آج قراردادِ پاکستان کو پیش ہوئے 76برس بیت چکے ہیں۔ قرارداد پاس ہونے کے چند برس بعد ہی پاکستان معرض ِوجود میں آ گیا۔ پاکستان اس وقت دنیائے اسلام کا آبادی کے لحاظ سے تیسرا بڑا ملک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ہر قسم کے موسموں اور قدرتی وسائل سے نوازاہے۔ پاکستان کی ترقی کی خواہش ہر محب وطن کے دل میں موجود ہے لیکن ریاست کی اساس اور مستقبل کے حوالے سے اہل ِپاکستان میں کافی اختلاف پایا جارہا ہے جو اس کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
آزاد خیال طبقے کی غالب اکثریت پاکستان کو ایک قومی ریاست کے طورپر دیکھتی ہے اور اسی شناخت کو اجاگر کرنے پرزور دیتی ہے جبکہ مذہبی طبقات اسے نظریاتی ریاست کے طور پر دیکھتے ہیں اور تحریک پاکستان کے دوران لگنے والے نعرے۔۔۔۔ پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالہ الا اللہ کو پاکستان کی بنیاد سمجھتے ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے تمام طبقات کا اس حقیقت پر مکمل اتفاق ہے کہ پاکستان کے قیام کا ایک مقصدمسلمانان ِہند کی سیاسی اور سماجی حیثیت کو بحال کرناتھا؛ تاہم اس کے نظریاتی مملکت ہونے کے حوالے سے مختلف موقف سامنے آتے رہتے ہیں اور ہرموقف کا حامی اپنے موقف کی تائید میںدلائل دیتا رہتا ہے۔
اگر ہم ٹھنڈے دل سے علیحدہ وطن کے مطالبے کے اسباب پرغورکریں تو اس حقیقت کو پہچاننا مشکل نہیں رہتا کہ قیام ِپاکستان کا واحد مقصد صرف مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی پستی کو دورکرنا نہیں تھا کیونکہ یہ مقصد تقسیم کے بغیر بھی مکمل ہو سکتا تھا۔ جن صوبوں میں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں مسلمان اپنی سیاسی ساکھ کو متحرک سیاسی رہنماؤں کی قیادت میں بحال کروا سکتے تھے۔ بھارت کے دوکناروں پر بنگال، پنجاب،خیبر
پختونخوا، سندھ اور بلوچستان واقع تھے۔ ان تمام علاقوں میں مسلمانوں کی غالب اکثریت تھی اور ان کی رائے کے بغیر کسی بھی صوبائی حکومت کا قیام ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور تھا۔ مسلمانوںکو ان علاقوں سے مرکزی پارلیمان میں مؤ ثر نمائندگی بھی حاصل ہو سکتی تھی اور مسلمان مختلف سیاسی فورمزکے ذریعے اپنے حقوق کے لیے مؤثر آوازبھی اُٹھا سکتے تھے۔مسلمانوںکو انڈیا میں مکمل مذہبی آزادی تو حاصل نہیں تھی لیکن انفرادی حیثیت میں وہ بہت سے مذہبی معاملات کی ادائیگی کا اختیار رکھتے تھے۔ نماز پنجگانہ، روزہ، زکوٰ ۃ، حج اور قربانی پرکوئی پابندی نہیں تھی۔ مسلم اکثریتی علاقوں میں گائے ذبح ہوتی تھی اور مساجد کی تعمیر پر بھی کوئی خاص پابندی نہیں تھی۔ مسلمان شادی بیاہ اور طلاق کے معاملات کو بھی قرآن و سنت کی روشنی میں انجام دیتے تھے۔اس صورت حال میں ہمارے اکابرین نے اگر علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا تواس کا بڑا سبب نہ تو سیاسی اور سماجی حیثیت کی بحالی تھی اور نہ ہی مذہبی فرائض کی انجام دہی میں حائل کسی رکاوٹ کو دورکرنا تھا۔ اس کا بنیادی اوراہم ترین سبب یہ تھا کہ مسلمان رہنما اس بات کو سمجھ چکے تھے کہ انڈیا میں رہتے ہوئے مسلمان ایک فلاحی اسلامی ریاست کے حصول میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ سرسید احمد خاں سے لے کر علامہ اقبال تک، مولانا ظفر علی خاں سے لے کر حضرت محمد علی جناح تک اور مولانا محمد علی جوہر سے لے کر نواب بہادر یارجنگ تک مسلمان رہنماؤں کی غالب اکثریت نے قوم کو درس دیا کہ مسلمانوں اور ہندوؤں کا اکٹھے رہنا محال ہے اور مسلمانوں کو ہر صورت میں ایک علیحدہ وطن حاصل کرنا چاہیے، جس میں اسلام کے آفاقی اصولوں کی روشنی میں ریاستی معاملات کو چلایا جا سکے۔ بانی پاکستان کی بہت سی تقریروں میں پاکستان کو اسلام کی تجربہ گاہ اور پاکستان کا دستور قرآن مجیدکو قرار دیا گیا۔
اسی مذہبی جذبے کے تحت پاکستان کے قیام کے لیے مسلمانانِ ہند نے زبردست جدوجہدکی۔ مسلمانانِ ہندکی ایک ہی تمنا تھی کہ ایک ایسا خطہ حاصل کیا جائے جو حقیقی معنوں میں ایک اسلامی ریاست ہو۔ اپنے مذہب کی بقا اور نفاذ کے لیے بھارت کے طول و عرض سے مسلمانوں نے بڑی تعداد میں پاکستان کی طرف ہجرت کی جس میں بڑی تعداد میں بزرگ، نوجوان اور بچے شہید ہوئے، بڑی تعداد میں مسلمان عورتوںکی آبرو پامال کی گئی۔ اپناگھر بار چھوڑکر آنے والوںکو پاکستان پہنچنے کی بہت خوشی تھی اور وہ محسوس کر رہے تھے کہ انہیں اپنے خوابوں کی تعبیرمل گئی ہے۔بانی ِپاکستان کی زندگی نے وفا نہ کی اوروہ آزادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ آپ کے انتقال کی وجہ سے پاکستان میں فکری انتشار پیدا ہوگیا،حکمران اور طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی رائے رفتہ رفتہ تقسیم ہونا شروع ہوگئی۔بعض بااثر افراد اور رہنما پاکستان کو ایک ترقی یافتہ قومی ریاست بنانا چاہتے تھے جبکہ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی بھی تھی جو پاکستان کوایک نظریاتی مذہبی ریاست کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے۔ اگرچہ 1956ء میں پاکستان کو اسلامی جمہوریہ قرار دے دیا گیا لیکن دونوں افکارکے درمیان کشمکش برقرار رہی اور عملی طور پر اسے ایک قومی ریاست کی حیثیت سے چلانے کی جدوجہدکی جاتی رہی۔
ملک کوایک قومی ریاست کی حیثیت سے چلانے کی خواہش رکھنے والے رہنما اس حقیقت کو نظر اندازکرتے رہے کہ پاکستان کو قومی ریاست کی حیثیت سے برقرار رکھنا اس لیے مشکل ہے کہ یہ ایک کثیرالقومی ریاست ہے جس میں بنگالی، پنجابی، سندھی اور بلوچیوںکے علاوہ دیگر قومیتوں کے لوگ بھی آبادہیں۔ اگر مذہب کوریاستی معاملات اور ریاست کی شناخت سے الگ کر دیا جائے تو پاکستان کا اپنا وجود خطرے سے دوچار ہو سکتا تھا۔ یہ بات پاکستان کے بعض ناعاقبت اندیش سیاستدانوں اور رہنماؤں کی سمجھ میں نہیں آئی اور انہوں نے چند بنیادی انسانی ضروریات کو اپنی سیاست کا نعرہ اور محور بنا کر مذہب کی افادیت کو فراموش کر دیا۔ اس کا نتیجہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان لسانی تنازعے کی شکل میں نکلا۔ بنگالیوں نے اپنے حقوق کے لیے آواز اُٹھائی، مغربی پاکستان کے نمایاں رہنماؤں نے اس صورت حال میں نظریہ پاکستان کو اُجاگرکرنے کے بجائے طاقت کے دو علیحدہ مراکز قائم کرنے کے فلسفے کو ترویج دی۔اس کشمکش کے دوران پاکستان دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا۔ ایک ٹکڑا بنگلہ دیش کے نام سے بنگالیوں کی قومی ریاست بن گیا جبکہ دوسرا ٹکڑا پاکستان کے نام سے برقرار ہے۔
سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ ہر پاکستانی کے لیے باعث ِ تشویش تھا لیکن اس کے اسباب کو سنجیدگی سے جاننے کی کوشش نہیںکی گئی۔ سیدھی بات یہ ہے کہ ریاستی امور سے مذہب کو علیحدہ کرکے تعصبات کی تحلیل کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی۔ 1973ء میں پاکستان کا متفقہ آئین تیارکیا گیا جس کو تمام سیاسی اور مذہبی طبقات کی تائید حاصل تھی۔ اس آئین میں جہاں ملکی معاملات کو چلانے کے لیے آئینی ڈھانچے کے خدوخال پر بحث کی گئی وہیں آئین میں قرآن و سنت کی بالادستی کی ضمانت بھی دی گئی اوراس کی مختلف شقوں میں اس امرکی یقین دہانی کرائی گئی کہ ملک میں کوئی قانون قرآن وسنت کی روح کے خلاف تشکیل نہیں پاسکے گا۔مذہبی طبقات آئین تشکیل پا جانے کے بعد بہت مسرور تھے کہ ملک کو جس بنیاد پر بنایا گیا تھا آئین میںاسے تسلیم کر لیا گیاہے؛ تاہم یہ خوشی اس لیے دیر پا ثابت نہ ہو سکی کہ آئین بن جانے کے باوجود عملی طور پر پاکستان کے بہت سے معاملات دین اور شریعت کی روح کے خلاف تھے۔ ملک میں سودی لین دین جاری رہا، شراب پر پابندی عائد نہ کی جاسکی، فحاشی و عریانی کی حوصلہ شکنی کرنے کے بجائے اس کی حوصلہ افزائی کی گئی اور جسم فروشی کا کاروبار بتدریج صنعت کی شکل اختیارکر تا چلاگیا۔
1973ء کے آئین کو بنے ہوئے چارعشرے گزر چکے ہیں لیکن تاحال ملک صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست نہیں بن سکا۔ آج بھی مختلف فورمز پر یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان کوکس قسم کی ریاست ہونا چاہیے۔ متفقہ آئین کی تشریحات کے حوالے سے بھی مختلف طبقات کی آراء میںشدید قسم کا اختلاف پایا جاتا ہے جسے حل کیے بغیر پاکستان صحیح معنوں میں ترقی کی شاہراہ پرگامزن نہیں ہو سکتا۔ مصور پاکستان علامہ محمد اقبال کی شاعری، بانی پاکستان کی تقاریر اورانڈیا کو خیر باد کہہ کر آنے والے اکابرین کی جدوجہد تو لاالہ الا اللہ کی عملداری کے لیے تھی لیکن پاکستان کے سیاسی رہنماؤں اور باسیوں کی ایک بڑی تعداد تا حال پاکستان کا مطلب اور وجہِ تخلیق سمجھنے سے قاصر ہے۔