بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد اسلامی علوم کی تدریس کا ایک منفرد ادارہ ہے۔ اس میں اسلامیات کے علاوہ دیگر علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں‘ لیکن اسلامی علوم کے حوالے سے یہ یونیورسٹی اس وقت دنیا بھر میں اپنا ایک مقام بنا چکی ہے۔ بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اہم عنوانات پر قومی کانفرنسوں کا انعقاد بھی کرتی ہے۔ کچھ عرصہ قبل ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے کے حوالے سے ملک بھر سے ممتاز اہلِ علم کو اسلام آباد مدعو کیا گیا اور ان سے فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے تجاویز طلب کی گئیں۔
6،7 اپریل کو بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی نے قائد اعظم لائبریری لاہور میں دو روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا‘ اور جو موضوع مجھے گفتگو کے لیے دیا گیا وہ تھا: ''فتہ و فساد کے سد باب کے لیے علماء کا کردار‘‘۔ میں نے اس موقع پر اپنی جو گزارشات علما اور طالب علموں کے سامنے رکھیں‘ وہ میں قارئین کی نذر کرنا چاہتا ہوں:
فتنہ و فساد کے حوالے سے ہر شخص کے ذہن میں ایسے اعمال کا تصور ابھرتا ہے جو بنی نوع انسان کی سلامتی اور ان کی جان و مال اور عزت کے لیے نقصان دہ ہوں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی اپنے کلام حمید میں فتنہ و فساد کی بھرپور مذمت کی ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ بسا اوقات بعض مصلحین کو بھی فسادی قرار دیا جاتا رہا ہے؛ چنانچہ اس حوالے سے سورہ مومن میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرعون کی اس بات کا ذکر کیا ہے کہ اس نے موسیٰ علیہ السلام جیسے اصلاح کرنے والے اللہ تبارک و تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر کو زمین پر فساد پھیلانے والا قرار دیا تھا۔ فرعون نے یہ بات کہی تھی کہ موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے نتیجے میں لوگوں کے دین کو خطرہ ہے یا زمین پر فساد ظاہر ہو سکتا ہے۔ حالانکہ فرعون کا اپنا طرز عمل یہ تھا کہ وہ معصوم بچوں کو ذبح کیا کرتا تھا‘ اور زمین پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بجائے اپنے آپ کو رب قرار دیا کرتا تھا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے حقیقی فساد کی بھی بھرپور طریقے سے مذمت کی ہے؛ چنانچہ سورہ اعراف میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ''زمین کے اوپر اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ کرو اور اللہ تبارک و تعالیٰ کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے رہو‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت شعیب علیہ السلا م کی دعوت کا بھی ذکر کیا ہے کہ وہ بھی اپنی قوم کے لوگوں کو مخاطب ہو کر یہ بات کہا کرتے تھے کہ زمین پر اس کی اصلاح کے بعد فساد نہ کیا جائے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے لوگ معاشی اعتبار سے زمین پر فساد برپا کیے ہوئے تھے۔ کم ماپنا، کم تولنا ان کا طرز عمل تھا۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی دعوت کو قبول کرنے کی بجائے وہ حضرت شعیب علیہ السلام کی مخالفت پر آمادہ ہو گئے۔ حضرت شعیب علیہ السلام نے اس موقع پر مثبت ناصحانہ طرز عمل اختیار کیا‘ اور ان کو یہ بات سمجھائی کہ میں جب تم کو دعوت دیتا ہوں تو میرا مقصد تمہاری مخالفت کرنا نہیں‘ بلکہ تمہاری اصلاح کرنا ہوتا ہے۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے لوگوں نے ایک خیر خواہ پیغمبر کی بات کو قبول نہ کیا؛ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے غضب اور اس کے عذاب کا نشانہ بنے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فتنہ و فساد کے حوالے سے بعض اہم امور کی نشاندہی کی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ میں یہ بات بیان کی گئی ہے کہ کوئی شخص‘ جس کا دین اور اخلاق عمدہ ہو اگر وہ کسی کے پاس اس کی بہن یا بیٹی کا رشتہ طلب کرنے کے لیے آتا ہے تو اس شخص کو اس صاحب اخلاق اور دین دار شخص کے ساتھ اپنی بیٹی کا رشتہ کر دینا چاہیے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو زمین کے اوپر بہت