جب کبھی کرپشن کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس سے بالعموم مالیاتی بدعنوانی کا تصور اُبھرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن صرف مالیاتی بدعنوانی کا نام نہیں بلکہ اخلاقی بے راہ روی بھی کرپشن ہی میں شمار ہوتی ہے۔ کرپشن کی دونوں اقسام‘ یعنی مالی بدعنوانی اور اخلاقی بے راہ وری ہر اعتبار سے معیوب ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان میں صنف مخالف کی کشش اور مال کی محبت موجود ہے‘ لیکن اس محبت اور کشش کی تکمیل کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جائز راستے بتائے ہیں۔ مال کمانے کے لیے تجارت کرنا، ملازمت کرنا، کھیتی باڑی کرنا اور مختلف طرح کی صنعتیں قائم کرنا ہر اعتبار سے جائز اور مستحسن ہے۔ اسی طرح صنف مخالف کی جو کشش انسان کے دل میں پائی جاتی ہے‘ اُس کی تکمیل کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے نکاح کا راستہ کھلا رکھا ہے۔ جو لوگ کاروبار کو دیانت داری سے انجام دیتے ہیں اور عورت کے ساتھ نکاح کے ذریعے ہی تعلق استوار کرتے ہیں‘ ہر شخص فطری اعتبار سے ان کا قدر دان ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جو لوگ مالی بدعنوانی کے مرتکب ہوتے ہیں، خیانت کرتے ہیں اور دوسروں کے مال کو تلف اور ہضم کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ ہر اعتبار سے قابل مذمت ٹھہرتے ہیں۔ ہر سلیم الطبع شخص ایسے لوگوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اسی طرح جو لوگ اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بدکرداری کا ارتکاب کرتے‘ اور زنا کا راستہ اختیار کرتے ہیں‘ ایسے لوگ بھی سلیم الطبع لوگوںکی نظروں میں قابل مذمت ٹھہرتے ہیں۔ اگرچہ یہ افعال مذموم ہیں‘ لیکن یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ صاحب اثر اور صاحب سرمایہ لوگ اپنے سرمائے کی نشوونما کے لیے غلط راستے اور اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے نکاح کی بجائے بدکرداری کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ یہ لوگ طاقت‘ اثر و رسوخ اور سرمائے کے بل بوتے پر اپنے ان جرائم پر پردہ ڈالنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ مغربی ممالک میں صنفی تعلقات پر بالعموم کسی قسم کی پابندی نہیں‘ اس کے باوجود وہاں کے عوام اپنے قائدین کو صنفی اعتبار سے بد راہ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ اور اگر یہ بات ثابت ہو جائے کہ ان کا کوئی لیڈر یا رہنما جنسی بے راہ روی کا شکار رہا ہے‘ تو وہ اس پر بھرپور طریقے سے عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہیں۔ اسی طرح مغربی ممالک میں مالیاتی بدعنوانی کو بھی انتہائی بری نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگرچہ مغربی معاشروں میں عوامی سطح پر مالیاتی کرپشن موجود ہے‘ لیکن وہ لوگ اپنے قائدین میں کسی بھی اعتبار سے مالی بدعنوانی گوارا نہیں کرتے اور اگر کسی رہنما، لیڈر یا حاکم میں مالی بدعنوانی ثابت ہو جائے‘ تو اس سے عوامی سطح پر استعفیٰ کا مطالبہ کیا جاتا ہے اور بہت سے حکمران اپنے عوام کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے باآسانی اپنے عہدے کو چھوڑنے پر آمادہ و تیار ہو جاتے ہیں۔ یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بہت سے سیاسی لیڈر اور نمایاں شخصیات کسی نہ کسی اعتبار سے مالیاتی بدعنوانی یا اخلاقی بے راہ روی میں ملوث ہیں۔ آئین پاکستان میں بے راہ روی اور بددیانتی کو روکنے کے لیے شق 62 اور 63 کو شامل کیا گیا ہے‘ لیکن بالعموم دیکھا جاتا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد شق 62 اور 63 کے معیار پر پورا نہیں اترتی اور ان لوگوں کی اکثریت کسی نہ کسی سطح پر مالیاتی اور اخلاقی بے راہ روی شکار ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ مالیاتی بدعنوانی کے خلاف آواز تو اُٹھاتا ہے لیکن اخلاقی بے راہ روی کی بھرپور طریقے سے مذمت کرنے پر کسی بھی طور پر آمادہ و تیار نہیں ہوتا‘ حالانکہ بطور مسلمان ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ کرپشن کی دونوں اقسام کی بھرپور مذمت کریں۔
کتاب و سنت میں کرپشن کے خاتمے کے لیے جو اصول بتائے گئے ہیں اگر اُن اصول و ضوابط پر عمل کر لیا جائے تو کرپشن کی دونوں اقسام سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل ہو سکتی ہے۔ کتاب و سنت میں مالیاتی بدعنوانی میں ملوث لوگوں کے لیے کڑی سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی کا مال چُراتا ہے تو خواہ وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو‘ اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں بنو محزوم کی ایک عورت نے چوری کی تو بنو محزوم کے لوگوں نے اُس کی سفارش کے لیے حضرت اسامہ ابن زید رضی اللہ عنہما کو بارگاہ رسالت مآب میں روانہ کیا۔ حضرت اسامہ ابن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر اعلان فرمایا کہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کے بھی ہاتھ کو کاٹ ڈالوں گا۔ آپ نے سابق اقوام کی تباہی کے ایک بڑے سبب کا بھی ذکر کیا کہ ان میں سے اگر کوئی بڑا شخص جرم کا ارتکاب کرتا تو اس کو چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی چھوٹا کسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اس کو سزا دی جاتی۔ آج ہمارے معاشرے کا بھی یہی المیہ ہے کہ چھوٹی یا عام سطح پر جرائم کرنے والوں کے لیے کڑی سزائیں موجود ہیں‘ اس کے برعکس صاحب اثر لوگ خواہ کتنے ہی بڑے جرم کا ارتکاب کریں وہ اپنے اثر و رسوخ کے ذریعے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
اسلام میں مالیاتی کرپشن کے ساتھ ساتھ اخلاقی بے راہ روی کے انسداد کے لیے بھی کوڑوں کی سزا تجویز کی گئی ہے‘ اور اگر اخلاقی بے راہ روی میں ملوث مرد یا عورت شادی شدہ ہو تو اُن کے لیے سنگسار کی سزا تجویز کی گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ان سزاؤں کے نفاذ کا یہ اثر ہوا کہ لوگ ازخود اپنے آپ کو قانون کے حوالے کر دیا کرتے تھے؛ چنانچہ شبیبہ غامدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے جس وقت برائی کا ارتکاب کیا تو خود بارگاہ رسالت مآب میں حاضر ہوئیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مدت تک ان کی سزا کو مؤخر کرتے رہے۔ پہلے حاملہ ہونے کے سبب ان کی سزا کو مؤخر کیا گیا۔ پھر بچے کی پیدائش کے بعد ان کی سزا کو مؤخر کیا گیا۔ اُس کے بعد دودھ پلانے کی مدت کے دوران بھی ان کی سزا کو مؤخر کیا گیا۔ بالآخر جب بچہ ٹھوس غذا کھانے کے قابل ہو گیا تو شبیبہ غامدیہ رضی تعالیٰ عنہا نے خود اپنے آپ کو قانون کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا۔ حضرت شبیبہ غامدیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حد قائم کرنے کے لیے زمین میں گاڑا گیا‘ اس کے بعد حد قائم کرنے کے دوران ایک پتھر لگنے کے نتیجے میں خون کا ایک فوارہ حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کپڑوں پر پڑا تو حضرت خالد ابن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس پر ناگواری کا اظہار کیا اور کہا: عورت ناپاک تھی‘ جاتے جاتے مجھے بھی ناپاک کر گئی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر ارشاد فرمایا کہ شبیبہ ؓ نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر مدینہ کے ستر گناہگاروں اور ایک روایت کے مطابق سارے گناہگاروں میں تقسیم کر دیا جائے‘ تو اللہ تبارک و تعالیٰ سب کے گناہوں کو معاف فرما دیں گے۔
ابھی چند روز قبل جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں کرپشن فری پاکستان کے موضوع پر علما کا اجلاس طلب کیا گیا۔ اس موقع پر ملک کے بہت سے نامور علمائے کرام نے اپنی اپنی آراء کا اظہار کیا۔ میں نے بھی اس موقع پر اپنی چند گزارشات علمائے کرام کے سامنے رکھیں۔ اس موقع پر میں نے کہا کہ 73ء کا آئین ا ور قراردادِ مقاصد نے کتاب و سنت کی بالادستی کی ضمانت دی ہے۔ اگر کتاب و سنت کو اُس کے متن اور معنی سمیت صحیح طور پر ملک میں نافذ کر دیا جائے تو ملک ہمیشہ کے لیے کرپشن سے پاک ہو سکتا ہے۔ افسوس اور تاسف کا مقام یہ ہے کہ ملک کی آزادی کو 70 برس پورے ہونے والے ہیں‘ لیکن ابھی تک صحیح معنوں میں ہم اپنی منزل کا تعین کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ ہم ملک کی نظریاتی جہت کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات اور ابہام کا شکار ہیں۔ اگر ہم ملک کو صحیح راستے پر چلانا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستا ن میں صحیح معنوں میں اسلامی اور جمہوری اصولوں کو لاگو کرنا ہو گا۔ اگر صحیح معنوں میں اسلام کے آفاقی اصولوں کو ملک میں نافذ کر دیا جائے تو اللہ تبارک و تعالیٰ کے فضل و کرم سے ملک ہمیشہ کے لیے ہر قسم کی کرپشن اور بدعنوانی سے پاک ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ملک کو مالیاتی اور اخلاقی بدعنوانی کے مرتکب افراد کی قیادت سے بچائے اور ملک کا اختیار اور اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں دے جو ہر اعتبار سے مالی اور اخلاقی بدعنوانی سے پاک ہوں۔