خلافت کے خاتمے کے بعد پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی ایک ایسی ریاست تھی جس کا قیام خالصتاً نظریاتی پس منظر میں ہوا۔ تحریک پاکستان کے قائدین نے مسلمانانِ ہند کی بیداری کے لیے طویل عرصے تک جدوجہد کی۔ کئی عشروں کی جدوجہد کے بعد بالآخر 14اگست 1947 ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ پاکستان کے قیام کاایک مقصد جہاں پر مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کرنا تھا وہیں پر اس کا بڑا اوربنیادی مقصد یہ تھا کہ ایک ایسی ریاست کو قائم کیا جائے جس میں برصغیر کے مسلمان کتاب وسنت کی آفاقی تعلیمات کے مطابق اپنی زندگیوں کو بسر کرسکیں۔
اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو مسلمانوں کو زندگی گزارنے کا مکمل طریقہ بتلاتا ہے۔ اس میں جہاں عقائد، عبادات، معاملات اور معاشرتی حوالے سے کامل رہنمائی کی گئی ہے وہیں پر اس میں حکومت اور نظم ونسق چلانے کے بھی مکمل آداب موجود ہیں۔ حضرت رسول اللہ ﷺ نے اپنی حیاتِ مبارکہ میں ہی جزیرۃ العرب میں اسلامی حکومت قائم کی۔ اس حکومت میں جہاں پر اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور اس کی بندگی کو یقینی بنایا گیا وہاں پر ظلم اور استحصال کا بھی خاتمہ کیا گیا۔ مظلوم کے حقوق اس کو دلوانے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں تک عوام کی رسائی کو یقینی اور آسان بنایا گیا۔ حدود اللہ کے نفاذ کے ذریعے جرائم کے خاتمے کے لیے بہترین نظام متعارف کروایاگیا۔ قانون قصاص کی برکت سے قتل و غارت گری کا خاتمہ ہوا، زنا کی حد مقرر کرنے سے بدکرداری کا خاتمہ ہوا، قذف کی حد کی وجہ سے جھوٹے الزامات کا خاتمہ ہوا اور شراب نوشی کی حد کی وجہ سے منشیات کا خاتمہ ہوا۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیبﷺ نے ان کو بیٹی کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ اسی طرح زمانہ جاہلیت میں لوگ چھوٹے چھوٹے اختلافات کی وجہ سے ایک دوسرے کی جان کے در پہ ہو جاتے ،انانیت اور خودپسندی اپنے پورے عروج پر تھی۔ نبی کریمﷺ نے انسانوں کو ہمدردی اور ایثار کا سبق پڑھایا اور انسانوں کو ایک دوسرے کے احترام کے سنہری اصولوں سے آگاہ کیا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین باہم شیر وشکر ہوئے اور ایک دوسرے کے احترام ، عزت اور وقار کو ہمہ وقت ملحوظ خاطر رکھا جاتا۔ حضرت رسول اللہ ﷺ کی حیات مبارکہ میں قائم ہونے والی غیر معمولی حکومت کو آپ ﷺ کے دنیا سے رخصت ہو جانے کے بعد بھی آپ ہی کے بیان کردہ اصولوں کے تحت آپ کے خلفاء بھی برقرار رکھنے کی جستجو کرتے رہے۔ حضرت ابوبکرصدیق، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے مثالی حکومت کی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید سے لوگوں کو روشناس کرتے رہے اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی شریعت کو نافذ کرتے رہے، مسلمانوں کے دشمن اس مثالی طرز حکومت اورنظم ونسق کو دیکھ کر ہمیشہ مسلمانوں کے دباؤ میں رہے۔ مسلمانوں کو کتاب وسنت پر عمل پیرائی کی وجہ سے طویل عرصے تک دنیا پر غلبہ حاصل رہا ۔ بالآخر رفتہ رفتہ کتاب وسنت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دینے کی وجہ سے مسلمان زوال کا شکار ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ دنیا پر حکومت کرنے والے مسلمان دنیا کے بہت سے مقامات پر انتہائی مغلوبیت اور مسکنت کی زندگی گزارنے پر مجبو ر ہوئے۔
