اسلامی نظریاتی کونسل ملک کا آئینی ادارہ ہے۔ 1973ء کے آئین کے مطابق ملک میں اسلامی قوانین سے متعلق سفارشات قومی اسمبلی کے حوالے کرنا اس کی ذمہ داری ہے۔ قومی اسمبلی میں ان سفارشات کی روشنی میں بحث وتمحیص کے بعد قانون سازی ہونی چاہیے تاکہ ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست بنایا جا سکے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کئی ایسی سفارشات پیش کر چکی ہے جن پر اگرعملدرآمد ہو جاتا تو پاکستان کی آئینی ساخت کے حوالے سے بحثوں کا خاتمہ ہو چکا ہوتا۔ ماضی میں کونسل نے بہت سی ایسی سفارشات پیش کیں جن کی وجہ سے عائلی زندگی سے متعلق بہت سے مسائل کا خاتمہ ہوا۔ ایک اہم سفارش ایک مجلس میں تین طلاقوں کے خلاف قانون سازی کی تجویز تھی۔ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا مستحسن عمل نہیں۔ اہل حدیث اوراحناف اس امر پر متفق ہیں کہ طلاق وقفے وقفے سے ہونی چاہیے تاکہ شوہر اور بیوی کے درمیان مصالحت کے امکانات باقی رہیں۔ مسلم شریف کی ایک حدیث کے مطابق جس کے راوی حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں، طلاق کا سنت طریقہ جس پر عہد نبوی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں عمل ہوتا رہا یہی تھا کہ ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقوں کو ایک ہی تصورکیا جاتا تھا۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں شوہر اور بیوی کے درمیان جدائی مختلف مجالس میں دی جانے والی تین طلاقوں کے بعد ہوا کرتی تھی۔ نظریاتی کونسل کی اس سفارش کو ملک کے تمام مذہبی طبقات نے خوش آمدید کہا اور مذاکروں ومباحثوں میں اس تجویزکو سراہا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی بعض سفارشات پر اختلاف بھی ہوتا رہا جیسے کم عمری کی شادی کا مسئلہ۔ مذہبی طبقات نے اس سفارش کی بھر پور تائید کی لیکن انسانی حقوق کی انجمنوں اور سیاسی جماعتوں کی بعض خواتین رہنماؤں نے اسے عورت کے حقوق کی مخالفت سے تعبیرکیا۔ ان کا موقف یہ تھا کہ کم عمری کی شادی عورت اور نئی نسل کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ دینی طبقات کا یہ موقف تھا کہ عمر کی قید لگائے بغیر بلوغت کو رخصتی کے لیے معیار قرار دینا چاہیے۔ اگر لڑکی جسمانی اور ذہنی طور پر بالغ ہو تواس کے والدین اس کی رضامندی کے ساتھ اس کی شادی کر سکتے ہیں۔ بلوغت کے بعد شادی میں غیر ضروری تاخیر سے نفسیاتی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں اور بے راہ روی کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔ بلوغت کے بعد جلد شادی کرنا واجب نہیں لیکن اگر کوئی شخص ایسا کرنا چاہے تو اس کی مذمت کرنے کا بھی کوئی جواز نہیں ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے کنواری لڑکی کے نکاح کے لیے ولی کی شرط کو ضروری قرار دیا۔ کونسل کی یہ سفارش بھی خاندانی نظام کے تحفظ کے لیے مثبت سفارش تھی۔ اسلام ایک جائز شرعی نکاح کے لیے جہاں عورت کی رضامندی کو ضروری قرار دیتا ہے وہاں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کو بھی غلط قراردیتا ہے۔ نہ تو ولی لڑکی پر جبرکر سکتا ہے اور نہ ہی لڑکی ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح کر سکتی ہے۔ اگر لڑکی ولی کی رضامندی کے بغیر نکاح کرتی ہے تو اس کا نتیجہ عام طور پر انتہائی خطرناک نکلتا ہے۔ اس طرح کے نکاح کئی بار غیرت کے نام پر قتل پر بھی منتج ہوتے ہیں، اس لیے اس قسم کی تجاویز پر عملدرآمد ہونے سے معاشرے سے بدامنی اور بے سکونی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی اس مثبت تجویز کو بھی بعض این جی اوز نے عورت کے حقوق کے منافی قرار دیا۔ ان کے نزدیک عورت کا شادی کے وقت اپنے گھر والوں کو اعتماد میں لینا قطعاً ضروری نہیں؛ حالانکہ ولی اور عورت کی بیک وقت رضامندی سے نکاح اور بعد والی زندگی میں جو راحت اور سکون حاصل ہوتا ہے وہ ولی کی رضامندی یا اجازت کے بغیرنکاح سے کبھی حاصل نہیں ہو سکتا۔اس قسم کے نکاح کے نتیجے میں جو فساد اور خلفشار پیدا ہوتا ہے، این جی اوز اس کا تجزیہ کرنے سے ہمیشہ قاصر رہی ہیں۔
نظریاتی کونسل کی بعض سفارشات پر مذہبی طبقات نے بھی تحفظات کا اظہار کیا جن میں سے ایک معروف سفارش زنا بالجبرکی صورت میں ڈی این اے کی شہادت کی ترویج تھی۔ راقم الحروف نے بھی اس سلسلے میں نظریاتی کونسل کی سفارش سے اتفاق نہیں کیا تھا۔ میرا مؤقف یہ تھا کہ گو چارگواہوں اور اعتراف جرم کے بعد زنا کی حد قائم کی جاتی ہے لیکن بالعموم تنہا عورت نہ تو چارگواہ فراہم کر سکتی ہے اور نہ ہی مرد سے اعتراف جرم کروا سکتی ہے، اس صورت میں واقعاتی شہادت کی بہت اہمیت ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام پر جھوٹی تہمت لگائی گئی تو واقعاتی شہادت کی وجہ سے آپ کی برأت ثابت ہوئی کہ محل میـں موجود ایک چھوٹے بچے کو اللہ تعالیٰ نے قوت گویائی عطا فرما دی اور اس نے کہا کہ اگر حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض پیچھے سے پھٹی ہے تو آپ بے گناہ اورآپ پر برائی کا جھوٹا الزام لگایا گیا ہے۔ جب آپ کی قمیض کو دیکھا گیا تو قمیض پیچھے سے پھٹی ہوئی تھی؛ چنانچہ عزیز مصرکی بیوی کا دعویٰ فقط بہتان ثابت ہوا۔ اسی طرح سیّدہ مریم سلام اللہ علیہا کی پاک دامنی کی شہادت بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے دی تھی۔ واقعاتی شہادت کی روشنی میں اگر جرم ثابت ہو جائے تو زنا بالجبر میں مجرم مرد کو کڑی تعزیری سزا دی جا سکتی ہے۔ تاہم حد کا قیام چار گواہوں یا اعتراف جرم کے ساتھ ہی مشروط رہے گا۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے حال ہی میں ایک ایسی سفارش کی ہے جس پر ملک میں بڑے زور وشور سے بحث جاری ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ عدالت مرد کی رضامندی کے بغیر خلع کی ڈگری جاری نہیں کر سکتی۔ اس سفارش کا ایک عمومی تاثر یہ قائم ہوا کہ شاید آئندہ اگرکوئی عورت تنسیخ نکاح کے لیے عدالت سے رجوع کرنا چاہتی ہے تو عدالت اس کے نکاح کو منسوخ نہیں کرسکتی ۔ لیکن بعض صاحب علم دوستوں نے بتایا ہے کہ کونسل نے عدالت کے اختیارات کو سلب کرنے کی بات نہیں کی ۔
میں اس حوالے سے تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ طلاق مرد کا حق ہے اور مرد اس حق کو اپنی زندگی میں کسی بھی وقت استعمال کر سکتا ہے۔ اس کے بالمقابل عورت کسی بھی معقول بنیاد پر اپنے شوہر سے خلع کا مطالبہ کر سکتی ہے۔ اگر مرد اس کے مطالبے کو قبول نہیں کرتا تو بذریعہ عدالت اس کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ جج، قاضی یا شوہر کو قائل کر سکتا ہے کہ عورت کو آزاد کیا جائے۔ اگر شوہر جج یا قاضی کی تجویز قبول کرتا ہے تو یہ بھی خلع قرار دیا جائے گا۔ اس کے بالمقابل اگر شوہر عدالت کی تجویز کو قبول نہ کرے تو عدالت خود بھی نکاح فسخ کر سکتی ہے۔ یہ فسخ نکاح بھی ایک فقہی رائے کے مطابق خلع ہی ہے جبکہ دوسری رائے کے مطابق اگر شوہر بیوی کو آزاد کردے تو خلع، اگر عدالت آزاد کرے تو فسخ نکاح قرار دیا جائے گا۔
ہمارے معاشرے میں بالعموم عورت کے عدالت کے ذریعے منسوخ کیے جانے والے نکاح کو خلع ہی سے تعبیر کیاجا تا ہے۔ چنانچہ نظریاتی کونسل کی سفارش کا بالعموم یہی مفہوم لیا جا رہا ہے کہ شاید عدالت کے پاس موجود فسخ نکاح کا اختیار چھین کر شوہر کو دیا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تویہ بات قرآن وسنت سے ہم آہنگ نہیں ہے، اس لیے کہ عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابیات کے نکاح ان کے مطالبے پر فسخ کروائے تھے۔ اگر اس کے برعکس اس سفارش کا تعلق صرف خلع کی اس صورت سے ہے جس میں شوہر بیوی کے مطالبے کو ازخود یا عدالت کے کہنے پر تسلیم کر لیتا ہے تو نظریاتی کونسل کو اس ابہام کو دورکرنا چاہیے تاکہ یہ تاثر قائم نہ ہوکہ نظریاتی کونسل کی حالیہ سفارش سے عورت کی حق تلفی ہو رہی ہے اور اس کو عدالت یا قاضی کے ذریعے فسخ نکاح کا جو اختیار شریعت اور قانون نے دیا ہے اس کو واپس لینے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارش کی طرح حال ہی میں پنجاب اسمبلی میں پیش ہونے والے بل کے بارے میں بھی مذہبی اور سیکولر عناصر کے درمیان بحث جاری ہے۔ اس بل کے مطابق عورت کو گھریلو تشدد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق ہو گا۔ اسلام کے حوالے سے ایک عمومی تاثر قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اسلام نے مرد کو عورت پر بلاجواز تشدد کرنے کا اختیار دے رکھا ہے، اس تاثر کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل خانہ سے بہترین ہو اور میں اپنے اہل خانہ سے بہترین معاملہ کرنے والا ہوں۔ اسلام مرد کو عورت کے ساتھ شفقت ، محبت اور تحمل والا سلوک کرنے کی تلقین کرتا ہے۔ تاہم عورت کی بے راہ روی کی صورت میں مرد کو عورت کی اصلاح کے لیے کسی حدتک جسمانی سرزنش کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس معاملے کے علاوہ مرد عورت پر کسی بھی صورت میںہاتھ نہیں اٹھا سکتا ۔ گھریلو تشدد کے خلاف کی جانے والی قانون سازی میں عورت کی بے راہ روی کو اگر استثنیٰ دے دیا جائے تو اس قسم کی قانون سازی کتاب وسنت سے متصادم نہیں ہے۔ یاد رہے عورت کو ہر اعتبار سے کھلی چھٹی دینے سے گھریلو ڈھانچے اور سماجی اقدار پر منفی اثرات مرتب ہونے کا خدشہ ہے اور قانون سازی کرنے والوں کو عورت کے حقوق کی پاسداری کے ساتھ ساتھ بے راہ روی کے خدشات اور اندیشوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