قرآن مجید آخری الہامی کتاب ہے۔قرآن مجیداگرچہ 23برس تک رسول اللہ ﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہوتا رہا لیکن لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اسے رمضان المبارک کے آخری عشرے کی ایک طاق رات میں نازل کیاگیا تھا ۔قرآن مجیدکے نزول کا بنیادی اور بڑا مقصد انسانوں کو سیدھے رستے پر چلانا تھا ۔انسان کی فکر اور عمل کی کجیوں کو دور کرکے اس کی اصلاح کرنا تھا ۔چنانچہ سورہ نساء کی آیت نمبر 174,175میں ارشاد ہوا ۔''اے لوگوتم تک تمہارے رب کی دلیل آپہنچی ہے اور ہم نے تمہاری طرف واضح نشانی کو اتارا ہے ۔پس جو لو گ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے ہیں اور اس کو مضبوطی سے پکڑتے ہیںتو عنقریب و ہ ان کو ضرور اپنے فضل اور رحمت میں داخل کرے گا اور ان کی سیدھے راستے کی طرف راہنمائی کرے گا۔‘‘
قرآن مجید جس معاشرے اور عہد میں نازل ہوا وہ تاریخ کا تاریک ترین دور تھا ۔لوگ توحید کو چھوڑ کر ہاتھوں سے تراشے بتوں کی پوجا کرتے تھے۔ مظاہر فطرت کو پروردگار عالم کے مقام پر فائز کیا جاتا تھا۔سورج ،چاند اور ستارے کی پوجا کرنے والے گروہ اور جماعتیں بھی دنیا میں پھیلی ہوئی تھیں۔انسانوں کے ایک طبقے کے ہاں دو خداؤں کا تصور بھی موجود تھا۔ الہامی تعلیمات میں اس حد تک ترامیم کر دی گئی تھیں کہ انبیاء علیہم السلام کو بھی نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ کا ہم پلہ اور شریک بنا دیا گیا تھا؛ چنانچہ عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کو اور یہودی حضرت عزیرعلیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کے بیٹے قرار دے رہے تھے۔ یہودی تو بعض اوقات حضرت عزیر علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی اللہ تعالیٰ کا محبوب اور بیٹا قرار دے دیتے۔
عقیدے کی کمزوریوں کے ساتھ ساتھ سماجی سطح پر بھی مختلف قسم کی برائیاں عام تھیں ۔لوگ ہر طرح کے نشے اور شراب سے لذت حاصل کر نے میں مصروف رہا کرتے تھے، بیٹیوں کو زندہ در گور کیا جاتا تھا ،اپنے حسب و نسب پر فخر کیا جاتا اوردیگر انسانوں کو اپنے سے کم تر سمجھا جاتا تھا ، بدچلنی کا دور دورہ تھا۔ طوائفوں نے اپنے گھروں پر جھنڈے لگائے ہو ئے تھے تاکہ بدکاروں کو ان کے ٹھکانے تک پہنچنے میں دقت نہ ہو۔ بدچلن اور بدقماش لوگ اپنی بیویوں کا استحصال کرتے اور اگروہ ان سے علیحدہ ہونا چاہتیںتو ان کی رہائی کے بھی کوئی امکانا ت نہ ہوتے۔ جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوبے لوگ آستانوں پر چڑھاوے چڑھاتے اور ایسے میلے ٹھیلوں کا انتظام کرتے جن میں شراب وشباب کے رسیا لوگ اپنی نفسانی خواہشات کی غرض سے بڑی تعداد میں شامل ہوتے۔ معیشت کے معاملات بھی بری طرح الجھے ہوئے تھے، سود اور جاہلیت نے معاشرے کو پوری طرح اپنے شکنجے میں لیا ہوا تھا۔معاشرے کے مجبور طبقوں کواس لعنت نے اس طرح جکڑا ہوا تھا کہ لوگ نسل در نسل سرمایہ داروں کی غلامی کرنے پر مجبور رہتے۔ پانسہ، بت گری اور شراب کی تجارت عام تھی۔ اللہ تعالیٰ نے بنی نوع آدم کو اندھیروں سے نکالنے کے لیے نبی آخرالزماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر آخری کتاب کا نزول فرمایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شجر، حجر، سورج ،چاند، ستارے اوربتوں کی پوجا کرنے والوںکو توحید خالص کا درس دیااور انہیں سمجھایا کہ سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کا حق ہے اور اس میں کسی دوسرے کو شریک نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سماجی برائیوں کے خلاف بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب سے اپنے عہد کے لوگوں کو آگاہ کیا اور ان کو بتایا کہ زندہ درگور کیے جانے والی بیٹیوں کے متعلق قیامت کے دن سوال کیا جائے گا، قرآن مجید نے زنا کاری اور بدکاری کی بھرپور طریقے سے مذمت کی اور واضح کیا کہ زنا کے قریب بھی نہیں جانا چاہیے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی بیاہ کے حوالے سے جاہلیت کے غلط رسوم ورواج کی قرآن مجید کی آیات کی روشنی میںمذمت کی اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو محرم رشتہ داروں کی حرمت سے آگاہ کیا۔ ظلم وبربریت کا خاتمہ کرکے انصاف اور عدل کے اعلیٰ اصولوں کا اہل کائنات کے سامنے رکھااور ان کو بتلایا کہ قانون امیر اور غریب کے لیے یکساں ہونا چاہیے اور کوئی بھی صاحب اثراپنے اثرورسوخ کی وجہ سے قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور اس کی مخلوق کے مسائل حل کرنے کے لیے نظام صلوٰۃ اور زکوٰۃ کو متعارف کروایا گیا۔ قرآن مجید نے جاہلیت میں ڈوبے معاشرے کو نئی روشنی سے متعارف کروایا۔قرآن مجید پر عمل پیرا ہونے سے جاہلیت کے اندھیرے چھٹ گئے ۔ لوگ دلوں کوسکون دینے والے پیغام اور نظام کے خوگر ہو گئے۔