پاکستان کا قیام جہاں پر برصغیر کے مسلمانوں کے لیے حوصلے اور خوشی کا سبب تھا وہیں پر دنیا بھر کے مسلمانوں کی توجہ بھی اس طرف مرکوز ہوئی کہ اسلام کے نام پر بننے والی یہ ریاست جہاں پر برصغیر کے مسلمانوں کا دفاع کرے گی وہیں پر امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرے گی۔ بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ ایک سازش کے تحت پاکستان کو عملی طور پر اسلامی فلاحی ریاست بننے سے روکا جاتا رہا۔ علمائے دین اور دینی جماعتیں اس حوالے سے اپنا کردار کرتی رہیں لیکن سرمایہ دار، جاگیر دار اورطبقہ اشرافیہ کے اثر ورسوخ اور ملی بھگت کی وجہ سے دینی جماعتیں کما حقہ بڑے پیمانے پر سیاسی کامیابی حاصل کرنے میں ناکام رہیں۔ بڑے پیمانے پر سیاسی کامیابی نہ ملنے کا ایک بڑا سبب فرقہ وارانہ اختلافات بھی تھے۔ قومی اتحاد کی تشکیل کے موقع پر دینی جماعتوں نے فرقہ وارانہ اختلافات کو فراموش کر کے حضرت رسول اللہ ﷺ کے نظام کے نفاذ کے لیے جب اپنے اپنے کو پیش کیا تو عوام کی بڑی تعداد نے ان کی تائید کی۔ قومی اتحادکے قیام کے بعد بھی متحدہ مجلس عمل کی شکل میں دینی جماعتوںکو بڑے پیمانے پر عوام کی تائید حاصل ہوئی۔یہ حقیقت ہے کہ دینی جماعتوں کا اتحاد اور اجتماع ہمیشہ عوام کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کروا لیتا ہے لیکن بدنصیبی سے ماضی میں یہ اتحاد دیر پا ثابت نہیں ہوئے ۔ پاکستان مسلم لیگ(ن)اس اعتبار سے پاکستان کی ایک منفرد جماعت ہے کہ جس کو دینی طبقات کی بڑے پیمانے پر حمایت حاصل رہی ہے لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک عرصے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) دینی جماعتوں کے جذبات اور نظریات کی ترجمانی کرنے سے قاصر رہی ہے۔ حالیہ دور حکومت میںمسلم لیگ (ن)کے زعماء نے پنجاب اسمبلی میں تحفظ خواتین بل کو منظور کر کے اور ممتاز قادری کو پھانسی دے کر دینی جماعتوں کے جذبات کو زبردست ٹھیس پہنچائی جس کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر دینی جماعتوں کو باہم ایک دوسرے سے رابطے کرنے پڑے۔ دینی جماعتوں کے اس رابطے کے نتیجے میں منصورہ،مرکز القادسیہ اور دیگر مقامات پر علماء کے اجتماعات کا انعقاد کیا گیا ۔ دینی جماعتوں کی سٹیرنگ کمیٹی کے ساتھ ساتھ رہبر کمیٹی کو بھی تشکیل دیا گیا۔ دینی جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے اجلاس میں اس بات کو طے کیا گیا کہ ابتدائی طور پر ملک کے بڑے شہروں کے ہالوں میں کنونشنز کاانعقاد کیا جائے گا جس میں نظام مصطفیﷺ کی برکات سے لوگوںکو آگاہ کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں پہلا کنونشن16مئی کو راولپنڈی میں منعقد ہوا۔ راولپنڈی میں ہونے والے کنونشن میں جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق، جماعۃ الدعوۃ کے امیر پروفیسر حافظ محمد سعید تنظیم اسلامی کے سربراہ جناب حافظ عاکف سعید اور دیگر مذہبی رہنماؤں نے شرکت کی۔ کنونشن میں عوام کا جوش وجذبہ دیدنی تھا۔ میںنے اس موقع پر شرکاء کنونشن کے سامنے جن خیالات کا اظہار کیا انہیں کچھ نکات کے اضافے کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں:
