"AIZ" (space) message & send to 7575

مصیبتوں سے کیسے نمٹیں

گزشتہ کالم میں میں نے ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب کی کتاب ''مصیبتوں سے کیسے نمٹیں‘‘ کے حوالے سے اپنی چند گزارشات قارئین کے سامنے رکھی تھیں اور ان گناہوں کا ذکر کرنے کی کوشش کی تھی جو مصیبتوں کو دعوت دیتے ہیں۔ آج کے کالم میں‘ میں قارئین کے سامنے یہ بات رکھنے کی جستجو کروں گا کہ مصیبتوں کے آ جانے کے بعد انسان کو کیا کام کرنے چاہئیں اور مصیبتوں کے چلے جانے کے بعد کس قسم کے رویّے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ 
ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب نے مصیبتوں کے آنے کے بعد کرنے کے حوالے سے جن اہم امور کا ذکر کیا‘ ان میں سے پہلا امر یہ ہے کہ ہر مسلمان اور مومن کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اس کی زندگی میں جو بھی مصیبت آتی ہے درحقیقت اس کو پہلے ہی سے طے کر لیا گیا تھا اور اس مصیبت سے بچنے کا کوئی ذریعہ یا امکان موجود نہیں تھا۔ 
2۔ ہر چیز اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہونے اور اُسی کی طرف لوٹنے کا اعتقاد: انسان کا عقیدہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر چیز کے خالق و مالک ہیں اور جب تک وہ چاہتے ہیں کسی چیز کو انسان کے پاس بطور امانت رکھتے ہیں اور جب چاہتے ہیں اسے واپس لے لیتے ہیں۔ 
3۔ مصیبتوں کے صرف حکم الٰہی سے آنے کا اعتقاد: انسان کا یہ بھی عقیدہ ہونا چاہیے کہ دنیا اور اس کی ذات میں کوئی مصیبت ایسی نہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی اجازت کے بغیر ہو۔ کئی مرتبہ مصیبتوں کے آنے کے بعد انسان مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور یہ گمان کرتا ہے کہ اگر وہ کچھ امور کو پہلے سے انجام دے لیتا تو شاید مصیبتوں سے بچ جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کائنات کے ذرے ذرے میں تصرف فرماتے ہیں، اس لیے جو بھی مصیبت آتی ہے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم سے آتی ہے۔ 
4۔ قضا و قدر پر راضی رہنا: انسان کو تقدیر پر بھی راضی رہنا چاہیے۔ تقدیر پر انسان کا پختہ ایمان ہونا چاہیے اور اللہ تبارک و تعالیٰ نے جو کچھ انسان کے لیے لکھ دیا ہے اس پر کامل یقین ہونا چاہیے۔ 
5۔ مصیبت میں خیر ہونے کی امید رکھنا: مسلمان کا یہ بھی عقیدہ ہونا چاہیے کہ ہر مصیبت میں خیر اور بھلائی چھپی ہوئی ہے اور جو مصیبت بھی آتی ہے یا تو وہ انسان کو گناہوں سے پاک اور صاف کرتی ہے یا بطور آزمائش اس کو اللہ تبارک و تعالیٰ کے قریب کرتی ہے۔ 
6۔ مصیبتوں اور ابتلاؤں کے فوائد کو پیش نظر رکھنا: ہر مصیبت اپنے جلو میں بہت سے فوائد اور ثمرات لیے ہوئے آتی ہے۔ انسان کئی مرتبہ مصیبت کے آنے پرپریشانی اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے اور ان عظیم فوائد کو فراموش کر دیتا ہے جو مصیبتوں کے نتیجے میں اس کو میسر آنے ہوتے ہیں۔ 
7۔ ہر مصیبت پر ملنے والے اجر و ثواب کو پیش نظر رکھنا: انسان کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اگر اس کی زندگی میں کوئی مصیبت آئے اور وہ اس پریشانی اور مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو اس مصیبت کے بدلے اجر و ثواب ضرور عطا فرمائیں گے۔ 
8۔ صبر کے ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ کی مدد مانگنا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے کلام حمید میں صبر کے ذریعے مدد مانگنے کی تلقین کی ہے؛ چنانچہ انسان پر جس وقت کوئی مصیبت آئے تو اس کو واویلا کرنے کی بجائے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔ 
9۔ نماز کے ساتھ نصرت الٰہی کو طلب کرنا: اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں جہاں صبر کے ساتھ استعانت کا حکم دیا‘ وہیں پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے نماز کے ساتھ بھی نصرت الٰہی طلب کرنے کا حکم دیا۔
10۔ بہت زیادہ استغفار کرنا: کثرت استغفار سے انسان مصیبتوں سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ سورہ نوح میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے ذکر کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہا کہ اگر تم اپنے پروردگار سے استغفار کرو گے تو وہ تم پر خوب بارشیں برسائے گا اور تمہارے مالوں میں اضافہ کرے گا اور تمہیں بیٹے عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے باغات اور نہروں کو رواں فرما دے گا۔ 
11۔ دعا: دعا بھی مصیبت کو دور کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں ذکر کیا کہ جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کرتے ہیں تو میں ان کے قریب ہوں اور ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں۔ اس ضمن میں اس بات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بہت سی ایسی دعائیں وارد ہوئی ہیں جو خصوصیت سے غم کا علاج ہیں۔ 
