قرآن مجید اللہ تبارک وتعالیٰ کی آخری کتاب ہے ۔جسے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کے قلب اطہر پر نازل فرمایاگیا۔ قرآن مجید کی حفاظت کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۂ حجرکی آیت 9میں ارشاد فرمایا ''بے شک ہم نے ذکر کو نازل کیااور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‘‘ قرآن مجید کی حفاظت کے لیے فقط روایتی طریقوں کو اختیار نہیں کیا گیا۔سابقہ کتب کو لکڑی کی چھالوں، سنگ مرمر کی سلوں اور تختیوں پر لکھا گیاجب کہ قرآن مجید کی حفاظت کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے دھڑکتے دل کو منتخب فرما لیا۔ قرآن مجید میں عقائد ،عبادات، معاملات، معاشرت، حکمرانی، سیاسیات، معیشت اور سماجی زندگی سے متعلقہ کامل رہنمائی موجود ہے۔
قرآن مجید کے مفہوم اور مطلوب کو واضح اور متعین کرنے کے لیے حضرت رسول اللہ ﷺ کے ارشادات عالیہ موجود ہیں۔ قرآن مجید کی کسی بھی آیت کی شرح یا اس کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے کے لیے نبی کریم ﷺ کی سنت اور آپ کی احادیث سے رہنمائی حاصل کرنے کے بعد ا نسان اس حقیقت کو بھانپ لیتا ہے کہ قرآن مجید کی کسی بھی آیت کا حقیقی مفہوم اورمطلوب کیا ہے۔ قرآن مجید کی بہت سی آیات کئی موضوعات کی کامل وضاحت فرماتی ہیں۔ جب کہ بہت سی ایسی آیات بھی قرآن مجید ہی میں موجود ہیں جن کی کامل رہنمائی کے لیے ہمیں احادیث طیبہ اور سنت نبوی ﷺ کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ قرآن مجید میں بہت سے ایسے واقعات بیان کیے گئے ہیںکہ جن کو احادیث طیبہ کی مدد کے بغیرواضح طور پر سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ قرآن مجید کی سورۂ لہب میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابو لہب کے کردار اور اس کی بیوی کا ذکر کیااور ان کے بارے میں شدید مذمت والے الفاظ استعمال کیے۔ ابو لہب نبی کریم ﷺ کا سگا چچا ہونے کے باوجود آپؐ کی عداوت اور دشمنی پرآمادہ وتیار رہا۔ دعوت توحید کی مخالفت کرنا اس کا شیوہ تھا۔ نبی کریم ﷺ کو ایذا دینے میں وہ اور اس کی بیوی پیش پیش رہے۔ اس بات کی وضاحت اور توضیح کے لیے ہمیں کتب سیرت ، کتب تاریخ اور کتب احادیث سے رجوع کرنا پڑتا ہے جب کہ فقط قرآن مجید میں ابولہب کے کردار کی کامل وضاحت موجود نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ فیل میں اصحاب فیل کا ذکر کیا۔ جن پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے پرندوں کے جھنڈکے جھنڈ بھیج کر اپنے عذاب کو مسلط فرمادیا۔ اصحاب فیل کون تھے ؟ ان کا جرم کیا تھا؟ اس بات کی وضاحت قرآن مجید میں نہیں ہے۔ اصحاب فیل اور ان کے جرم کی وضاحت کے لیے ہمیں کتب سیرت، کتب تاریخ اور کتب احادیث سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
قرآن مجید میں بہت سی اہم عبادات کا بھی ذکر ہے۔ ان عبادات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کے مختلف مقامات پر اہم ارشادات فرمائے ہیں۔ ان عبادات میں سرفہرست نماز اور زکوٰۃ ہیں ۔ نماز کی ادائیگی اس کے التزام اور زکوٰۃ کی ادائیگی کے حوالے سے قرآن مجید کے متعدد مقامات پر نصیحتیں موجود ہیں۔ ان نصیحتوں کو پڑھنے کے بعد انسان اس حقیقت کو بھانپ لیتا ہے کہ نماز ادا کرنا اور زکوٰۃ دینا انتہائی ضروری اعمال ہیں۔ نماز کب ادا کرنی چاہیے ‘اس کی کتنی رکعتیں ہیں ؟کسی بھی رکعت میں قیام ،رکوع اور سجدے کے دوران انسان کو کیا پڑھنا چاہیے ؟ ان تمام امور کی تفصیل قرآن مجید میں مذکورنہیں ہے۔ ان باتوں کی وضاحت کے لیے ہمیں احادیث طیبہ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ احادیث طیبہ سے رجوع کرنے کے بعد ہمیں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مسلمانوں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے پانچ نمازوں کو فرض کیا ہے۔ فجر، ظہر، عصر، مغرب،عشاء کی رکعتوں کے بیان کے ساتھ ساتھ ان کی ادائیگی کا کامل طریقہ بھی کتب احادیث میں موجود ہے۔ سورہ نساء کی آیت 103 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امر کا ذکر فرمایا کہ ''بے شک نمازکو وقت مقررہ پر مومنوں پر فرض کیا گیا ہے‘‘لیکن وہ اوقات جن میں مومنوں کے لیے نمازوں کو فرض کیا گیا ہے ان کا ذکر قرآن مجید میں نہیں ہے۔ ان مواقیت کی پہچان کے لیے بھی ہمیںکتب احادیث سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔
