"AIZ" (space) message & send to 7575

آغازِ تخلیقِ انسانیت

انسان کے ذہن میں ہمیشہ سے یہ سوال ابھرتا رہا ہے کہ وہ زمین پر کب آباد ہوااور اس کی پیدائش کا مقصد کیا ہے؟ اس حوالے سے مختلف علوم کے ماہرین نے اپنے اپنے تصورات کو انسانوں کے سامنے رکھا لیکن یہ تمام کے تمام تصورات کسی نہ کسی اعتبار سے نا مکمل اور تشنہ تھے۔ انسانوں کی تہذیب ،تمدن اور معاشرت کے حوالے سے اس قسم کی باتیں بھی منظر عام پر آئیں کہ انسان کسی دوسری مخلوق سے ترقی کرتا کرتا موجودہ شکل میں منتقل ہوا۔ ارتقاء کا فلسفہ یورپ اور سائنس کے طالب علموں میں ایک عرصے تک بہت مقبول رہا۔ اس تصور پر تنقید بھی کی گئی اور اس کی تائید بھی کی گئی۔ قرآن مجید اس اعتبار سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی منفرد کتاب ہے جس نے ان تمام سوالوں کا جواب نہایت خوبصورت انداز میں دیا ہے۔ جب ہم سورہ بقرہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو اس میں ان تمام سوالوں کا جواب مل جاتا ہے کہ انسان کی پیدائش کب‘کیوں اور کیسے ہوئی؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ میں اس بات کا ذکر کیا کہ انسانوں کی تخلیق سے قبل زمین پرجنات آباد تھے۔ ان جنات نے زمین پر سرکشی اور بغاوت کی ۔ اس سرکشی اور بغاوت کو کچلنے کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرشتوں کی ایک جماعت جس میں ابلیس بھی شامل تھاکو زمین پر روانہ کیا۔ ابلیس اگرچہ اپنی ذات کے اعتبار سے جنات میں سے تھا لیکن مسلسل بندگی کی وجہ سے وہ فرشتوں کا ہم نشین ہو چکا تھا۔ ابلیس اور فرشتوں کی جماعت نے اس بغاوت کا قلع قمع کردیالیکن اس بغاوت کو کچلنے کے بعد ابلیس کے دل میں خفیہ تکبر کی کیفیت پیدا ہو گئی جس سے اللہ رب الکریم پوری طرح آگاہ تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس موقع پر 
انسانوں کی تخلیق کا فیصلہ فرمایا اور فرشتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا میں زمین پر ایک خلیفہ پیدا کرنے والا ہوںفرشتے اس سے قبل زمین پر جنات کی یورش کو دیکھ چکے تھے۔ چنانچہ انہوں نے کہا اے اللہ کیا تو زمین پر اسے پیدا کرے گا جو خون بہائے گا اور فساد پھیلائے گا جب کہ ہم تیری تقدیس و تعریف میں مشغول رہتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کہا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو مٹی سے بنانے کے بعد اسے علم کی دولت سے بہرہ ور فرمایا اور اس کوجملہ اشیاء کے ناموں سے آگاہ کر دیا۔ اس کے بعد فرشتوں اور آدم علیہ السلام کو جمع کرکے بعض اشیاء کے ناموں کے بارے میں ان سے سوالات کیے۔ چونکہ فرشتے ان اشیاء سے بے خبر تھے اس لیے انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی پاکیزگی کا اعتراف اور اپنی عاجزی کا اظہار کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ان اشیاء کے ناموں کا بتلانے کا حکم دیا تو انہوں نے ان اشیاء کے نام فوراً بتلا دیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرشتوں کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے تم کو نہیں کہا تھا کہ میں زمین وآسمان کی پوشیدہ باتوں کو جانتا ہوں اورجو تم ظاہر کرتے اورچھپاتے ہو اس کو بھی جانتا ہوں۔ جب آدم علیہ السلام کی فضیلت ثابت ہو گئی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم علیہ السلام کے سامنے جھک جائیں ۔ فرشتوں میں چونکہ سرکشی نہیں ہوتی اس لیے تمام فرشتے آدم علیہ السلام کے سامنے جھک گئے۔ تاہم ابلیس نے آدم علیہ السلام کی فضیلت کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور اللہ تعالیٰ سے کہنے لگا کہ میں ان سے بہتر ہوں اس لیے کہ تو نے ان کو مٹی سے پیدا کیا جب کہ مجھے آگ سے پیدا کیا۔ اس تکبر پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابلیس کو ذلیل وخوار کر کے اپنی رحمت سے دور فرما دیا اور آدم علیہ السلام کو ان کی اہلیہ کے ساتھ جنت میں آباد فرما دیا۔ ابلیس نے اس موقع پر اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ رہتی دنیا تک آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت کو راہ ہدایت سے بھٹکانے کے لیے سرگرم رہے گا اور ان کو کبھی آگے سے‘ کبھی پیچھے سے اور کبھی دائیں بائیں سے مختلف فتنوں میں مبتلا کرنے کی کوشش کرے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس موقع پر ابلیس کو کہا کہ میرے بندوں پر تیرا زور نہیں چل سکتا‘ مگربھٹکے ہوئے لوگوں کو تو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کوان کی اہلیہ کے ہمراہ جنت میں آباد فرما دیا ۔ان کو جنت میں ہر چیز کھانے پینے کی اجازت دے دی گئی مگر ایک مخصوص درخت کے قریب جانے سے اور اس کا پھل کھانے سے روک دیا۔ ابلیس جو آتشِ انتقام میں جل رہا تھا اس نے آدم علیہ السلام اور جناب حوا کے دل میں وسوسہ ڈالا کہ آپ کو اس درخت سے اس لیے روکا گیا ہے کہ کہیں آپ کو ہمیشہ کی زندگی حاصل نہ ہو جائے یا آپ فرشتے نہ بن جائیں۔ آدم علیہ السلام اور ان کی اہلیہ حوا وسوسے میں مبتلا ہو کر شجر ممنوعہ کے پھل کو کھا لیتے ہیں۔ اللہ 
