اللہ کے ذکر کے حوالے سے اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن مجید بھی ذکر ہے اور جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنا چاہے اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ وہ نوافل میںقرآن مجید کی تلاوت کرے اور اگر وہ نوافل میں ایسا نہیں کرتا تو دوسری صورت یہ ہے کہ وہ انفرادی طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کی تلاوت کرے
انسانوں اور جنات کی تخلیق کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ زاریات کی آیت نمبر56 میں ارشاد فرمایا کہ'' میں نے جنات اور انسان کو نہیں بنایا مگر اپنی عبادت کے لیے‘‘۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی بندگی کے لیے پیدا کیے جانے والے انسانوں کی اکثریت اپنے مقصدِ تخلیق سے غافل ہے اور بہت سے انسان معیشت کی بہتری، اچھے روزگار ، پرتعیش زندگی، بچوں کے مستقبل ہی کو زندگی کا مقصد سمجھتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام نے بالعموم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالخصوص مقصد تخلیق کو اجاگر کرنے کے لیے اپنی زندگیوں کو وقف کیے رکھا اور انسانوں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کااور اس کی عبادت کا احسن انداز میںسبق سکھلایا اور پڑھایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کے مختلف طریقۂ کار کتاب وسنت میں موجود ہیں، جن میں نماز، روزہ، زکوٰۃ ، حج، قربانی اور دیگر بہت سے طریقہ ہائے کار شامل ہیں۔ ان تمام طریقوں میں سے ایک طریقہ جو ادائیگی میں بہت آسان اور بہت سے فوائد کو اپنے جلوؤں میں لیے ہوئے ہے، وہ کثرت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنے کے لیے انسان کو نہ تو بہت زیادہ مشقت کرنی پڑتی ہے اور نہ ہی بہت زیادہ وسائل صرف کرنا پڑتے ہیں۔ فقط اپنی زبان کو جنبش دینے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کیا جا سکتا ہے اور ایک باعمل مسلمان اورمومن کی یہ شان ہے کہ وہ ہمہ وقت اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر میںمصروف اور مشغول رہتا ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر191 میں ارشاد فرمایا کہ ''وہ لوگ (یعنی اہل ایمان) اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے ہوئے بھی، بیٹھے ہوئے بھی اور اپنے پہلوؤں کے اوپر بھی‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک و
تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ احزاب کی آیت نمبر41،42 اور 43 میں ارشاد فرمایا: ''اے ایمان والو،اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کیاکرو اور صبح شام اس کی تسبیح بیان کرو، وہ اوراس کے فرشتے تم پر درود بھیجیں گے تاکہ تمہیں اندھیروں سے روشنیوں کی طرف نکال دیا جائے اور اللہ مومنوں کے ساتھ بہت زیادہ رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر152 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ''تم میرا ذکر کرومیں تمہارا ذکر کروں گا‘‘۔ یہ تمام آیات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ انسانوں کوکثرت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہنا چاہیے۔ انسان جب شریعت کے احکامات اور تعلیمات پر غور کرتا ہے تو اس کو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جملہ عبادات میں اعتدال کا حکم دیا۔ چنانچہ سورہ مزمل میں پوری رات کے قیام کی بجائے رات کے نصف حصے یا اس سے کچھ کم یا زیادہ کے قیام کی تلقین کی گئی۔ اسی طرح صوم وصال اور صوم دھر سے بھی امت مسلمہ کو روکا گیا۔ رمضان المبارک کے علاوہ کسی مہینے کے متواتر روزے رکھنے کی بجائے پیر، جمعرات، ایام بیض یا صوم داؤدی کی رغبت دلائی گئی۔ اس کے بالمقابل ذکر کثرت سے کرنے کی تلقین کی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انسان ہر لحظہ اور ہر لمحہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید کا اور اس کی نصرت کا محتاج ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارک میں ذکر کی فضیلت کو یوں بیان کیا گیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب ہو کر فرمایاکہ کیا میں تم کو ایسے عمل سے آگاہ نہ کروں جو تمہارے جملہ اعمال میں سے بہتر ہے ، تمہارے بادشاہ کو بہت زیادہ پسند ہے ،تمہارے درجات کو بہت زیادہ بلند کرنے والا ہے ،تمہارے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ تم سونے اور چاندی کے ڈھیروں کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں خرچ کرو اور تمہارے لیے اس بات سے بہتر ہے کہ تمہارا مقابلہ لشکر کفار سے ہو، وہ تمہاری گردنیں کاٹیں تم ان کی گردنیں کاٹو تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یقیناً آگاہ فرمائیںتو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تبارک تعالیٰ کا ذکر کرنا۔ گویا کہ ذکر کرنے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت بھی ہے ،اسی طرح انسان کے درجات کی بلندی بھی ہے، انفاق فی سبیل اللہ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والا اجروثواب بھی موجود ہے ۔
اللہ کے ذکر کے حوالے سے اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام قرآن مجید بھی ذکر ہے اور جو شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر کرنا چاہے اس کی بہترین صورت یہ ہے کہ وہ نوافل میںقرآن مجید کی تلاوت کرے اور اگر وہ نوافل میں ایسا نہیں کرتا تو دوسری صورت یہ ہے کہ وہ انفرادی طور پر اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کی تلاوت کرے۔
اسی طرح قرآن مجید کے ذکر کے علاوہ بھی احادیث مبارکہ میں بہت سے اذکار بتلائے گئے ہیں۔ اگر ہم ان کو تقسیم کرنا چاہیں تو ان کی تقسیم کچھ یوں بنتی ہے ۔
1۔تہلیل کے اذکار:وہ اذکار جن میں لا الہ الا اللہ شامل ہے۔ لاالہ الا اللہ میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کو اجاگر کیا گیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لا الہ الااللہ کو افضل ذکر قرار دیا ہے۔
2۔تسبیح کے اذکار:جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی پاکیزگی بیان کی جاتی ہے۔ تسبیح کے اذکار کی بھی بہت زیادہ فضیلت احادیث میںوارد ہوئی ہے اور فقط ''سبحان اللہ وبحمدہ‘‘ 100 دفعہ کہنے سے اللہ تبارک و تعالیٰ انسانوں کے گناہ اگر سمندروں کی جھاگوں کی مانند بھی ہوں تو ان کو معاف فرما دیتے ہیں ۔
3۔تحمید کے اذکار: جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی حمد بیان کی گئی ہے۔
4۔استغفارو توبہ کے اذکار: جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ سے مغفرت کو طلب کی گئی ہے۔
5۔درودشریف کو پڑھنا: یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعاکرنا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درودبھیجے۔
ان اہم اذکار کے علاوہ اوربھی بہت سے اذکار احادیث میں وارد ہوئے ہیں ۔ انسان کو چاہیے کہ اپنی فرصت کے لمحات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کے ذکر میں اپنے آپ کو مصروف اور مشغول رکھے۔اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی وجہ سے جہاں انسان کی اخروی کامیابیوں کو اس کے لیے یقینی اور آسان بنائیں گے وہاں دنیا کے اندر بھی انسان کے مسائل کے حل ہونے کے قوی امکانات پیدا ہو جائیں گے، اس لیے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کسی انسان کو یاد کرتے ہیں تو اس کے لیے اندھیروں اور مشکلات سے باہر نکلنے کے اسباب پیدا فرماتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے ذکر کی برکت سے انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی غیبی نصرت وتائید حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی تائید ونصرت کے باوجود انسان پریشانیوں ، تکالیف اور مشکلات میں الجھتا اور بھٹکتا رہے۔ ہمیں چاہیے کہ مقصد تخلیق کو پہچانتے ہوئے جہاں مختلف طرح کی عبادات کو انجام دینے کے لیے اپنی توانائیوں ، ہمتوں اور وسائل کو صرف کرتے ہیں وہاں پر فقط زبان کی جنبش سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت حاصل کرنے والے عظیم عمل یعنی کثرت سے ذکر کرنے والے انداز کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔ ان شاء اللہ اس کے نتیجے میں اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں دنیا اور آخر ت کی کامیابیاں اور کامرانیاں عطا فرمائیں گے۔ آمین