نماز کے ساتھ ساتھ جب ہم زکوٰۃ کی ادائیگی کے حوالے سے قرآن مجید کے احکامات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ہم محسوس کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں مختلف اموال تجارت اور ان پر عائید زکوٰۃ کا ذکر نہیں کیا گیا جب کہ زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے کی صورت میں شدید وعید کی گئی ہے۔ زکوٰۃ انسان کی تجارت میں سے بچت کا ڈھائی فیصد حصہ ہے۔ اس بات کی وضاحت قرآن مجید نہیں بلکہ کتب احادیث میں ہے۔
قرآن مجیدکی سورہ آل عمران کی آیت نمبر97 میں حج کی فرضیت کا ذکر کیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ سورہ بقرہ کی آیت نمبر158 میں حج اورعمرے کی ادائیگی کے دوران صفا اور مروہ کی سعی کا بھی ذکر کیا۔ قرآن مجید ہی میں سورہ حج کی آیت نمبر29 میں بیت اللہ شریف کے طواف کا ذکر بھی موجود ہے۔ بیت اللہ شریف کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کا طریقۂ کار اور چکروں کی تعداد کا ذکر قرآن مجید میں مذکورنہیں ہے۔ ان ارکان کی پہچان کے لیے اور صحیح طریقے سے حج اور عمرے کے مناسک کو ادا کرنے کے لیے ہمیں کتب احادیث سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ قرآن مجید کی آیات کی توضیح کے ساتھ ساتھ کتب احادیث میںبہت سے امور کا انفرادی حیثیت میں بھی ذکر موجود ہے۔ بچے کی ولادت کے بعد اس کا نام رکھنا، اس کا عقیقہ کرنا اوراس کے بالوں کو کٹوانا، ان تمام امور کا ذکر علیحدہ سے کتب احادیث میں موجود ہے۔ اسی طرح نکاح کے موقع پر گواہوں کا موجود ہونا اور تمام نکاحوں میں ولی کی اجازت اوربالخصوص کنواری لڑکی کے لیے ولی کی اجازت کی تاکید کا ذکر بھی کتب احادیث میں موجود ہے۔ جنازے کے موقع پر مردے کو کفن دینا ، اس کے غسل کا اہتمام کرنا اس کو کفن پہنانا، اس کے جنازے کی ادائیگی کے لیے نماز جنازہ اداکرنا اس کی تدفین کے لیے قبر کھودنا اسے دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر اس کے لیے دعائے مغفرت اداکرنا ان تمام امور کا ذکر انفرادی حیثیت سے کتب احادیث میں موجود ہے۔
مسلمان جب اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا چاہتا ہے ۔ تو جہاں پر اسے قرآن مجید کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوطی کے ساتھ استوار کرنا پڑتا ہے وہیں پر اسے احادیث طیبہ کے ساتھ بھی اپنے تعلق کو استوار کرنے کی جستجو کرنا پڑتی ہے۔ بعض لوگ احادیث طیبہ کو نظر انداز کرکے تنہا قرآن مجید، ہدایت کے لیے کافی سمجھتے ہیں اور ان کا یہ خیال ہے کہ قرآن مجید کی شرح کے لیے احادیث یا سنت کے ٹکرے کی ضرورت نہیں ہے‘ ایسے لوگوں کی فکر میں کجی موجود ہے۔ قرآن مجید یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی فصیح وبلیغ اور آخری کتاب ہے اور اپنے اندر معنی، مفاہیم، مطالب، نصائح اور احکامات کے سمندر کو لیئے ہوئے ہے لیکن قرآن مجید پر صحیح طور پر عمل کرنے کے لیے حضرت رسول اللہ ﷺ کی احادیث طیبہ سے رہنمائی حاصل کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر21 میں حضرت رسول اللہ ﷺ کے اسوہ کے اسوہ حسنہ ہونے کا ذکر کیا۔ اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت نمبر31 میںاللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی اتباع کرنے والے شخص کو اپنے محبوب بنانے کا ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر80 میں اس بات کو ارشاد فرمایا کہ جو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرتا ہے درحقیقت وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے۔ قرآن مجید کی سورہ نور کی آیت نمبر63 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس بات کا بھی ذکر کیا کہ جو نبی کریم ﷺ کے اوامرکیـ مخالفت کرتا ہے اسے کو ڈر جانا چاہیے کہ وہ فتنے یا عذاب الیم کا نشانہ بنے گا۔ کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ پر عمل پیرا ہونے کے بعد انسان دین اسلام پر صحیح طرح عمل پیرا ہو سکتا ہے۔ دین اسلام کا صحیح فہم، شعور اور آگاہی حاصل کرنے کے لیے انسان کو کتاب اللہ اور سنت رسولﷺ کے ساتھ تمسک کو اختیار کرنا چاہیے۔ اگر وہ کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کے ساتھ وابستگی کو اختیار کرے گا تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے ہدایت، رہنمائی ،علم،حکمت اور فلاح کے دروازوں کو کھول دیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ کے ساتھ مضبوط تعلق کو صحیح معنوں میں استوار کرنے کی توفیق دے۔ آمین ثم آمین