اللہ تبارک وتعالیٰ نہایت غفور و رحیم ہیں اور اپنے بندوںکی کوتاہیوں کے باوجود ان کی خطاؤں کو معاف فرمانے والے ہیں۔ سورہ زمر کی آیت 53 میں اعلان فرمایا: ''اے میرے بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو جاؤ یقیناً اللہ تبارک وتعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے واقعی وہ بڑی بخشش اور رحمت والا ہے ‘‘۔ سورہ فرقان میں شرک، قتل نفس، زنا جیسے بڑے گناہوں کے برے انجام کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ اعلان فرمایا کہ جو شخص توبہ، ایمان اور عمل ِصالح کے ساتھ زندگی گزارے گا اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی سابقہ خطاؤں کو معاف فرما دیںگے۔ سورہ فرقان کی آیت نمبر68، 69 اور 70 میں اللہ تبارک وتعالیٰ عباد الرحمن کی صفات کا ذکرکرتے ہوئے اعلان فرماتے ہیں:''اور وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ نے منع کیا ہو وہ بغیر حق کے قتل نہیں کرتے،نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبا لائے گا۔ قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جائے گا ذلت اور خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں۔ ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربانی کرنے والا ہے‘‘۔
قرآن حکیم کے اور بھی بہت سے مقامات اس حقیقت کو واضح کرتے ہیں کہ انسان توبہ، استغفار اور اعمال کی اصلاح کرنے کے نتیجے میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا و خوشنودی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کسی فرد یا معاشرے کو اس وقت تک دنیا میں ہلاکت کے گڑھے میں نہیں گراتے جب تک اس میں اصلاح کے امکانات باقی رہتے ہیں، لیکن جب کوئی فرد یا قوم اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی کی تمام حدود کو پھلانگ جائے اور اپنے اعمال کی اصلاح پر آمادہ نہ ہو تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس فرد یا قوم پر اپنے غضب اور عذاب کا نزول فرماتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نحل کی آیت نمبر112 میں ایک ایسی بستی کا ذکر کیا جس کو امن اور رزق کی نعمتیں میسر تھیں لیکن انہوں نے اللہ تبارک وتعالیٰ کی نعمتوں کا کفر کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر بھوک اور خوف کا عذاب مسلط کر دیا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ ہود میں ان اقوام کا ذکر کیا جو دنیا میں تباہی اور بربادی کا نشانہ بنیں۔ ان کی تباہی کا بڑا سبب یہ تھا کہ انبیائے سابقہ ان کو متواتر اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیغام سناتے رہے لیکن وہ اس کے پیغام اور انبیاء علیہم السلام کی نصیحت آموز گفتگو کو سن کر بھی اصلاح پر تیار نہ ہوئے۔ اس سورہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قوم نوح کا ذکرکیا۔ اس کے پاس حضرت نوح علیہ السلام تشریف لائے اور اُن کو 950 برس تک اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے۔ لیکن قوم نوح کے لوگ اپنی اصلاح پر تیار نہ ہوئے۔ حضرت نوح علیہ السلام صبح وشام ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے۔ وہ آپ کی بات سن کر اپنے کانوں میں اپنی انگلیاں ڈال لیتے اورآپ کو (معاذ اللہ) دیوانہ اور مجنون کہتے اور ظلم کی انتہا یہ کہ آپ کو پتھر مارنے سے بھی گریز نہ کرتے تھے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کی سر کشی کی وجہ سے ایک طوفان ان پر مسلط کر دیا اور پوری کی پوری قوم سوائے ان لوگوں کے جو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں سوار ہو گئے، اس طوفان کا نشانہ بن گئی۔ اسی طرح قوم عاد کے لوگ بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے غضب کا نشانہ بنے۔ قوم عاد کے لوگ اپنی طاقت اور صلاحیتیوں پر گھمنڈ کرتے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید سے انکار کیا کرتے تھے۔ حضرت ہود علیہ السلام تواتر سے ان کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید کی دعوت دیتے رہے، لیکن انہوں نے حضرت ہود علیہ السلام کی دعوت کو قبول نہیں کیا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قوم ثمود کا ذکر کیا جن کے پاس اللہ تبارک وتعالیٰ کے نبی حضرت صالح علیہ السلام آئے اور ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید کی دعوت دی۔ قوم کے لوگوں نے حضرت صالح علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکرایا پھر آزمائش کے طور پر ان سے نشانی کا سوال کیا جس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک اونٹنی اور اس کے بچے کی شکل میں قوم ثمود کے لیے ایک نشانی کو ظاہر فرمایا۔ اونٹنی پوری بستی کی چراگاہوں میں چرتی اور اتنا دودھ دیتی کہ پوری بستی کے لوگ اس کے دودھ سے سیراب ہو جاتے۔ قوم ثمود نے بغیر ماں باپ کے پیدا ہونے والی اونٹنی اور بغیر باپ کے پیدا ہونے والی اونٹنی کے بچے کی نشانی کو دیکھ کر بھی اپنی حرکات اور اپنے طرز عمل کو نہیں بدلا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک چنگھاڑ کو ان پر مسلط کیا اور وہ اس کے نتیجے میں تباہی اور بربادی کا نشانہ بن گئے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں قوم لوط کا ذکر کیا۔ حضرت لوط علیہ السلام اپنی قوم کے لوگوں کی اصلاح کے لیے ان کو تواتر کے ساتھ سیدھے اور حلال راستے کی طرف آنے کی دعوت دیتے رہے، لیکن انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام کی دعوت کو ٹھکرا دیا اور ہم جنسیت جیسے قبیح فعل میں مبتلا رہے اور اس پر اصرار کرتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے پوری بستی کو الٹا دیا اور پتھروں کے ذریعے مجرموںکے چہروں اور جسموں کو مسخ کردیا اور ان کو رہتی دنیا تک کے لیے سامان عبرت بنا دیا۔ اسی طرح مدین کے لوگ توحید سے اعراض کرنے کے ساتھ ساتھ ماپ تول میں کمی کیا کرتے اور اس کو اپنے کاروبار کے لیے ضروری خیال کرتے تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام ان کی اصلاح کے لیے ان کو بڑے خلوص اور تحمل کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیغام سناتے رہے لیکن انہوں نے حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحت کو قبول نہ کیا اور آپس میں اس طرح کی باتیں کرتے کہ اگر تم نے حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحت کو مان لیا تو تمہارا کاروبار خسارے کا شکار ہو جائے گا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک چنگھاڑ کو ان پر مسلط کیا اور وہ اسی طرح تبارہ وبرباد ہو گئے جس طرح قوم ثمود کے لوگ تباہ وبرباد ہوئے تھے۔
قرآن مجید میں جا بجا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد کا بھی ذکر موجود ہے۔ فرعون کو اپنے اقتدار اور اپنی سلطنت پر گھمنڈ تھا اور وہ اپنے آپ کو رب کہا کرتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت سی نشانیاں اور عذابوں کو دیکھنے کے باوجود فرعون اللہ تبارک وتعالیٰ کی نافرمانی پر آمادہ و تیار رہا، یہاں تک کہ آخری وقت جب وہ سمندر کی لہروں میں غرق ہونے لگا تو اس نے اسلام اور ایمان کے راستے کو اختیار کرنے کا اعلان کیا لیکن تواتر کے ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ کی توحید اور اس کی نشانیوں کو ٹھکرانے کی وجہ سے اس وقت اس کے اقرار کو مسترد کر دیا گیا۔ اسی طرح قرآن مجید میں قارون کا بھی ذکر موجود ہے کہ جس کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے سرمائے اور دولت سے نوازا تھا، لیکن وہ سرمائے اور دولت کی وجہ سے گھمنڈ کا شکار ہو گیا۔ اس گھمنڈ اور غرور کے دوران وہ کسی بھی نصیحت کو قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہ ہوتا تھا۔ اہل علم اس کو احسان کی تلقین کرتے اور فساد سے منع کرتے اور آخرت کی یاد دہائی کرواتے۔ لیکن وہ ان کی نصیحت کو ماننے پر تیار نہ ہوتا۔ دنیا دار لوگ قارون کے سرمائے اور عروج کو دیکھ کر مرعوب ہو جاتے۔ ایسے میں اہل علم ان لوگوں کو نصیحت کرتے کہ دنیا کے مال و اسباب کو دیکھ کر متاثر ہونے کی بجائے ہماری نگاہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے ملنے والے اجروثواب پر ہونی چاہیے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قارون کو اپنے غضب کا نشانہ بنایا اور اس کو اس کے خزانے سمیت زمین کے اندر دھنسا دیا۔ یہ منظر دیکھ کر وہ لوگ جو قارون کے مال کو حاصل کرنے کی تمنا کر رہے تھے سمجھ گئے کہ علماء نے جس بات کا تجزیہ کیا وہ درست اور صحیح تھا۔
قرآن مجید میں مذکور قوموں اور افراد کے برے انجام کو پڑھ کر اس حقیقت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ کوئی بھی قوم یا فرد اپنے آپ کو اس وقت تباہی کے گھاٹ اتارنے پر تیار کر لیتی ہے جب وہ کسی بھی صورت اپنی اصلاح یا اپنے معاملات کو درست پر آمادہ و تیار نہیں ہوتی۔ آج اگرہم اپنے گرد و پیش کو دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر بھی اقوام سابقہ کی بہت سی عادات بد پائی جاتی ہیں۔ آج ہمارے یہاں پر بد اعتقادی، جنسی بے راہ روی، ماپ تول میں کمی، اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ کے عطا کردہ مال پر اس کا شکر ادا کرنے کی بجائے گھمنڈ اور تکبر کرنا عام ہے۔ اگرہم اپنی اصلاح نہیں کریں گے تو اللہ تبارک وتعالیٰ قیامت کے دن سے پہلے دنیا میں بھی ہم پر اپنی گرفت کو نازل کر سکتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قوم کی اجتماعی ہلاکت سے بچاؤ کی دعا کی تھی، اس کی وجہ سے امت مسلمہ اجتماعی عذابوں کا نشانہ نہیں بنی لیکن انفرادی اور جزوی عذاب آنے کا سلسلہ تاحال باقی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ آخرت کے عذاب سے پہلے پہلے دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی گرفت پر بھی نظر رکھیں اور ہر قیمت پر اپنی اصلاح کرنے کی جستجو کرتے رہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیںہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے بچائے اور صراط مستقیم پر چلائے۔ آمین!