش اور غریب لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر کیوں غم زدہ ہو جاتے ہیں۔ بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرنے کے باوجود جب معاشرہ شادی کے وقت ان کے گھر والوں سے جہیز کے نام پر''تاوان‘‘ کا مطالبہ کرتا ہے تو متوسط اور غریب گھرانے کے لوگ قرضہ اُٹھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
لڑکے والے اپنے بیٹے کی تعلیم اور آمدن کو بھرپور طریقے سے فروخت کرتے ہیں۔ لڑکا جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہو جہیز بھی اتنا ہی زیادہ مانگا جاتا ہے۔ اگرچہ اچھی ملازمت اور مناسب کاروبار کے حامل لڑکے کو اپنے گھر بار کے انتظام و انصرام کے لیے لڑکی والوں کے تعاون کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی‘ پھر بھی گھریلو ساز و سامان کے علاوہ لڑکی والوں سے تعیشات کے زمرے میں آنے والے سامان کا بھی بھرپور طریقے سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یہ مطالبہ شادی کے بعد ختم نہیں ہو جاتا بلکہ خوشی کے ہر موقع پر مختلف قسم کے حیلے بہانوں کے ذریعے سے یہ مطالبات جاری رہتے ہیں۔ دینی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے اس قسم کے مطالبات کو کسی بھی طریقے سے غلط نہیں سمجھا جاتا اور کوئی اصلاح کرنے والا اچھی نصیحت کرے تو اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
اگر دیانت داری سے جہیز کی رسم کا تجزیہ کیا جائے‘ تو یہ گداگری کی ایک جدید شکل ہے‘ جس میں لڑکی والوں سے موقع بے موقع بلا ضرورت کچھ نہ کچھ مانگا جاتا ہے۔ خیرات حاصل ہونے کی صورت میں وقتی طور پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے‘ اور نہ ملنے کی صورت میں مختلف طریقوں سے لڑکی کو ذہنی اذیت دی جاتی ہے۔ لڑکی کی کفالت کرنا مرد کی ذمہ داری ہے۔ سورہ نساء کی آیت نمبر19 میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''ان کے ساتھ اچھے طریقے سے زندگی گزارو‘‘۔ جو شخص معروف طریقے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر سکتا‘ اسے نکاح کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔ نبی کریمﷺ نے بلا جواز مانگنے کی شدید مذمت کی ہے۔ آپﷺ کی متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا عمل درحقیقت شرف انسانیت کے خلاف ہے‘ اور ہر غیرت مند مسلمان کو اس قسم کے رویے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے نبی کریمﷺ کی چند احادیث درج ذیل ہیں:
1: بخاری و مسلم شریف میں حدیث ہے‘ جس کے راوی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ہیں کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا: ''آدمی سوال کرتا رہے گا یہاں تک کہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا کوئی ٹکرا نہ ہوگا‘‘۔ 2: سنن ابو داؤد‘ سنن ترمذی، سنن نسائی، ابن حبان، مسند احمد اور طبرانی میں الفاظ کے اختلاف سے روایت نقل کی گئی ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: سوال ایک قسم کی خراش ہے کہ آدمی سوال کرتے ہوئے اپنے منہ کو نوچتا ہے جو چاہے اپنے منہ پر خراش کو باقی رکھے جو چاہے چھوڑ دے‘‘۔ ہاں آدمی اگر صاحب سلطنت سے اپنا حق مانگے یا ایسے امر میں سوال کرے کہ اس کے بغیر چارہ نہ ہو۔ 3: امام بیہقی نے اس روایت کو نقل کیا ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ''جس پر فاقہ نہ گزرے اور نہ اتنے بال بچے ہوں جن کی طاقت نہیں اور وہ سوال کا دروازہ کھولے تو اللہ تعالیٰ اس پر فاقے کا دروازہ کھولے گا‘ ایسی جگہ سے جو اس کے خیال میں بھی نہیں ہو گی‘‘۔ 4: صحیح بخاری‘ صحیح مسلم، موطا امام مالک، سنن نسائی، سنن ابو داؤد میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ منبر پر تشریف فرما تھے اور صدقہ اور سوال سے بچنے کا ذکر فرما رہے تھے۔ آپﷺ نے فرمایا: ''اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا ہاتھ مانگنے والا ہے‘‘۔5: امام احمد بزاز اور امام طبرانی نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہﷺ فرماتے ہیں: ''آسودہ حال کا سوال کرنا قیامت کے دن اس کے چہرے میں عیب ہو گا‘‘۔ 6: سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ''جو مال بڑھانے کے لیے سوال کرتا ہے وہ انگارے کا سوال کرتا ہے، چاہے زیادہ مانگے یا کم‘‘۔ 7: صحیح مسلم، سنن ابو داؤد اور نسائی میں حدیث ہے کہ حضرت قبیصہ بن مخارق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھ پر تاوان لازم آیا تو میں نے رسول کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سوال کیا۔ فرمایا: ٹھہرو ہمارے پاس صدقے کا مال آئے گا اور تمہارے لیے حکم فرمائیں گے۔ پھر فرمایا: ''اے قبیصہ! سوال جائز نہیں مگر تین باتوں میں‘ اگر کسی نے ضمانت کی ہو تو اس کے لیے سوال جائز ہے یہاں تک وہ مقدار بھر پائے، پھر باز رہے یا کسی پر آفت آئی اور اس کے مال کو تبا ہ کر دیا گیا ہو تو اس کے لیے جائز ہے یہاں تک کہ بسر اوقات کے لیے پائے یا کسی کو فاقہ پہنچا اور تین عقلمند لوگ گواہی دیں کہ اس کو فاقہ پہنچا ہے تو اس کے لیے جائز ہے یہاں تک کہ بسر اوقات کے لیے حاصل ہو جائے اور ان باتوں کے سوا اے قبیصہ! سوال کرنا حرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے‘‘۔ 8: امام احمد، ابویعلیٰ، بزاز اور امام طبرانی نے اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ ''صدقے سے مال کم نہیں ہوتا اور حق معاف کرنے سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بندے کی عزت اور بڑھائے گا‘ اور کوئی سوال کا دروازہ نہیں کھولتا مگر اللہ تعالیٰ اس پر محتاجی کا دروازہ کھولے گا‘‘۔ مذکورہ بالا تمام احادیث میں سوال کرنے کی مذمت اور انسان کو خودداری اور باوقار طریقے سے زندگی گزارنے کی تلقین کی گئی ہے۔ مانگنے سے انسان کی عزت میں کمی واقع ہوتی ہے جبکہ قناعت سے انسان کی قدر و منزلت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں جہیز کی لعنت کی بہت بڑی وجہ داماد اور بہو کا غلط انتخاب بھی ہے۔ عام طور پر رشتے حسن، مال اور حسب و نسب کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں جبکہ شرافت اور دین داری کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اگر کردار اور تقویٰ کو دیگر اوصاف پر ترجیح دی جائے تو معاشرے سے اس قسم کی غلط رسومات کا بہ آسانی خاتمہ ہو سکتا ہے اس لیے کہ ایک دین دار داماد اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھتا ہے کہ رزق اور مال کی تقسیم اللہ رب العزت کے ہاتھ میں ہے اور کسی بھی انسان کے شایان شان نہیں کہ اپنے خالق و مالک کو چھوڑ کر مخلوق کے سامنے اپنی ضرویات اور آسائشات کے حصول کے لیے ہاتھ پھیلائے۔ اگر رشتوں کے انتخاب کے دوران لالچ کی بجائے قناعت، دنیا کی بجائے دین اور ہنر کی بجائے کردار کو ترجیح دی جائے تو جہیز جیسے معاشرتی ناسور پر بہ آسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