جماعۃ الدعوۃ ملک کی ایک منظم تنظیم ہے جس کے سربراہ حافظ محمد سعید ہیں۔ ان کے رفقاء مختلف دعوتی، سماجی اور خدمت خلق کی سرگرمیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ حال ہی میں حافظ محمد سعید اور ان کے رفقاء نے علماء اور دین کے داعیوں کی تربیت کے لیے چند ماہ پر مبنی تربیتی کورس کا اہتمام کیا جس میں ملک بھر سے دینی مدارس کے فارغ ہونے والے طلبا نے شرکت کی۔ کورس کے دوران ان کی تربیت اور مختلف علوم وفنون میں ان کی ترقی کے لیے بہترین انتظامات کیے گئے۔ 12مئی کو کورس کے اختتام پر پُروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں حافظ محمد سعید، سیدضیاء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبدالغفار روپڑی، مولانا عبدالستار حماد، قاری صہیب میر محمدی اور دیگر بہت سے جید علماء شریک ہوئے۔ مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی۔ تمام علماء نے اپنے اپنے انداز میں اپنی آراء کو رکھا، میں نے بھی چند گزارشات علماء اور دین کے داعیوں کے سامنے پیش کیں جن کا خلاصہ چند اہم نکات کے اضافے کے ساتھ درج ذیل ہے:
دین عقائد، عبادات، معیشت، معاشرت، تہذیب، حکومت، سیاست، عائلی اور اجتماعی زندگی کے تمام معاملات میں کامل رہنمائی اور انسانوں کو منشائے الٰہی سے پوری طرح آگاہ کرتا ہے۔ ان معاملات سے متعلق اہم اصولوں کی معرفت انسانوں کو جبھی حاصل ہو سکتی ہے جب وہ علم سے بہرہ ور ہوں گے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ مجادلہ کی آیت نمبر11 میں اہل علم کے درجات کو باقی لوگوں کے مقابلے میں برتر قرار دیا اس لیے کہ اہل علم ان حقائق سے آگاہ ہوتے ہیں جن سے عام لوگ آگاہ نہیں ہوتے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں جہاں تخلیق آدم علیہ السلام کا ذکر کیا وہاں فرشتوں پر انسان کی فضیلت کو بھی بیان فرمایا اور حضرت آدم علیہ السلام کو زیادہ علم عطا فرما کر فرشتوںکو ان کے سامنے جھکنے کا حکم دیا اور واضح فرما دیا کہ اصل برتری علم کی ہے۔ علم چونکہ اشیا کی حقیقت کو سمجھنے کا موثر ترین ذریعہ ہے اس لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے نعمت علم سے اپنے انبیاء کو مالا مال فرمایا۔ پیغمبروں نے چونکہ براہ راست اللہ تعالیٰ سے علم حاصل کیا اس لیے ان کا علم ہر اعتبار سے قابل بھروسہ اور قابل اعتماد تھا۔ اس علم کے ذریعے انبیاء علیہم السلام نے حق اورباطل، ہدایت اورگمراہی، سیدھے اور ٹیڑھے راستوں کا فرق واضح فرمایا اور انسانوں کو صحیح راستے پر چلنے کا درس دیا۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس علم کی روشنی سے جزیرۃ العرب کو منور فرما دیا اور ایک ایسے معاشرے کی بنیاد رکھی جس میں جاہلیت کے اندھیروں اور تمام باطل رسوم و رواج کوکلی طور پر ختم کر دیا گیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین بھی مادیت کے مقابلے میں علم ہی کی دولت سے بہرہ ور تھے۔ حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اورحضرت علی رضوان علیہم اجمعین کے مثالی دور حکومت کا ان کی علمی صلاحیتوںسے انتہائی گہرا تعلق ہے۔ خلفائے راشدین علم کی روشنی میں لوگوں کے درمیان فیصلے فرماتے رہے، اس لیے ان کے فیصلوں اور طرز حکمرانی میں ظلم اور ناانصافی کا معمولی سا بھی شائبہ نہیں تھا۔
قرآن مجید کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حاکم اور قائد کے لیے علم کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں حضرت شموئیل علیہ السلام کے عہد کا ذکر فرمایاکہ بنی اسرائیل کے لوگوں نے ان سے ایک بادشاہ کا مطالبہ کیا کہ جس کی قیادت میں وہ اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کر سکیں۔ اس پر حضرت شموئیل علیہ السلام نے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس منصب کے لیے جناب طالوت کو چن لیا ہے۔ بنی اسرائیل آگاہ تھے کہ جناب طالوت صاحب ثروت نہیں ہیں؛ چنانچہ انہوں نے جناب شموئیل علیہ السلام کے سامنے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جناب طالوت ہمارے حاکم کس طرح ہوسکتے ہیں جبکہ وہ صاحب مال نہیں ہیں۔ حضرت شموئیل علیہ السلام کا جواب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جناب طالوت کو تم پر فضیلت دی ہے اور ان کو علم اور طاقت میں وسعت عطا فرمائی ہے۔ اس صحیح انتخاب کا یہ نتیجہ نکلا کہ اللہ کے فضل سے جناب طالوت کی قیادت میں بنی اسرائیل کے لوگ اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن پر غالب آگئے۔ اگر قیادت کے حوالے سے قرآن وسنت میں موجود اہلیت کو اہمیت دی جائے تو معاشروں کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ ایک صاحب علم حاکم میں مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی صلاحیت ایک بے علم یا کم علم حاکم کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتی ہے۔ قرآن مجید کی سورہ زمرکی آیت نمبر 9 میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں،کیا جاننے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ فاطر کی آیت نمبر28 میں ارشاد فرمایا کہ بے شک اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے اس کے عالم بندے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم کے ذریعے انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت اور معرفت کے درجات کو کامیابی سے طے کر لیتا ہے۔
علم اور علماء کی فضیلت کے ساتھ ساتھ یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ علماء کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں علماء کو فضائل سے نوازا ہے وہاں ان کے ذمہ بہت سے کام بھی ہیں۔ پہلا کام یہ ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کی دعوت دیں اور لوگوں کو اس کی توحید اور اس کی وحدانیت کا سبق پڑھائیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر 33 میں ارشاد فرما دیا کہ اس سے بہتر بات کس کی ہو سکتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دیتا ہے‘ نیک عمل کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ بیشک میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ علماء اللہ کے دین کی دعوت دیے بغیر اپنی علمی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ نہیں ہو سکتے۔ جہاں علماء کی ذمہ داری اللہ تبارک و تعالیٰ کی توحیدکی دعوت دینا اور شریعت کے معاملات سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے وہیں ان پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ جب وہ دین کی دعوت دیں اور شریعت سے لوگوںکو آگاہ کریں تو ان کے رویے میں سختی اور تلخی کی بجائے حکمت اور خوش اسلوبی کا پہلو غالب ہونا چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ نحل کی آیت نمبر 125 میں ارشاد فرمایا کہ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ دعوت دو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام جب فرعون کے پاس آئے تو ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ نصیحت فرمائی کہ فرعون کے ساتھ نرم انداز میں بات کرنا شاید کہ وہ نصیحت حاصل کرلے یا اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈر جائے۔ علماء کی ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری یہ بھی ہے کہ جو دین کا علم ان کو حاصل ہے اس کو بغیر کسی کمی بیشی کے لوگوں تک منتقل کریں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی آیات کو چھپانا بڑے گناہ کا کام ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 159 میں ایسے لوگوں پر لعنت کی ہے جو اللہ تبارک وتعالیٰ کی نازل کردہ وحی کو چھپاتے ہیں۔
علماء کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کو سستے داموں فروخت کرنے سے گریز کریںاور اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین کو بغیر کسی خوف اور لالچ کے لوگوں تک منتقل کرتے رہیں۔ ان پر ایک بہت بڑی ذمہ داری یہ بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے دین میں سے جس بات کو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں اس پر ان کا اپنا بھی عمل ہونا چاہیے۔ اللہ تبار ک وتعالیٰ نے سورہ صف کی آیت نمبر 2 اور 3 میں ایسے لوگوں کی مذمت کی ہے جو ایسی بات کرتے ہیں جس پر ان کا اپنا عمل نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر44 میں اس بات کا ذکر فرمایا کہ کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنی ذاتوں کو بھلا دیتے ہو جبکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم عقل نہیں کرتے۔ گویا عالم دین کی بہت بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ دین کی بات جو خود سمجھتا اور پڑھتا ہے اِس پر اس کو عمل پیرا بھی ہونا چاہیے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہودی علماء کا ذکر کیا جو تورات کو پڑھنے کے بعد اس کی تعلیمات کو اور اس کے ارشادات کو بھلا دیتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایسے علماء کو گدھے کے مشابہ قرار دیا ہے جن پر صرف کتابوں کا بوجھ ہوتا ہے۔ علماء کی فضیلت کتاب وسنت سے ثابت ہے۔ علماء کو چاہیے کہ اپنی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے ادا کریں جو شریعت مطہرہ نے ان پر عائد فرمائی ہیں۔