قیام پاکستا ن کا مقصد صرف اور صرف مسلمانوں کے بعض سیاسی اور سماجی حقوق کا دفاع اور ان کو زندگی کی بنیادی سہولیات کو فراہم کرنا نہیں تھا، ہسپتال، تعلیمی ادارے، سڑکوں کا نیٹ ورک دنیا کے ہر معاشرے میں موجود ہوتا ہے۔ ہر مذہب کے ماننے والے ان سہولیات کو عوام تک منتقل کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں نے فقط ان سہولیات کو حاصل کرنے کے لیے جدوجہد نہیں کی تھی بلکہ اس کا بہت بڑا مقصد حضرت رسول اللہﷺ کے عطا کردہ نظام کو نافذ کرنا تھا۔ 69 برس بیت جانے کے باوجود بھی ملک میںعملاً اسلامی نظام کا نفاذ نہ ہو سکا ۔اس وقت بدقسمتی سے بڑے شہروں میں قحبہ گری کے اڈے بھی موجود ہیں ،سودی بینکاری نظام بھی موجود ہے اور اسلام کا نظام عدل بھی صحیح معنوں میں اپنی اصل روح کے ساتھ نظر نہیں آتا، لاقانونیت اپنے پورے عروج پر ہے، قتل وغارت گری ،سٹریٹ کرائمز اور جرائم بھی اپنے پورے عروج پر ہیں۔ موجودہ سیاسی جماعتیں عوام کے مسائل کو حل کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکیں۔ اس ساری صورتحال میں دینی جماعتوں کو متحد ہو کر نبی کریمﷺ کے نظام کے نفاذ کے لیے جستجو کرنی چاہیے۔ اگر نبی کریمﷺ کا نظام صحیح معنوں میں اپنی روح کے ساتھ نافذ کر دیا جائے تو جرائم کا کلی طور پر خاتمہ ہو سکتا ہے، دہشت گردی پر قابو پایا جا سکتا ہے، معیشت کی صورتحال کو بہتر بنایا جا سکتا ہے اور ملک میں امن وامان قائم کیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے تمام دینی جماعتوں کو متحد ہو کر جدوجہد کرنی چاہیے۔ اگر دینی جماعتیں آئین اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے صحیح معنوں میں عوام الناس کو اس مقصد کے لیے تیار کرنا چاہیں تو ان کو عوام الناس کی بھرپور تائید حاصل ہو سکتی ہے۔ حاضرین نے میرے خیالات کو بہت سراہا۔ عوام الناس موجودہ صورتحال میں سیاسی جماعتوں کے طرز عمل سے انتہائی نالاں ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی تیسرا آپشن سامنے آئے ۔ اس تیسرے آپشن کو فراہم کرنے کے لیے دینی جماعتوں کے قائدین کو متحد ہو کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔تاریخ کے اس موڑ پر اگر دینی جماعتوں کے قائدین متحد ہو کر عوام الناس کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار کرتے ہیں تو عوام الناس یقینا ان کی تائید کے لیے تیار ہیں۔اگر دینی جماعتوں نے اس موقع پر دانشمندی اور اتحاد کا مظاہرہ نہ کیا تو تاریخ کے اس دوراہے پرجہاںدینی جماعتیں اپنی سیاسی افادیت اور حمایت کو گنوا دیں گی بلکہ مستقبل میں بھی اِس کو حاصل کرنے میں باآسانی کامیاب نہ ہو سکیں گی۔