کچھ دنوں سے پاکستان میں بہت زیادہ گرمی پڑرہی ہے۔ شدت کی گرمی سے بچنے کے لیے ہر انسان اپنی اپنی استعداد اور بساط کے مطابق جستجو اور کوشش کرتا ہے۔ جن کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے مال عطاء کیا ہے وہ اس گرمی سے بچاؤ کے لیے ائیر کنڈیشنز اور ریفریجریٹرز کا استعمال کرتے ہیں تاکہ ٹھنڈی ہوا اور ٹھنڈے مشروبات کے ذریعے گرمی کی تلخی کو دور کیا جا سکے۔ جن لوگوں کے پاس کے وسائل کم ہیں وہ بھی کولر اور بازار سے خریدی ہوئی برف کا استعمال کرکے گرمی کی شدت کا مقابلہ کرنے کی جستجو کرتے ہیں۔ گرمی کی شدت سے بچاؤ کے لیے موسم کے اعتبار سے کپڑوںاور غذا کا انتخاب بھی کیا جاتا ہے۔
انسان دنیا کی اس گرمی سے بچاؤ کے لیے بہت زیادہ جدوجہد کرتا ہے لیکن جہنم کی آگ سے بچاؤ کے لیے کوشش کرنے والے لوگ تعداد میں بہت کم ہیں۔ حالانکہ جہنم کی آگ کے لپکتے ہوئے شعلوں اور دنیا کی حدت کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ۔ انسانوںکی اکثریت کوتاہ بینی کا مظاہرہ کرتا ہے اور دوراندیشی سے معاملات کا جائزہ لینے کی جستجو نہیں کرتی۔ انسان بالعموم ان اشیاء پر غور کرتا ہے جو اس کے گردو پیش میں موجود ہیں یامستقبل قریب میں اس کے سامنے آنے والی ہیں۔ بدنصیبی کی بات یہ ہے کہ انسان اپنی اس زندگی جس کے بعد کبھی موت نہیں آئے گی میں کامیاب ہونے کے لیے کما حقہ جستجو نہیں کرتا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کی کتاب کا مطالعہ اور احادیث طیبہ پر غور وغوض کرنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ کوئی بھی شخص اللہ تبارک وتعالیٰ کی بنائی ہو ئی آگ سے تقویٰ اور تزکیہ نفس کے ذریعے بچ سکتا ہے اوراس کے فضل وکرم سے اس کی بنائی ہوئی جنت میں داخل ہو سکتا ہے۔ نفس انسانی میں مختلف چیزوں کی رغبت پائی جاتی ہے ۔ یہ ترغیب وتحریص ، لالچ اور کشش درحقیقت اس دنیا میں رہتے ہوئے انسان کا امتحان ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید کے تیسویں پارے کی سورت نازعات کی آیت نمبر40میں اس حقیقت کو بیان کیا کہ جو شخص اپنے پروردگار کے مقام سے ڈر گیا اور اس نے اپنے آپ کو خواہش سے بچا لیا ایسے شخص کا ٹھکانہ جنت ہوگی۔ اس کے مدمقابل جو شخص خواہشات کی پیروی کرتا رہے گا اور ہر مرغوب چیز کو استعمال یا حاصل کرنے کی جستجو کرتا رہے گا وہ آگ کے انگاروں سے بچنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ تقویٰ لغوی اعتبار سے ان اشیاء سے بچنے کا نام ہے جو کسی چیز کو تکلیف دینے والی یا نقصان پہنچانے والی ہوں لیکن شرعی اعتبار سے تقویٰ کا مطلب اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتے ہوئے اللہ تبارک وتعالیٰ کے اوامر اور اس کے حبیب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات پر عمل پیرا ہونا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو دل اور جوارح عطاء کیے ہیں۔ دل اور جوارح سے بیک وقت گناہوں اور نیکیوں کا صدور ہو سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو قوتِ ارادی ، غوروفکر کی صلاحیت اور قوت عمل سے سرفراز کیا ہے۔ انسان غور وفکر کرتے ہوئے اپنی منزل کا صحیح طور پر انتخاب کر سکتا ہے۔ کئی لوگ اس دنیا کی زندگی کو اور اس کی کامیابی اور کامرانی کو اپنا مطمع نظر سمجھتے ہوئے اپنی تمام تر دماغی اور جسمانی صلاحیتوں کو اس دنیا کی زندگی کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان لوگوں کی بہت بڑی تعداد جائز اور ناجائز ،حلال اور حرام اورصحیح اور غلط کے درمیان تفریق کرنے سے قاصر رہتی ہیں۔ ایسے لوگ اپنے ہدف کو پانے ، اپنی خواہشات کوپورا کرنے اور اپنے نفس کی تشنہ تمناؤںکی تکمیل کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ کی حدود کو پھلانگنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ اس کے مد مقابل ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے بچنے کی جستجو کرتے ہیں اور نیکی کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کے حصہ لینے کے لیے آمادہ وتیار رہتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بقرہ کی آیت نمبر189 میں ارشاد فرمایاہے کہ اللہ کے تقویٰ کو اختیار کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں ان کامیابیوں کو صرف اجمالی اندازمیں بیان نہیں کیا بلکہ بہت سے مقامات پر ان کامیابیوں کی وضاحت بھی کی ہے جو انسان کو تقویٰ کے نتیجے میں حاصل ہونے والی ہیں۔