بڑا فتنہ اور فساد ظاہر ہو جائے گا‘ اور آج ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ رشتوں کے حوالے سے درست انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے معاشرے میں جنسی بے راہ روی، فحاشی، عریانی اور جہیز جیسے فتنے موجود ہیں‘ اور آج معاشرہ اخلاقی اعتبار سے انتشار اور خلفشار کا شکار ہو چکا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے کلام حمید میں فتنے کی بھی بھرپور طریقے سے مذمت کی ہے‘ اور فتنے کو سورہ بقرہ میں قتل سے بھی بڑا اور شدید گناہ قرار دیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے کلام حمید کی سورہ نور میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے کے نتیجے میں فتنے کے ظہور کا ذکر کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کے کسی بھی شعبے میں جب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو زمین پر فتنہ اور فساد پھیلنے اور ظاہر ہونے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں۔
علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں۔ علماء قرآن و سنت کی تعلیمات سے صحیح معنوں میں بہرہ ور ہوتے ہیں‘ اور علماء قرآن و سنت کے مفہوم، مطلوب، ان کی تشریح اور ان کی تفسیر کو صحیح معنوں میں سمجھنے والے ہوتے ہیں۔ علما کو چاہیے کہ وہ پیغمبروں کی نیابت کا حق ادا کرتے ہوئے فتنے اور فساد کی ہر طریقے سے مذمت کریں۔ یہاں پر اس امر کو بیان کرنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ علماء کا کردار امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ فتنہ اور فساد کا صحیح معنوں میں قلع قمع کرنا یہ حکام وقت کی ذمہ داری ہے۔ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ بعض حکمران جو علم کی نعمت سے بہرہ ور تھے‘ انہوں نے زمین پر فتنہ و فساد کو بھرپور طریقے سے ختم کیا؛ چنانچہ قرآن مجید کے مطابق سیّدنا ذوالقرنین اور سیّدنا طالوت نے فتنہ و فساد کی بھرپور طریقے سے بیخ کنی کی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بعض انبیاء کو بھی زمین پر حکومت عطا کی۔ ان انبیاء نے بھی زمین پر فتنہ و فساد کے خاتمے کے لیے کلیدی کردار ادا کیا؛ چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام نے اس حوالے سے اپنی ذمہ داریاں بھرپور طریقے سے ادا کیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کائنات میں جلوہ گر ہونے سے پہلے اعتقادی اعتبار سے بھی اور عملی اعتبار سے بھی جزیرۃ العرب میں فتنہ و فساد کی بہت سی قسمیں موجود تھیں۔ لوگ ایک دوسرے کی جان کے خواہ مخواہ دشمن ہو جایا کرتے تھے، اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کیا کرتے تھے، ایک دوسرے کے مال کو تلف کرنے اور چھیننے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے، اسی طرح ان لوگوں کی اکثریت شراب کے نشے میں دھت رہا کرتی تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بھرپور طریقے سے اصلاح کی اور فتنہ و فساد کے خاتمے کے لیے تلقین اور دعوت کے ساتھ ساتھ حدود اللہ اور تعزیرات کا نظام بھی کائنات کے لوگوں کو عطا کیا۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کائنات سے رخصت ہو جانے کے بعد خلفائے اربعہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت اور آپ کے مشن کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا‘ اور فتنہ و فساد کے قلع قمع کے لیے قرآن و سنت کی تعلیمات پر بھرپور طریقے سے عمل کیا۔ بدقسمی سے خلافت راشدہ کے بعد رفتہ رفتہ علم میں کمی واقع ہوتی چلی گئی‘ اور علم اور حکومت مختلف لوگوں کے ہاتھ میں جاتی رہی۔ اگر ہم معاشرے میں اصلاح چاہتے ہیں‘ اور فتنہ و فساد کا قلع قمع کرنا چاہتے ہیں‘ تو اس کے لیے علماء اور حکام کو اپنی ترجیحات کے تعین کے لیے ایک دوسرے کی آراء اور افکار کو صحیح طریقے سے سمجھنا ہو گا۔ علماء کا کام رہنمائی کرنا اور حکمرانوں کا کام اس رہنمائی کو قبول کرتے ہوئے عملی تدابیر کو اختیار کرنا ہے۔ اگر حکمران صاحب علم ہوں یا علم کی حوصلہ افزائی کرنے والے ہوں یا کم از کم علماء کی مثبت تجاویز پر عمل کرنے والے ہوں تو ہمارے ملک میں فتنہ و فساد کا مکمل طور پر خاتمہ ہو سکتا ہے اور ملک امن و سکون کا گہوارہ بن سکتا ہے۔