پنجاب اسمبلی میں پیش کیے جانے والے حالیہ بل کے بعد بعض حلقوں نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ اسلام اورمسلمان عورت کی آزادی کو چھیننا چاہتے ہیں اور اُس کو وہ حقوق نہیں دینا چاہتے جس کی وہ مستحق ہے‘ حالانکہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے زندگی کے تمام شعبوں میں انسان کی کامل رہنمائی کی ہے۔ اسلام نے جہاں پر مردوں کے حقوق کا تعین کیا ہے وہیں پر عورت کو بھی مختلف طرح کے حقوق عطا فرمائے ہیں۔ عورت کے مختلف روپ ہیں جن میں سب سے پہلا روپ ماں کاروپ ہے۔ ماں کی حیثیت سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورت کو انتہائی بلند مقام عطا کیا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر اپنی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کی ہے۔ قرآن مجید کی مختلف سورتوں میں ماں کی عظمت کا علیحدہ سے بھی ذکر آیا ہے۔ اس کے حمل، اس کی بچے کے ساتھ شفقت، بچے کو دودھ پلانا اور بچے کی تربیت کرنے کے حوالے سے بھی اس کے کردار کو قرآن مجید میں سراہا گیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کی حیثیت سے عورت کے مقام کو اتنا زیادہ اجاگر فرمایا کہ آپ نے ماں کے قدموں تلے جنت کو قرار دیا۔عورت بطور بیوی بھی اسلام میں ہر لحاظ سے عزت کی مستحق ہے اورقرآن مجید کی سورہ بقرہ کے مطابق جس طرح مردوں کے حقوق ہیں اسی طرح عورتوں کے بھی حقوق ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض معاملات میںـ اللہ تبارک وتعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر ایک گنا فضیلت عطا فرمائی ہے۔ عورتوں پر مردوں کی فضیلت کی پہلی وجہ وہبی ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ بالعموم مرد گھر کے اخراجات اور نان نفقے کی ذمہ داری ادا کرتا ہے۔ مرد کو ہمیشہ عورت کے ساتھ حسن سلوک کرنا چاہیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو بہترین لوگ قرار دیا ہے جواپنے اہل خانہ کے ساتھ بہترین سلوک کرتے ہیں اور اپنے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہترین سلوک فرمانے والے ہیں۔
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ ، حضرت عائشہؓ،حضرت حفصہؓ اور دیگر امہات المومنینؓ کے ساتھ مثالی سلوک فرمایا اور گھرکے امور کو انجام دینے کے لیے ان کی معاونت کرتے رہے۔ بعض لوگ عورت کو پاؤں کی جوتی سمجھتے ہیں‘ لیکن اسلام عورت کو گھر کی ملکہ، گھرکے معاملات کی نگران اور ایک عظیم مونس اور غم خوار ساتھی کے روپ میں دیکھتا ہے۔
اسلام نے عورت کو بطور بیٹی بھی انتہائی بلند مقام عطا کیا ہے۔ کافر زمانہ جاہلیت میں بیٹی کی پیدائش پر غمگین ہو جایا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ نحل کی آیت نمبر58اور59میں کافروں کے طریقے کا ذکر کیا ہے:''جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے۔اس خوشخبری کی وجہ سے لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے۔ (سوچتا ہے کہ )آیا ذلت کے باوجود اسے( اپنے پاس) رکھے یا مٹی میں گاڑ دے۔آ گاہ رہواس کا فیصلہ بہت براہے‘‘۔اسی طرح سورہ زخرف کی آیت نمبر 17میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:''اور جب ان میں سے کسی کو اُس چیز کی خوشخبری دی جائے کہ جس کی اس میں رحمن کے لئے مثال بیان کی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اور وہ غم سے بھرا ہوتا ہے‘‘۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو بیٹیوں کی پیدائش پرغم زدہ ہونے سے منع فرمایا ہے ۔ امام احمدؒ اور امام طبرانی ؒ نے عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو کیونکہ وہ تو پیارکرنے والی قیمتی چیزیںہیں‘‘۔
بیٹیوں کی پیدائش پر غم کرنے والے لوگ زندگی کے طویل برسوںکے دوران بھی ان سے شفقت کاوہ سلوک نہیں کرتے جس کی وہ مستحق ہوتی ہیںاورعام طور پر ان کی ضروریات کو بھی خندہ پیشانی سے پورا نہیں کیا جاتا۔ یہ رویہ ہراعتبار سے قابل مذمت ہے۔ اہل ایمان کو ہرحال میں بیٹیوں کے ساتھ پیاراورمحبت والا معاملہ رکھنا چاہیے اورکھلے دل سے ان کی ضروریات کو پورا کرنا چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے باپ کی مختلف انداز میںتحسین فرمائی ہے۔بخاری اور مسلم شریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:''جس شخص کو تین بیٹیوں کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا تو وہ اس کے لیے آگ کے مقابلے میں رکاوٹ ہوںگی‘‘۔ یہ بیٹیاں اپنے نیک باپ کو صرف آگ سے ہی نہیں بچائیں گی بلکہ اس کو جنت میں بھی داخل کروائیں گی ۔اسی طرح امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ادب مفرد اورامام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے سنن ابن ماجہ میں ایک اور حدیث کو نقل فرمایا ہے کہ ''ہر وہ شخص جس کے ہاںدوبیٹیاں ہوںاور وہ دونوںجب تک اُس کے ساتھ رہیں یاوہ ان کے ساتھ رہے،احسان کرتا رہے تووہ دونوں اس کو جنت میں داخل کروائیں گی‘‘۔
