ہر سال 14 فروری کو عالمی سطح پر ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے‘ جو محبت اور رومانس کرنے والوں سے منسوب ہے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں‘ چاہنے والوں کو مختلف قسم کے تحفے تحائف دیتے ہیں۔ اس قسم کے تہوار مغربی معاشروں کے ساتھ ساتھ بتدریج مسلمانوں اور مشرقی معاشروں میں بھی مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔
اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے‘ جو زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے ماننے والوں کی کامل رہنمائی کرتا ہے۔ سماجی حوالے سے بھی اسلام کی تعلیمات بالکل واضح ہیں۔ مسلمان سماج اخوت، قربانی اور رواداری کے ساتھ ساتھ ہر اعتبار سے شرم و حیا کی ترویج کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور بد کرداری کی تمام اقسام کی حوصلہ شکنی کرتا ہے؛ چنانچہ مسلمانوں کو اس قسم کے تہواروں سے لاتعلقی اختیار کرتے ہوئے ہر قیمت پر شرم و حیا کے چلن کو عام کرنے کی جستجو کرنی چاہیے۔ معاشرے میں اخلاقی اقدار کو مستحکم کرنے کے لیے ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے میں ایک اہم موضوع کو‘ جس کا تعلق عصری معاشروں میں برائی کی روک تھام کے ساتھ ہے‘ نذرِ قارئین کرنا چاہتا ہوں۔
انسان کی فطرت میں صنفِ مخالف کی کشش موجود ہے۔ یہ کشش خاندانی نظام کی تشکیل اور انسانی نسل کی بقاء میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ اس جذبے کا مثبت استعمال خوبصورت اور متوازن سماج کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے؛ تاہم اس جذبے کے منفی استعمال سے معاشرے میں صنفی بد امنی کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ انسان حیوانیت کے راستے پر چل نکلتا ہے، عورتوں کی عزت غیر محفوظ ہو جاتی ہے۔ مذہب اور اخلاقیات کے مسلمہ اصول پامال ہو جاتے ہیں۔ مغربی معاشروں میں اس جذبے کے منفی استعمال کی وجہ سے اباحیت پسندی کو جو فروغ حاصل ہوا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بن بیاہی مائیں اور لاکھوں کی تعداد میں ناجائز بچے اس جذبے کے منفی استعمال کا شاخسانہ ہیں۔ معاشروں میں اخلاقی گراوٹ کی روک تھام کے لیے اسلام نے بد کرداری سے ہی نہیں روکا، بلکہ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 32 میں ارشاد ہوا کہ ''بدکاری کے قریب بھی نہ جائو‘‘۔
قرآن و سنت کی تعلیمات پر غور و خوض کرنے سے متعدد ایسی تدابیر سامنے آتی ہیں جن پر عمل کر کے انسان برائی کے قریب جانے سے بچ سکتا ہے‘ اس حوالے سے بعض اہم تدابیر درج ذیل ہیں:
1۔ نکاح میں غیر ضروری تاخیر سے اجتناب: اسلام بالغ مردوں اور عورتوں کے جلد نکاح کی حوصلہ افزائی کرتا اور غیر ضروری تاخیر کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے حوالے سے رسوم و رواج پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ اسی طرح شادی بیاہ کے بعد والی زندگی میں بھی بہت زیادہ تکلّفات پائے جاتے ہیں۔ ان رسوم و رواج کو ادا کرنے اور تکلّفات کو نبھانے کے لیے بہت زیادہ وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے سفید پوش یا غریب لوگوں کے لیے اپنی اولادوں کا نکاح کرنا بہت زیادہ مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اگر سادگی سے نکاح کا اہتمام کیا جائے تو معاشرے کا ہر طبقہ اپنی اولاد کے نکاح کا اہتمام کر سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ نور میں غیر شادی شدہ لوگوں کے نکاح کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا ہے: ''اگر ایسے لوگ فقیر بھی ہوں تو اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے غنی فرما دے گا‘‘۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان مبارک سفید پوش اور غریب لوگوں کے لیے تسلی کا سبب ہے کہ نکاح کی وجہ سے ان کی معیشت کمزور نہیں بلکہ مستحکم ہو جائے گی۔
رشتوں کے چنائو میں غیر معمولی حساسیت کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے بھی بہت سے لڑکے لڑکیوں کے نکاح التوا یا تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں۔ حدیث پاک میں آیا ہے کہ اگر ایسا شخص تمہارے پاس پیغامِ نکاح لے کر آئے جس کے دین اور اخلاق میں تم عیب نہیں پاتے تو اس سے نکاح کر دو۔ اگر تم نے ایسا نہ کیا تو زمین میں بہت بڑا فتنہ یا فساد ظاہر ہو جائے گا۔ اس فتنے کی ایک شکل جنسی بے راہ روی اور بد کرداری بھی ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولادوں کا کیریئر بناتے بناتے ان کے کرداروں کو داغ دار نہ کر دیں۔ جوان اولا د اگر نکاح کی خواہش کا اظہار کرے تو والدین کو اس پر جزبز ہونے کی بجائے اس خواہش کی تکمیل کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو بطریقِ احسن نبھانا چاہیے۔
2۔ حجاب کا اہتمام: اسلام نے مرد و زن کے اختلاط کی حوصلہ شکنی اور مذمت کی ہے۔ قرآن مجید کی سورہ نور اور احزاب میں پردے کے احکامات بالکل واضح ہیں۔ سورہ نور میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا ہے کہ عورتوں کو اپنے محرم رشتے داروں، بوڑھے مردوں اور بچوں کے علاوہ ہر کسی سے اپنی زینت کو مخفی رکھنا چاہیے۔ سورہ احزاب میں اللہ تعالیٰ نے مومنہ عورتوں کو حجاب اوڑھنے کی تلقین کی ہے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اس بات کا حکم دیا ہے کہ جب وہ اپنی روحانی ماؤں یعنی امہات المؤمنین سے بھی کسی چیز کو طلب کریں تو پردے کی اوٹ سے طلب کریں۔ سورہ نساء میں اللہ تعالیٰ نے ان رشتوں کا ذکر کیا ہے جن سے نکاح کرنا مردوں کے لیے حرام ہے۔ یہ رشتے مرد کے لیے محرم رشتے ہوتے ہیں۔ محرم رشتے داروں اور غیر محرم لوگوں میں‘ خواہ وہ رشتہ دار ہوں یا اجنبی‘ زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ دور حاضر میں محرم رشتہ داروں اور غیر محرم لوگوں میں کچھ خاص فرق نہیں کیا جاتا اور پردے کے احکامات کو دقیانوسی سمجھا جاتا ہے۔ اس غلط فکر کی وجہ سے معاشرے میں بے راہ روی کو فروغ حاصل ہوتا ہے اور جب کوئی منفی واقعہ رونما ہو جاتا ہے تو اس وقت لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں کہ قرآن و سنت کے احکامات اور تعلیمات اٹل ہیں اور ان سے انحراف کے نتائج انتہائی بھیانک اور مہلک ہو سکتے ہیں۔
3۔ غلط صحبت سے اجتناب: انسان چونکہ معاشرتی حیوان ہے‘ اس لیے اس کی مجلس اور صحبت کے اس پر انتہائی گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سورہ فرقان کی آیات 27 سے 29 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:''قیامت کے دن ظالم اپنے ہاتھ کو کاٹے اور کہے گا کہ کاش! میں نے رسول اللہﷺ کے راستے کو اختیار کیا ہوتا، ہائے! کاش میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ہوتا۔ اس نے مجھے نصیحت کے آ جانے کے بعد گمراہ کر دیا‘‘۔ بری صحبت کئی مرتبہ انسان کو پاک دامنی کے راستے سے ہٹا کر بد کرداری کے راستے پر چلا دیتی ہے‘ اس لیے انسان کو بری صحبت سے خود بھی اجتناب کرنا چاہیے اور اپنی اولادوں اور اہل خانہ کو بھی بری صحبت سے بچانا چاہیے۔
4۔ غلط مشاغل سے اجتناب: انسان کو جہاں بری صحبت سے بچنا چاہیے‘ وہیں پر فارغ وقت میں غلط مشاغل سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ ناچ، گانے اور موسیقی کی محافل میں شرکت، اسی طرح گندے اور فحش پروگراموں کو دیکھنے اور غیر اخلاقی لٹریچر کا مطالعہ کرنے سے انسان کی سیرت مسخ ہو جاتی ہے۔ اس قسم کے مشاغل کے انسان کے گرد و پیش پر بھی نہایت منفی اثرات پڑتے ہیں۔ انسان کو فارغ وقت میں قرآن و سنت کے مطالعے کے ساتھ ساتھ مفید اور کارآمد کتابوں کا بھی مطالعہ کرنا چاہیے۔ مطالعے کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنے اہل خانہ کی تربیت اور معمولات کی بہتری کے لیے بھی وقت نکالنا چاہیے۔ اگر انسان اچھے مشاغل میں وقت گزارے گا تو غیر اخلاقی رویّوں اور حرکات و سکنات سے خود بخود محفوظ ہو جائے گا۔
مذکورہ بالا تجاویز کے ساتھ ساتھ اللہ کا کثرت سے ذکر کرنے اور نفلی روزوں کا اہتمام کرنے‘ نیز نوافل کی ادائیگی اور بالخصوص تہجد کا اہتمام کرنے کی وجہ سے بھی انسان منفی جبلی خواہشات پر قابو پا لیتا ہے اور یوں بے راہ روی سے بچ کر پاک دامنی اور حیا والی زندگی گزارنے کے قابل ہو جاتا ہے۔