12۔ ذکر الٰہی: انسان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کا بکثرت ذکر کرنا چاہیے۔ جب انسان بکثرت اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو قرآن مجید سے ثابت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ بھی اس کا ذکر فرماتے ہیں۔ جس شخص کا اللہ تبارک و تعالیٰ ذکر فرمائیں تو اس کے اندھیروں سے اجالوں کی طرف آنے کے امکانات خودبخود روشن ہو جاتے ہیں۔ 
13۔ سب لوگوں کے مصیبتوں میں مبتلا ہونے کو یاد رکھنا: انسان کو اس بات کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مصیبتیں صرف اس کی ذات ہی کے اوپر نہیں آتیں بلکہ ہر انسان کی ذات مصیبتوں کی زد میں ہے۔ اس احساس سے انسان کے ذہن میں ایک امن اور سکون کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ 
14 ۔ناامیدی یا مایوسی سے اجتناب: انسان کو مایوسی اور ناامیدی کو اپنے دل کے قریب بھی نہیں آنے دینا چاہیے۔ مایوسی اور ناامیدی شیطان کا بہت بڑا ہتھیار اور انسان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت سے دور لے جانے والی چیزیں ہیں۔
ڈاکٹر فضل الٰہی صاحب نے جہاں مصیبتوں کے دوران کرنے والے کاموں کا ذکر کیا‘ وہاں مصیبتوں کے چلے جانے کے بعد کرنے والے اہم کاموں کو بھی اپنی کتاب میں درج کیا۔ وہ اہم امور جن کا مصیبتوں کے چلے جانے کے بعد اہتمام کرنا چاہیے‘ درج ذیل ہیں:
1۔ مصیبت کے بعد نعمت کا بطور آزمائش ملنے کا اعتقاد: انسان کو جب اللہ تبارک و تعالیٰ مصیبت سے نکال کر نعمت عطا فرماتا ہے‘ تب انسان کے ذہن میں یہ بات ہونی چاہیے کہ یہ نعمت اللہ تبارک و تعالیٰ نے بطور آزمائش اس کو عطا کی ہے تاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ دیکھے کہ انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کی شکر گزاری کے راستے کو اپناتا ہے یا اس کی ناشکری کا راستہ کو اختیار کرتا ہے۔ 
2۔ مصائب سے نکلنے پراللہ تبارک و تعالیٰ کی حمد و شکر: جب انسان کی مصیبت دور ہو جائے تو انسان کو کثرت سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر اور اس کی حمد بیان کرنی چاہیے اور اس بات کو سمجھ لینا چاہیے کہ جو مصیبت دور ہوئی وہ خالصتاً اس کے فضل اور اس کی عنایت سے دور ہوئی ہے۔ 
3۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے دوبارہ مصائب میں مبتلا کرنے پر قادر ہونے کو پیش نظر رکھنا: انسان کو اپنی مصیبت سے رہائی کے بعد یہ بات ذہن میں ہرگز نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ مصائب سے کلی طور پر آزاد ہو گیا ہے، بلکہ اس کا یہ عقیدہ ہونا چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس کو دوبارہ مختلف طرح کے مصائب میں مبتلا کرنے پر قادر ہے۔ 
4۔ رب کریم کے حضور دعا اور گریہ زاری میں استمرار: جب انسان مصیبت سے نکل جائے تو اس کو کثرت سے اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا کرنی چاہیے اور اس بات کا التزام کرتے رہنا چاہیے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اس سے راضی رہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضگی اس پر وارد نہ ہو۔ 
5۔ ذکر الٰہی: انسان کو جس طرح مصیبت کے دوران اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر کرتے رہنا چاہیے ویسے ہی مصائب سے نکل جانے کے بعد کثرت سے اللہ تبارک و تعالیٰ کا ذکر خصوصاً تسبیح و تحمید اور استغفار کا التزام جاری رکھنا چاہیے۔ 
6۔ عبادات میں محنت کرنا: انسان کو مصیبتوں سے آزادی کے بعد عبادات میں خوب محنت کرنی چاہیے تاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا فضل ہر صورت اس کے شامل حال رہے اور دوبارہ کسی مصیبت یا آزمائش میں مبتلا نہ ہو۔ 
7۔ رب ذوالجلال کی رغبت رکھنا: انسان کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف راغب رہنا چاہیے اور ہر وقت اس کے ساتھ اپنے تعلق کو استوار کرتے رہنا چاہیے۔ 
8۔ اللہ تعالیٰ کے احسان کو مدنظر رکھ کر مخلوق پر احسان کرنا: انسان کو اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے فضل خاص سے مصیبتوں سے باہر نکالتے ہیں۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ انسان پر احسان فرماتے ہیں تو انسان کو بھی اپنی صلاحیت اور استعداد کے مطابق اپنے ماتحتوں، زیرِ اثر اور گرد و پیش رہنے والے لوگوں سے احسان کا رویہ نہیں چھوڑنا چاہیے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا احسان ہمہ وقت ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اتنی بڑی ہستی مجھ پر احسان فرما سکتی ہے تو میں کم حیثیت انسان اپنے جیسے انسانوں پر احسان اور رحم والا معاملہ کیوں نہیں کر سکتا۔ 
اگر مذکورہ امور کو پیش نظر رکھا جائے تو انسان مصیبتوں سے نمٹ بھی سکتا ہے اور مصیبتوں سے رہائی بھی حاصل کر سکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ مصیبتوں اور مشکلات کا شکار تمام انسانوں کے دکھ درد دور فرما کر ان کے لیے روشنی اور فلاح کے راستے آسان فرمائے۔ آمین

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں