بہت سے لوگ دنیا سے چلے جانے کے باوجود اپنے کارہائے نمایاں کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے زندہء جاوید ہو جاتے ہیں۔ انہی عبقری شخصیات میں سے ایک شخصیت حضرت علامہ محمد اقبال ؒکی ہے جنہیں دنیا سے رخصت ہوئے 78برس کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن آج بھی ان کی یادوں کی خوشبو عالم اسلام اور بالخصوص پاکستان کی فضاؤں میں رچی اور بسی ہوئی ہے۔ علامہ محمد اقبال ؒکی عقیدت اوراحترام ہر مسلمان اور بالخصوص ہر پاکستانی کے دل میں موجود ہے۔ علامہ اقبال ؒکی شاعری جہاں پر سیاسی رہنما، زعماء، شعراء اور ادب کے طالب علم بڑے شوق سے پڑھتے ہیں‘ وہیں پر علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری چھوٹی عمر کے بچوں میں بھی نہایت مقبول ہوئی۔ علامہ محمد اقبال نے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے انسانوں کی رہنمائی کے لیے بہترین انداز سے شاعری فرمائی ہے۔
علامہ محمد اقبال ؒکی عظیم شاعری کے پس منظر میں اُن کی حساسیت اور قوت مشاہدہ کا نمایاں کردار ہے۔ علامہ محمد اقبال کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے غیر معمولی ذہانت سے نوازا تھا۔ اس ذہانت کی وجہ سے علامہ محمد اقبالؒ نے جہاں پر دینی اور دنیاوی علوم میں مہارت حاصل کی وہیں پر آپؒ نے برصغیر کی درسگاہوں کے ساتھ ساتھ یورپ کی درسگاہوں سے بھی علم حاصل کیا۔ یورپ میں قیام کے باوجود علامہ محمد اقبالؒ یورپی تہذیب اور تمدن سے بالکل بھی متاثر نہ ہوئے اور آپؒ اپنے نظریات اور افکارپر پوری طرح ثابت قدم رہے۔ علامہ محمد اقبالؒ بنیادی طور پر فلسفے کے ماہر تھے۔ لیکن فلسفیانہ گتھیوںکو سلجھانے کے دوران علامہ لمحہ بھر کے لیے بھی مذہب سے بیزار نہ ہوئے۔ قرآن مجید کی تلاوت اور احادیث نبویہ سے بے مثال عقیدت کی وجہ سے ان کا تعلق ہمیشہ اپنے مرکز سے انتہائی مضبوط رہا۔ علامہ محمد اقبالؒ جس عہد میں پیدا ہوئے اور جس دور میں آپؒ نے اپنی جوانی گزاری ‘ وہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کا دور تھا۔ طویل عرصہ برصغیر پر حکمرانی کرنے کے بعد مسلمان سیاسی زوال کا شکار ہو چکے تھے اور ان کو بیک وقت ہندوؤں کی مکاری اور انگریزی استبداد کے دباؤ کا سامنا تھا۔ احساس محرومی اور مایوسی کا شکار مسلمان اپنی منزل کا تعین کرنے میں انتہائی دقت اور دشواری محسوس کر رہے تھے۔ ایسے عالم میں جن زعماء اور غیر معمولی صلاحیتیوں کے حامل قائدین نے مسلمانوں کی رہنمائی کی ان میں علامہ محمد اقبال کا نام سرفہرست ہے۔
علامہ محمد اقبال سے پہلے بھی اردو ادب کو مزین کرنے والے بہت سے شعراء گزرے ہیں لیکن جو مقصدیت اور نظریات کی بلندی اور پختگی ہمیں علامہ کے یہاں نظر آتی ہے وہ آپ ؒسے پہلے کے شعراء میں نظر نہیں آتی۔ آپؒ سے پہلے گزر جانے والے بہت سے شعراء کی شاعری کا بنیادی ہدف عشق مجازی اور حسن فطرت کی ستائش کرنا تھا اور انہوں نے نظریات اور افکار کے پھیلاؤ کے لیے اپنی صلاحیتوں کا استعمال نہیں کیا۔ علامہ اقبالؒ سے قبل بعض ایسے شعراء بھی گزرے ہیں جنہوں نے مقصدیت اور نظریات کو اہمیت دی جن میں الطاف حسین حالیؒ اور اکبر الٰہ آبادی سرفہرست ہیں۔ انہوں نے اپنے کلام کے ذریعے مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی، لیکن ان کے یہاں افکار اور نظریات کی بلندی حضرت علامہ محمد اقبالؒ کے مقام پر نظر نہیں آتی۔ علامہ محمد اقبال ؒ نے اپنے تخیل کی پرواز اور ابلاغ کی پختگی کے ذریعے نہ صرف یہ کہ اپنے سے پہلے شعراء کو مات کر دیا بلکہ علامہ کے بعد بھی کوئی شخص ان کے ابلاغ اور فکر کی رفعت اور بلندی کا مقابلہ کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے مسلمانوں کو جب زوال پذیر دیکھا اور ان کو اپنی سیاسی منزل سے بہت پیچھے پایا تو حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے مسلمانوں کے ضمیر کو جھنجھوڑنے اور ان کی منزل کے تعین کے لیے بہترین انداز میں شاعری فرمائی۔ علامہ محمد اقبالؒ نے برصغیر کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے مختلف ذات پات اور رنگ ونسل سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو یکجا رکھنے کے لیے تصور ملت پر خصوصیت سے زور دیا۔ علامہ محمد اقبالؒ نے دو قومی نظریے کو اپنی شاعری کے ذریعے بہت خوبصورت انداز میں اجاگر فرمایا۔ آپ کا یہ شعر دو قومی نظریے کی اہمیت اور افادیت کو اجاگر کرنے کے لیے کافی ہے:
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمیﷺ
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پہ انحصار
قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
علامہ محمد اقبالؒ نے مسلمانوں کو احساس محرومی اور احساس کمتری سے باہر نکالا اور ان کو اس بات کا احساس دلایا کہ برصغیر میں رہنے والے ہندو کسی بھی اعتبار سے ان کی عظمت اور مقام کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ علامہ محمد اقبالؒکے افکار نے مسلمانوں میں نئی زندگی اور لہر کو پیدا فرما دیا۔ علامہ محمد اقبال ؒ کی شاعری صرف اپنے عہد کی شاعری نہیں تھی بلکہ آج بھی جب ہم علامہ ؒ کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہم اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ آپؒ نے دور حاضر کے تمام مسائل کی نشاندہی پہلے ہی اپنی شاعری میں بڑے خوبصورت انداز میں فرما دی تھی۔ دور حاضر میں جب ہم اپنے گردو پیش میں نظر دوڑاتے ہیں تو ہم سیاسی زعماء اور رہنماؤں کو سرمایہ کی ہوس میں مبتلا پاتے ہیں۔ حکومتیں اور سیاست دان اپنے نظریات کو سرمایے کے عوض بیچتے نظر آتے ہیں ۔ علامہ محمد اقبالؒ نے ایمان اور نظریات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ارشاد فرمایا : ؎
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
گویا کہ علامہ محمد اقبالؒ کے نزدیک رزق سے کہیں زیادہ اہمیت انسان کی نظریاتی بلندی اور پختگی کی ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ کے نزدیک سرمایے کے بل بوتے پر آگے بڑھنے والے لوگ اور سرمایے کے عوض اپنے ضمیر کا سودا کرنے والے لوگ کبھی بھی حق پرست نہیں ہو سکتے۔ حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے اس بات کو بہت خوبصورت انداز میں یوں بیان فرمایا : ؎
تعمیر آشیاں سے پایا ہے راز میں نے
اہل نوا کے حق میں بجلی ہے آشیانہ
علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری کے حوالے سے آج کل بعض طبقات تحفظات کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ بعض ناقدین حضرت علامہ اقبالؒ کے کلام پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ علامہ محمد اقبالؒ کا کلام انسان کو نظریاتی اعتبار سے قدامت پسند بنا دیتا ہے اور اس کو تجددسے دور لے جاتا ہے۔ علامہ اقبال ؒ کا کلام یقینا انسان کو ان قدیم نظریات کی طرف لے جاتا ہے جو مسلمانوں کی اساس اور بنیاد ہیںاور کوئی بھی قوم اپنی اساس اور بنیاد سے پیچھے ہٹ کر کبھی بھی ترقی کا سفر نہیں کر سکتی۔ جہاں تک تعلق ہے تجدد کی بات کا‘ تو ایسا تجدد جو مسلمانوں کو بے حیائی اور بے ضمیری پر آمادہ وتیار کرے اس کی علامہ کی فکر اورشاعری میں کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ لیکن علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری مسلمانوں کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونے سے نہیں روکتی۔عصر حاضر کے مسلمانوں کو اپنے ذہن سے اس مغالطے کو باہر نکالنا چاہیے کہ مذہب سے وابستگی ترقی کے راستے میں رکاوٹ ہے۔ حقیقی بات یہ ہے کہ مذہب انسان کو اللہ تعالیٰ سے قریب کرتا ہے اور اس کو اپنی ذات کی معرفت عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی تائید اور اپنی ذات کی معرفت حاصل کرنے کے بعد انسان سائنس، ٹیکنالوجی،صنعت و حرفت کی شاہراہ پر اگر چلنا چاہے تو مذہب اس کو کسی بھی اعتبار سے نہیں روکتا۔ مذہب انسان کو قدرت اور تخلیق کی حقیقت کو بھانپنے اور ان کے اثرات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اور انسان کو ظاہریت پسندی اور مادہ پرستی سے دور لے جاتا ہے۔
علامہ محمد اقبالؒ کی شاعری انسان کو حقیقت شناس بناتی ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں علامہ اقبالؒ کے نظریات ، شعور اور حکمت سے درس حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