قرآن مجید کے متعدد مقامات پر غور وفکر کرنے کے بعدیہ بات سامنے آتی ہے کہ تقویٰ کے نتیجے میں انسان کو اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی متعدد کامیابیاں حاصل ہونے والی ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ اعراف کی آیت نمبر96 میں اعلان فرمایا اور اگر بستیوں کے رہنے والے ایمان اور تقویٰ کو اختیار کر لیں تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکات کو کھول دیں گے۔ دنیا کے ہر شہر میں بسنے والے لوگ زمین وآسمان میں چھپی ہوئی نعمتوں کے حصول کے لیے سرکرداں رہتے ہیںلیکن اس نسخہ کیمیا کو استعمال نہیں کرتے جس کا ذکر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس آیت میں کیا ہے۔ اگر انسان صحیح معنوں میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی خشیت کو اختیار کرلے اور اپنے آپ کو گناہوں سے بچانا شروع کر دے تو اللہ تبارک وتعالیٰ یقینا اس کے لیے زمین او ر آسمان میں موجود نعمتوں کے دروازے کھولنے پر قادر ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ حجرات کی آیت نمبر 13میں اس امر کا اعلان فرمایا ''بے شک تم میں سے اللہ تبارک وتعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہو۔ عام طورپر ہر انسان عزت کا طلب گار ہے۔ ہر شخص چاہتا ہے کہ معاشرے میں اس کی عزت ہو۔ کئی مرتبہ جھوٹی عزت کے حصول کے لیے انسان اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی پر بھی آمادہ وتیار ہو جاتا ہے۔ لیکن دیکھنے میں آیا ہے کہ اس کو پھر بھی حقیقی عزت حاصل نہیں ہوتی۔ کئی مرتبہ اُس کے سرمائے اور اثرورسوخ کی وجہ سے بظاہر تو اس کو جھک کر سلام کرتے ہیں لیکن اس کے چلے جانے کے بعد اس کو برے الفاظ سے یاد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
تقویٰ کو اختیار کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ کئی مرتبہ کم سرمائے ، چھوٹے خاندان اور قبول صورت لوگوں کو بھی وہ مقام عطاء کرتا ہے جس کا انسان اس دنیا میں رہتے ہوئے تصور نہیں کر سکتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مریم کی آیت نمبر96 میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیے ‘ رحمان ان کی محبت کو پیدا فرمائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ طلاق کی آیت نمبر2 میں بھی تقویٰ کے حوالے سے اس امر کا اعلان فرمایا کہ جو اللہ تبارک وتعالیٰ سے ڈر جائے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کے لیے تنگیوں سے نکلنے کا راستہ بنائیں گے۔ ہر انسان کسی نہ کسی تنگی میں گرفتار ہے کسی نہ کسی مشکل کا شکار ہے لیکن عام طور پر لوگ اس تنگی سے لکنے کے لیے مادی ذرائع کا استعمال تو کرتے ہیں لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس عظیم نصیحت کو فراموش کر دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ طلاق ہی کی آیت نمبر4 میں اس امر کا اعلان فرمایا کہ جو تقویٰ کو اختیار کرے گاا للہ تبارک وتعالیٰ اس کے معاملات کو آسان بنادے گا۔ ہر شخص کسی نہ کسی معاملے میں مشغول ہے ہر شخص تعلیم ، ملازمت، کاروبار، اسی طرح سماجی اورخاندانی معاملات میں کسی نہ کسی مشکل کا شکار نظر آتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امر کا اعلان فرمایا جوتقویٰ کو اختیار کرے گا اس کے معاملات اس کے لیے آسان ہو جائیں گے۔ تقویٰ کو اختیار کرنے کے حوالے سے سورہ انفال کی آیت نمبر29میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس امر کا اعلان فرمایا '' اے ایمان والواگر تم تقویٰ کو اختیار کرو گے تووہ تمہارے لیے فرق کو تیار کرے گا۔‘‘ نیکی اوربدی، توحید اور شرک اور ہدایت اور گمراہی کے درمیان فرق کرنا ہر انسان کی خواہش ہے۔ کئی مرتبہ انسان اپنی کوشش ،استعداد اور صلاحیتوں کے باوجود حق اور باطل میں امتیاز کرنے سے قاصر ہو جاتا ہے لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ تقویٰ کو اختیار کرنے کی وجہ سے اس میں اشیاء کے درمیان امتیاز کرنے کی صلاحیت کو پیدا فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام کی تلاوت اوراس پر غوروغوض کرنے سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کوجملہ عبادات میں تقویٰ مطلوب ہے۔ چنانچہ رمضان المبارک کے روزوں اور عید قربان کے ذبح کے حوالے سے بھی اس امر کا اعلان ہوا کہ روزے اس لیے فرض کیے گئے تاکہ تم متقی بن جاؤ اور اللہ تبارک وتعالیٰ کو گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ریاکاری، خودپسندی، استکبار اور نمودونمائش والی عبادات کی بجائے خالصتاً اپنی رضا کے لیے کی جانے والی عبادت کو قبول ومنظور فرمائیں گے۔ تقویٰ کے دنیاوی فوائد کے ساتھ ساتھ انسان کو تقویٰ کے ذریعے اخروی کامیابیاں اور کامرانیاں بھی حاصل ہوں گی۔ تقویٰ کو اختیار کرنے کے نتیجے میں ا نسان اللہ کے فضل و کرم سے آگ سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے میں بھی کامیاب ہو جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو تقویٰ والی زندگی گزارنے کی توفیق نصیب فرمائے تاکہ ہم دنیا کی تلخیوں کے ساتھ ساتھ آخرت کی تلخیوں، تنگیوںاور تکلیفوں سے بھی محفوظ رہ سکیں۔ آمین۔