قرآن مجید میں جہاں پیغام ہدایت موجود ہے وہیں پر اس کی تلاوت باعث ثواب ہے اور قرآن مجید کے مسلسل پڑھنے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت اور اس کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ جملہ عبادات میں تلاوت ِقرآن مجید کو ایک امتیازی شان اور مقام حاصل ہے۔ خاص طور پر فجر کے وقت قرآن مجید کا پڑھنا فرشتوں کی حاضری کا سبب بن جاتا ہے۔ احادیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص دعائیں مانگنے کی بجائے کثرت سے فقط تلاوت قرآن مجید ہی کرتا رہتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو وہ کچھ عطافرماتے ہیںجو مانگنے والوں کو بھی عطا نہیں فرماتے۔ قرآن مجید کا پڑھنا جس طرح باعث ثواب ہے، اسی طرح قرآن مجیدمیں اللہ تبارک وتعالیٰ نے مومنوں کے لیے رحمت اور شفاء بھی رکھی ہے۔ چنانچہ قرآن مجید کی متعدد آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اسے اہل ایمان کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے شفاء اور رحمت کی حیثیت سے اتارا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 82 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''اور ہم نے نازل کیا قرآن سے جو کہ شفاء اوررحمت ہے مومنین کے لیے۔‘‘ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یونس کی آیت نمبر 57 میںارشاد فرمایا ''اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی نصیحت آ پہنچی ہے اور یہ سینے کی بیماریوں کے لیے شفا ہے اور ہدایت ورحمت ہے مومنین کے لیے۔ـ‘ـ‘
عہد حاضر کا مسلمان اپنی بیماریوں کے رفع کروانے کے لیے مختلف طبی ذرائع استعمال کرتا ہے لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کو برکت اور حصول ثواب کے لیے تو پڑھا جاتا ہے لیکن بالعموم شفا کے لیے نہیں پڑھا جاتا۔ احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فاتحہ میں ہر مرض کی شفا رکھی ہے ۔ اسی طرح جادو اور ٹونے کے اثرات کے خاتمے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں سورہ فلق اور ناس کا نزول فرمایا۔ اسی طرح سورہ بقرہ کا گھر میں پڑھنا باعث برکت اور اس کا چھوڑنا باعث حسرت ہے۔ جس گھر میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر میں تین دن تک شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔ اسی طرح جس گھر میں رات کو سورہ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے اس گھر میں تین راتوں تک شیطان داخل نہیں ہو سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق جادوگرسورہ بقرہ کا مقابلہ کرنے کی تاب نہیں رکھتا۔ جس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمیدکو کتاب شفا قرار دیا اسی طرح کلام حمید کے اندر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے نسخوں کا بھی ذکر کیا جن میں بیمارلوگوں کے لیے شفایابی موجود ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید کی سورہ نحل میںشہد کو شفاء قرار دیا۔ جس طرح قرآن مجیدباعث ہدایت اور اس کا پڑھنا باعث شفاء ہے اسی طرح سورہ فرقان کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کو حق اور باطل میں امتیاز کا ایک ذریعہ قرار دیا ہے اور اس کو رہتی دنیا تک کے لیے فرقان بنادیا ہے۔ فرقان سے مراد ایسی کتاب ہے جو نیکی، بدی، ہدایت، گمراہی ، شرک اورتوحید ، حلال وحرام کے درمیان امتیاز کرنے والی اور زندگی کے درست اور ٹیڑھے راستوں میں فرق کرنے والی ہے۔ جوشخص قرآن مجیدکو مضبوطی کے ساتھ تھام لیتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے اوپر ہدایت کے راستوں کو واضح کر دیتے ہیں اور جو شخص قرآن مجید سے رہنمائی حاصل نہیں کرتا وہ زندگی کے اندر حیرانگی، وحشت اور درماندگی کا شکار رہتا ہے اور اس کے لیے ہدایت حاصل کرنا ممکن نہیں رہتا۔ چنانچہ اگر انسان حق وباطل کے اندر امتیاز کرنا چاہے تو اس کو قرآن مجید سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔ قرآن مجید کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نور بھی قرار دیا ہے چنانچہ اس میں انسان کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ایک روشنی ہے اگر انسان اپنی زندگی کے اندھیروں اور مشکلات کو دور کرنا چاہتا ہے تو اسے قرآن مجید کے ساتھ مضبوط تمسک کو اختیار کرنا چاہیے ۔ قرآن مجید کی متعدد دیگر جہتیں بھی موجود ہیں لیکن یہ چند جہتیں قارئین کے سامنے اس لیے رکھی جا رہی ہیں کہ ہمیںقرآن مجید کی تلاوت اس کے پیغام اور اس کے نظام سے بھرپور طریقے سے استفادہ کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت کو بھی حاصل کرنا چاہیے۔ ہدایت اور روشنی کے پیغام کو بھی سمیٹنا چاہیے اور اپنی جسمانی اور روحانی بیماریوں کی شفا بھی حاصل کرنی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں قرآن مجید سے مضبوط تعلق کو استوار کرنے کی توفیق دے۔ آمین