تبارک وتعالیٰ نے اس موقع پر ان سے جنت کی نعمتوں کو واپس لے لیا اور ان کو جنت سے زمین پر اُتار دیا۔ آدم علیہ السلام اور حوا نے جب معاملے پر غور کیا تو اس بات کو بھانپ گئے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی مغفرت اوررحمت کو طلب کرنے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہو سکتی ہے۔ 
انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر جو دعا مانگی اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعراف کی آیت نمبر23 میں بیان فرمایا ہے۔ انہوںنے کہا اے ہمارے پروردگار ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تونے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم یقینا خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام اور سیدہ حوا کی دعا کو قبول ومنظور فرمالیا اور ساتھ ہی اولاد آدم یعنی بنی نوع انسان کو مخاطب ہو کر یہ بات کہی کہ اے بنی آدم تمہیں شیطان فتنے میں مبتلا نہ کر دے جس طرح اس نے تمہارے بابا آدم اور حواکو زمین پر منتقل کر دیا۔ 
تخلیق انسانیت کے مقاصد پر جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آجا تی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کو زمین پر بلا مقصدنہیں اتارا۔ بلکہ اس کے پیچھے بڑا مقصد یہ تھا کہ انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی نصیحت ‘ اس کی وحی اور اس کی طرف سے نازل کردہ تعلیمات پر عمل کرے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے زمین پر اس کے دشمن ابلیس اور اس کے لشکر کو بھی آزمائش کے لیے آباد کیا۔ ابلیس اور اس کا لشکر انسانوںکو گناہوں کی دلدل میں دھکیلنے کے لیے ہر وقت سرگر م عمل رہتا ہے۔ وہ ان کو اعتقادات، معاملات، عبادات، معاشرت اور دیگر بہت سے معاملات میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تعلیمات سے غافل کرکے ان کو راہ ہدایت سے بھٹکانا چاہتا ہے۔ ابلیس اور اس کے لشکر کا بنیادی ہدف یہ ہے کہ انسانوں کو تباہ وبرباد اور ناکام کرکے ان کو اس دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی تعلیمات سے غافل کر دیا جائے اور آخرت میں ان کو جہنم کے گڑھے میں گرا دیا جائے۔ 
اللہ تبارک وتعالیٰ نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے بہت ہی خوبصورت بندوبست فرمایا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی روحانی تشنگی کو دور کرنے کے لیے مختلف ادوار میں انبیاء علیہم السلام کو بھیجتے رہے اور ان پر کتابوں کا نزول بھی فرماتے رہے اورسب سے آخر میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو جمیع انسانیت کا مقتدیٰ اور پیشوہ بنا کر مبعوث فرما دیا۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ تبار ک وتعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید کا نزول فرما دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید پر عمل پیرا ہو کر جمیع انسانیت کو یہ بات سمجھائی کہ کس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت اس کی رحمت اور اس کے فضل کوحاصل کیا جا سکتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہونے سے قبل اس بات کو اچھی طرح واضح فرما گئے کہ آپ اہل اسلام کے پاس دو چیزوں کو چھوڑ کر جا رہے ہیں ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور دوسری ان کی سنت ہے۔ جب تک ہم ان کو تھامے رہیں گے کبھی گمراہ نہیں ہو سکتے۔ 
اللہ تعالیٰ کی آخری کتاب اور سنت مطہرہ شیطان لعین کے فتنوں اور اس کی چالوں سے بچا کر صحیح اور درست راستے میں گامزن ہونے کے لیے پوری طرح کفایت کرتی ہے ۔ بنی نوع انسان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فیصلے کا اختیار دیا ہے کہ وہ اپنے لیے دایاں راستہ چننا چاہتے ہیں یا بایاں۔ وہ جنت کے راستے پر چلنا چاہتے ہیں یا جہنم کے گڑھے میںگرنا چاہتے ہیں۔ بنی نوع انسان اگر اپنی تخلیق کے مقصد کو سمجھ جائیں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ ان کو دنیا میں بھی خوشگوار اور اطمینان بخش زندگی عطا فرما دیں گے اور آخرت میں بھی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کریں گے۔اس کے برعکس اگر بنی نوع انسان غفلت اور گمراہی کا شکار ہو کر شیطان کی چالوں میں آجائیں تو اپنے ازلی دشمن کی خواہش اور ارادوں کی تکمیل کا سبب بن جائیں گے۔ شیطان تخلیق انسانیت کے دن ہی سے ہمارے باپ آدم علیہ السلام اور ہماری ماں حضرت حوا کا دشمن تھا یہ دشمنی ازل سے لے کر ابد تک جاری رہے گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سے محبت کرنے والے اور ہمیں اپنی رحمت کی طرف بلانے والے ہیں۔ زمین پر رہتے ہوئے اپنے مقصد تخلیق کو پہچاننا یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ جو مقصد تخلیق کو بھانپ لے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو دنیا میں بھی کامیاب وکامران کر دیں گے اور آخرت کی سربلندیاں بھی اس کے قدم چومیں گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں مقصد تخلیق کو سمجھنے کی توفیق دے۔ آمین۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں