"AIZ" (space) message & send to 7575

دینی جماعتوں کے تحفظات

پاکستان اسلامی نظریاتی ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا تھا‘ اس کے قیام میں جہاں مسلم لیگ کے قائدین اور کارکنوں نے نمایاں کردار ادا کیا وہاں ان کی ہمراہی میں ملک بھر کے جید علمائے کرام نے بھی الگ وطن کے لیے عامتہ الناس کو قائل کرنے میں موثرکردار ادا کیا۔ پاکستان کے قیام سے لے کر اب تک گو مذہبی جماعتیںایک دو دفعہ کے علاوہ نمایاںسیاسی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ لیکن اس کے باوجود امور ملکی میں ان کے واضح اثرات سے انکار نہیں۔ تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفی کی کامیابی میں مذہبی جماعتوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ 
میاں محمد نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے بارے میں عام تاثر ہے کہ مذہبی جماعتیں اور عوام الیکشن میں ان کی تائید میں فعال کردار ادا کرتے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کے حالیہ دور حکومت میں محسوس کیا جا رہا ہے کہ مسلم لیگ اسی روش پر گامزن ہے کہ جس پر اس سے پیشتر پیپلز پارٹی اور دیگر ایسی جماعتیں کاربند رہیں جو مذہب اور سیاست کی دوئی کی قائل ہیں۔ن لیگ کے دور حکومت میں ریمنڈ ڈیوس جیسے قاتل کو فرار ہونے کا موقع دیا گیا۔ موجودہ دور حکومت میں تحفظ پاکستان بل کو پیش کیا گیا اور ن لیگ کی حکومت کے سابقہ ادوار کی طرح سود کے حوالے سے نرم پالیسی کا اظہار کیا گیا ۔ حال ہی میں ملک ممتاز حسین قادری کو سزائے موت دی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ پنجاب اسمبلی میں تحفظ نسواں بل پیش کیا گیا۔ اس ساری صورتحال پر مذہبی جماعتوں اور حلقوں میں شدید قسم کی بے چینی پائی جاتی ہے۔حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے 15مارچ کو منصورہ میں دینی جماعتوں کا اجلاس طلب کیا۔ اجلاس میں مولانا فضل الرحمن‘ مولانا سمیع الحق‘ حافظ سعیدـ سمیت تمام اہم دینی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا۔ اجلاس میں مجھے بھی خطاب کی دعوت دی گئی۔ 
تمام دینی جماعتوں کے جید علمائے کرام نے اس بات سے اتفاق کیا کہ حکمرانوں کے پے درپے اقدامات آئین اور نظریہ پاکستان کے منافی ہیں اور اس موقع پرمزید جن باتوں پر اتفاق کیا گیا وہ یہ ہیں:1۔ ملک ممتاز حسین قادری کی سزائے موت کو عدالتی قتل قرار دے کر اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ اس سلسلے میں آئین قانون اور اسلام کے ضابطوں کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ 2۔ پنجاب اسمبلی کے تحفظ خواتین ایکٹ کو خاندانی وحدت کو توڑنے اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے مغربی ایجنڈے کی تکمیل کا ذریعہ قرار دیا گیا۔ اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ یہ قانون عورت کے ساتھ ناانصافیوں اور شرح طلاق میں اضافے کا سبب بنے گا اور اس پر عملدرآمد سے عورت زیادہ غیر محفوظ ہوگی۔ اس بات کا بھی اظہار کیا گیا کہ عورت کو جو عزت‘ احترام ، مقام ، تکریم، تحفظ اور حقوق اللہ رب العزت اور رحمتہ للعالمین نے عطا کیے ہیں مغرب اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مغرب میں عورت پاکستان کے مقابلے میں زیادہ مظلوم ہے ۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اکیاسی فیصد عورتوں پر کسی نہ کسی شکل میں بدترین تشدد کیا جاتا ہے اور بے حیائی کا عالم یہ ہے کہ 62فیصد جوڑے قانونی شادی کے بغیر رہ رہے ہیں۔ دینی جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ پنجاب اسمبلی کا یہ ایکٹ واپس لیا جائے اور اسلامی نظریاتی کونسل اور علمائے کرام کے مشورے سے قرآن وسنت کی روشنی میں خواتین کے تحفظ کا نیا بل لایا جائے۔ گھریلو تشدد کے اصل محرکات غربت ، جہالت، مہنگائی، بے روزگاری ، منشیات ، جہیز کی لعنت اور خواتین کی وراثت سے محرومی کی روک تھام کے لیے حکومت ذمہ دارانہ کردار ادا کرے۔