بعض اوقات باپ توبیٹیوں سے حسن سلوک کرتا ہے لیکن مائیں ان کے ساتھ بخل کا مظاہرہ کرتی ہیں۔وہ ماں جو اپنی بیٹیوں کے ساتھ ایثار والا معاملہ کرتی ہے وہ بھی حدیث کے مطابق جنت کی مستحق ٹھہرے گی۔ امام مسلمؒ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں فرمایا:''میرے ہاں ایک مسکین عورت اپنی دو بیٹیوں کو اُٹھائے ہوئے آئی، میں نے اسے کھانے کے لیے تین کھجوریں دیں، اس نے دونوں بیٹیوں کو ایک ایک کھجور دے دی اور ایک کھجورکوخود کھانے کے لیے منہ کی طرف اُٹھایا تو دونوں بیٹیوں نے اس سے وہ کھجور مانگ لی تو اس نے وہ کھجور بھی دونوں میں تقسیم کر دی ۔اس عورت کے طور طریقے نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔میں نے اس کے طرز عمل کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روبرو کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا '' یقینااللہ تعالیٰ نے(اس کے اس عمل)کی وجہ سے اس پر جنت کو واجب کر دیا‘‘۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقام پر بیٹیوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے کو قیامت کے روز اپنی معیت اور قربت کی بشارت دی ہے۔امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت انس ؓ سے روایت نقل کی ہے کہ'' جس شخص نے دو بیٹیوں کی بلوغت کو پہنچنے تک تربیت کی، وہ قیامت کے دن (اس طرح)آئے گا کہ میں اوروہ (اکٹھے ہوں گے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ملا دیا‘‘۔
بعض لوگ رشتہ کرتے وقت اپنی بیٹیوں کی پسند نا پسند کا خیال نہیں کرتے،انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نکاح کے وقت جہاں ولی کا ہونا ضروری ہے وہیں عورت کی رائے کا معلوم ہونا بھی ضروری ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں ایسا نکاح منسوخ کر دیاتھا جس میں عورت کی رضا مندی شامل نہیں تھی۔ بعض لوگ تحفے تحائف دیتے وقت بیٹے اور بیٹیوں میں تفریق کرتے ہیں، یہ بھی بیٹی کا استحصال ہے۔ ازروئے شریعت ہدیہ دیتے وقت بیٹے اور بیٹیوں میںمساوات ہونی چاہیے۔ بیٹیوں کے استحصال کا ایک اور انداز ان کو وراثت سے محروم کرنا ہے۔ وراثت اللہ کا حکم ہے اور اس کو حیلے بہانے سے ہڑپ کرنے والے قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں جواب دہ ہوں گے۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات کامطالعہ کرنے کے بعد اس بات کو سمجھناچنداں مشکل نہیں کہ جدید قوانین و نظریات کے ذریعے عورت کے حقوق کا تحفظ کرنے کی کوئی بھی کوشش عورت کے استحصال کو نہیں روک سکتی ۔
دور حاضر کے بعض دانشور اور مختلف اسلامی اور غیر اسلامی ممالک کے سرکاری اور غیر سرکاری ادارے عورت کو جو حق دلانے کی کوشش کرتے ہیں اسلام آج سے چودہ سوبرس قبل وہ تمام حقوق عطا کر چکا ہے۔ اسلام نے عورت کی اصلاح اور نگرانی کے لیے مرد کو جو بعض اختیارات دئیے ہیں‘ دور حاضر کے دانشور اور بعض ادارے ان اختیارات کو سلب کرنا چاہتے ہیں۔ ان اختیارات کا مقصد عورت پر ظلم وتشدد کرنا نہیں بلکہ اس کی اصلاح اور اس کی نگرانی کے فریضے کو انجام دینا ہے۔ اگر عورت کے حقوق کو کتاب وسنت کی بجائے انسانوں کی فکر کے حوالے کر دیا گیاتو عورت سے اس کا اصل مقام چھین لیا جائے گا اور اس کو چراغ خانہ کی بجائے شمع ٔمحفل بنا دیا جائے گا۔ عورت کے ساتھ یورپ میں جو معاملہ کیا جا رہا ہے وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں۔ نہ توعورت وہاں پر ماں ہے، نہ بیوی ہے اور نہ بیٹی ہے۔ وہاں پر تو صرف وہ مردوں کی ضیافت طبع کا ایک ذریعہ ہے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو جو عزت اور وقار عطا کیا ہے وہ بحال رہے تو ہمیں اس کے مقام کے تعین کے لیے ذمہ داری اسمبلیوں اور انسانوں کو نہیں دینی چاہیے بلکہ قرآن وسنت میں عورت کو جو حقوق عطا کیے گئے ہیں ان حقوق پر اطمینان اور سکون کا اظہار کرنا چاہیے اور اس کے خلاف اٹھنے والی تمام آوازوں کے خلاف شدت کے ساتھ آواز اُٹھانی چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہماری فکر اور نظریات کی اصلاح فرمائے۔ آمین