3۔ سود کے حرام ہونے پر اتفاق کیا گیا اورکہا گیا کہ سود اسلامی تعلیمات کے اعتبار سے قطعی حرام ہے۔ سود خوروں کے خلاف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اعلان جنگ ہے۔ لیکن آئین پاکستان کے واضح آرٹیکل ، وفاقی شرعی عدالت و شریعت اپیلٹ اور سپریم کورٹ کے کئی فیصلوں کے باوجود حکومت پوری شدومد سے سودی معیشت کو برقرار رکھنے پر بضد ہے‘ حتیٰ کہ صدر پاکستان کی طرف سے سودی قرضوں کو جائز بنانے کی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر مطالبہ کیا گیا کہ حکومت عدالتوں میں فریق بننے کی بجائے اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے تمام سودی قوانین کا فوری خاتمہ کرکے ملک کی معیشت کو سودی نظام سے پاک اور صاف کرے۔ 4۔ دہشت گردی کا مکمل خاتمہ اور امن کا قیام: اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے حکومت کو تمام ضروری اقدامات کرنا چاہئیں۔ لیکن اس کی آڑ میں دینی مدارس ، مذہبی کارکنوں اور علمائے کرام کو ہراساں کرنے کا سد باب کیا جائے۔نیز توہین آمیز طریقوں سے ناجائز گرفتاریوں اور لاؤڈ سپیکر پرنارواپابندیوں کا سلسلہ بھی بند ہونا چاہیے۔ 5۔ اجلا س میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ملک میں دینی جماعتوں کے حوالے سے کسی بھی اہم واقعے کی کوریج پر پابندی عائد کرنا کسی بھی طور پر مناسب نہیں ہے ۔ ماضی میں کئی مرتبہ حکومت اور پیمرا کی ملی بھگت سے بعض اہم قومی مذہبی اجتماعات کی کوریج پرپابندی عائدکی گئی۔جس کا کوئی اخلاقی اور قانونی جواز نہیں تھا۔ اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ میڈیا مالکان کو اسلامیان ِ پاکستان کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کرنے سے باز رہنا چاہیے اور مالی مفادات کے لیے امت سے کٹ جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ 6۔ اجلاس میں ایک روزنامے کی اس جسارت پر کڑی تنقید کی گئی کہ اس اخبار نے 23مارچ 1940ء کی قرارداد پاکستان کی جگہ ''نئی قرارداد‘‘ لانے کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اجلاس میں واضح کیا گیا کہ قرار داد پاکستان اور قرار داد مقاصد ملک وقوم کی بنیادی اساس ہیں اور انہیں متنازع بنانے کی ناپاک جسارت انتہائی خطرناک اور ملک دشمنی کے مترادف ہے۔ 7۔اجلاس میں اس بات کا بھی اتفاق کیا گیا کہ حکومت اور این جی اووز کے غیر شرعی، غیر اسلامی اور غیر آئینی اقدامات اور اعلانات کے خلاف تمام دینی جماعتیں متحد رہیں گی اور سیکولر اور لبرل نظریات کا مل کر اور ڈٹ کر مقابلہ کریں گی۔ 8۔ دینی معاملات پر مشترکہ موقف اور مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرنے اور مشترکہ تحریک چلانے پر اتفاق کیا گیا اور اس سلسلے میں جلد لاہور ، اسلام آباد اور کراچی میں بڑے اجتماعات کے انعقاد کا عندیہ دیا گیا۔9۔ اجلاس میں حکومت کو خبردار کیا گیا کہ اگر اس نے دین مخالف طرز عمل ترک نہ کیا اورتحفظ ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم ، سودی معیشت کے خاتمے ، خاندانی نظام کی بربادی کے مغربی ایجنڈے سے لاتعلقی کا اظہار نہ کیا تو مساجد اور مدارس کے تحفظ کے حوالے سے دینی جماعتیں 1977ء کی نظام مصطفی تحریک سے بڑی تحریک چلائیں گی۔ 10۔ اجلاس میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا اور اس حوالے سے حکومت کی بے حسی اور غفلت پر کڑی تنقید کی گئی۔ اس امر کا اظہار کیا گیا کہ اگر حکومت کو حقیقت میں خواتین کے حقوق کی بحالی سے دلچسپی ہے تو اس کو عرصہ دراز سے امریکہ کی قید میں گرفتار ملک کی بیٹی کو بازیاب کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ 
دینی جماعتوں کے تحفظات حکومت کے لیے لمحہ فکریہ ہیں اگر حکومت نے ان تحفظات پر غوروفکر نہ کیا تو حکومت کو سیاسی اور مذہبی اعتبار سے ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔ امید ہے کہ مسلم لیگ کے زعماء اس اجلاس کو معمولی نہیں سمجھیں گے اور دینی جماعتوں کے تحفظات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں میں نمایاں تبدیلی لانے کی کوشش کریں گے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں