اللہ تعالیٰ کے دین کی معرفت حاصل کرنے کے دو ہی مستند ترین ذرائع ہیں۔ ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب جس کو ہر قسم کی تبدیلی اور تغّیرسے محفوظ رکھا گیا؛چنانچہ سورہ حم سجدہ کی آیت نمبر 42 میں ارشاد ہوا:''باطل اس کو آگے اور پیچھے سے نہیں آ سکتا،اتاری گئی ہے دانا اور قابل تعریف کی طرف سے ‘‘۔ صدیاں گزر جانے کے باوجود قرآن مجید ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے اور اس کی ایک آیت تو درکنار ایک لفظ بلکہ ایک حرف اور ایک حرکت کو بھی تبدیل نہیں کیا جا سکا ۔
قرآن مجید چونکہ رسول ﷺ کے قلب اطہر پہ نازل ہوااس لیے آپ ﷺ اس کے الفاظ کے ساتھ ساتھ اس کے مفہوم کو بھی بیان فرمانے والے تھے۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ احزاب کی آیت نمبر21 میں حضرت رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کا ذکر کیا۔ اسی طرح سورہ آل عمران کی آیت نمبر31 میںاللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی اتباع کرنے والے شخص کو اپنا محبوب بنانے کا ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ نساء کی آیت نمبر80 میں اس بات کو ارشاد فرمایا کہ جو رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کرتا ہے درحقیقت وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اطاعت کرتا ہے۔ قرآن مجید کی سورہ نور کی آیت نمبر63 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد کیا کہ جو نبی کریم ﷺ کے اوامرکیـ مخالفت کرتا ہے اسے ڈر جانا چاہیے کہ وہ فتنے یا عذاب الیم کا نشانہ بنے گا۔سورہ نجم کے مطالعے سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ آپ ﷺ اپنی مرضی کے ساتھ کلام نہیں کرتے بلکہ اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق گفتگو فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ قرآن مجید کے بعد دین کو سمجھنے کے لیے آپ ﷺ کی سنت کی طرف رجوع کرنا انتہائی ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے جہاں قرآن مجید کو قیامت تک کے لیے محفوظ ومامون فرما دیا ‘وہیں پر اللہ تعالیٰ نے اُسوہ رسول ﷺ کو بھی رہتی دنیا تک محفوظ فرما دیا ۔ قرآن مجید جن ذرائع سے آنے والی نسلوں تک منتقل ہوا‘ انہی ذرائع سے حدیث رسول اللہ ﷺ بھی ان تک منتقل ہوتی رہی ۔ قرآن مجید عہد رسالت مآب میں لکھا جاتا رہا اور دلوں میں بھی محفوظ ہوتا رہا۔ اسی طرح حدیث رسول اللہ ﷺ بھی کتابت اور حفظ کے مراحل سے گزرتی رہی اور صحابہ کرامؓ سے تابعین اور تبع تابعینؒ تک منتقل ہوتی رہی۔ قرآن مجید ابتدا میں ہی کتابی شکل میں محفوظ ہو گیا جبکہ حدیث پاک کو محدثین عظام نے چھان بین کے بعد کتابی شکل میں مدون کیا۔
اگرچہ کتب احادیث میں اقوال ،اعمال اور واقعات تو نبی کریم ﷺ ہی کے تھے لیکن ان کی ترتیب محدثین نے اپنے اپنے انداز میں کی ۔
احادیث کی کتب کی تدوین کے دوران جس محنت اور احتیاط سے کام لیا گیا اور جس طرح راویوں کی چھان پھٹک کی گئی‘ تاریخ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ علم الرجال کے نام سے ایک مستقل علم مدون ہوا جس میںہزاروں راویوںکے حالات زندگی پر تفصیلی کتابیں لکھی گئیں۔ راویوں کی حالات زندگی پر تحقیق اور ان میں سے ثقہ، عادل اور حافظ راویوں کو مجروح، ضعیف اورمتساہل راویوں سے علیحدہ کرنا بلاشبہ اس امر کی دلیل ہے کہ نبی کریم ﷺ کی ذاتِ والا صفات کائنات کے لیے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جرح و تعدیل کے اس فن نے مستشرقین اور اسلام کے ناقدین کو بھی حیرت زدہ کر دیا اور قرآن و سنت کے بہت سے نقاد صرف تدوین حدیث کا حیرت انگیز کام دیکھ کر ہی اسلام کی طرف مائل ہوگئے۔کتب احادیث بڑی تعداد میں مرتب کی گئیں لیکن صحاح ستہ جن میں صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی اور سنن ابن ماجہ شامل ہیں کو خصوصی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کتب کے علاوہ موطا امام مالک، مسند احمد ، سنن بیہقی، سنن دارمی اور دار قطنی کو بھی نمایاں مقام حاصل ہے۔
ہر سال رجب اور شعبان میں مدارس دینیہ کے سالانہ امتحانات ہوتے ہیں۔ اس موقع پر کتاب وسنت کی تعلیم سے آراستہ اور پیراستہ ہونے والے طلبہ کو سندِ فراغت دی جاتی ہے ۔ چونکہ علوم دینیہ میں فہم سنت اور تدریسِ احادیث کا ایک امتیازی مقام ہے اس لیے تقسیم اسناد کی تقاریب کو عموماً تکمیل بخاری کی تقاریب سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔ ان تقاریب میں خصوصیت سے تدوین احادیث کے لیے امام بخاری ؒکی محنتوں کا ذکر کیا جاتاہے جس کا مقصد طلبہ کو ترغیب دینا ہوتا ہے کہ جس طرح امام بخاری ؒ نے اپنی زندگی کو فرامین رسول اللہﷺ کی ترتیب و تدوین کے لیے وقف کر دیا تھا‘ اسی طرح دور حاضر کے طلبہ کو بھی رسول ﷺ کے فرامین مبارکہ سے اپنی زندگیوں کو منور کرنا چاہیے۔ ہر سال کی طرح مجھے اس مرتبہ بھی مختلف مدارس کی تکمیل بخاری شریف کی تقاریب میں جانے کا اتفاق ہوا۔میں نے مناسب خیال کیا کہ قارئین کے سامنے بھی یاد دہانی کے لیے بعض اہم معلومات کو رکھا جائے ۔محدثین کرام نے سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جمع کر نے کے لیے جو محنت کی اس کی وجہ سے چودہ سو برس گزر جانے کے باوجود بھی دین سے رغبت رکھنے والا ہر شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ کامل سے مکمل طور پر آگاہی حاصل کر سکتا ہے۔اس حوالے سے امام بخاریؒ کی محنت مثالی اہمیت کی حامل ہے۔ امام بخاری ؒ نے صحیح بخاری کوانتہائی جانفشانی اور عرق ریزی کے بعد مرتب کیا اور اپنے پاس جمع شدہ لاکھوں احادیث میں سے تقریباًساڑھے سات ہزار کے لگ بھگ احادیث کو علیحدہ کرکے اس کتاب کو ترتیب دیا۔ اس محنت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگر کوئی شخص علم الرجال کے فن پر عبور نہ بھی رکھتا ہو تو بلا جھجک بخاری شریف کی احادیث کے بارے میں کہہ سکتا ہے کہ اس کتاب میں تمام احادیث سنداً درست اور ثابت شدہ ہیں اور ان کی رسول ﷺ سے نسبت ہر قسم کے شک وشبہ سے بالاترہے ۔
امام بخاری ؒ بہت ذہین اور فطین انسان تھے۔ انہوں اپنی کتاب مرتب کرتے وقت انسانی زندگی اور اعمال کی ترتیب کو خصوصی اہمیت دی ۔ ہر ذی شعور انسان اس بات کو جانتا ہے کہ اعمال کی ابتدا نیت یا ارادے سے ہوتی ہے ۔ اگر نیت درست ہوتو عمل بھی درست قرار پائے گا‘ اگر نیت میں کھوٹ ہو تو عمل بھی مقبول نہیں ہو سکتا ۔اسی فطری اور طے شدہ حقیقت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے امام بخاری ؒ نے اپنی کتاب کا آغاز ''بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے‘‘ جیسی عظیم حدیث سے کیا ۔
اسی طرح ہر مسلمان اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ انسان کی زندگی مرنے پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کو مرنے کے بعد برزخ کی زندگی سے گزرنا پڑے گا اور برزخ کے بعد حشر کی زندگی کا سامنا کرنا ہوگا ۔سورۃ القارعہ کے مطابق جس کا دایاں پلڑا بھاری ہوگا وہ اہل جنت میں شامل ہوگا اور جس کا بایاں پلڑا بھاری ہو گا وہ جہنمیوں میں شامل ہوگا۔ گویا انسانی زندگی کا انجام اعمال نامے کے تُلنے کے ساتھ ہے جس کے بعد انسان اپنے انجام کو پہنچ جائے گا ۔ امام بخاری ؒ اپنی کتاب میں جو آخری حدیث لے کر آئے اس کا تعلق اعمال کے تُلنے کے ساتھ ہے‘ گویا نیت سے شروع ہونے والے عمل کا وزن میزان میں تل کر سامنے آجائے گا ۔ حضرت امام بخاری ؒ نے نیت سے اپنی کتاب کا آغاز کیا اور میزان پر تلنے والی حدیث پر اختتام کرکے مسلمانوں کی پوری زندگی کی ترتیب اور نظام ِاوقات کو واضح فرمادیا۔اس کے ساتھ ساتھ امام بخاریؒ نے ایک ہی حدیث کو مختلف ابواب کے تحت ذکر کرکے احادیث سے نکلنے والے مختلف مسائل کی نشاندہی اور وضاحت بھی فرمائی۔آج اگر مسلمان ایمان، عبادات، معاملات، تجارت، گھریلو زندگی ، جہاد اور دیگر معاملات سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین سے آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے تو بغیر کسی شک وشبہ کے صحیح بخاری شریف کی روایت سے رہنمائی حاصل کر سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ کی پر خلوص محنت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کو کائنات کی رہنمائی کے لیے منتخب فرما لیا اور محدثین کورسول ﷺ کے فرامین کی تدوین اور ترسیل کے لیے منتخب کر لیا۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 195میں واضح فرما دیا کہ '' یقینا میں تم سے کسی اچھے عمل کرنے والے کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں ‘‘اللہ تعالیٰ نے حدیث سے محبت میں کی جانے والی امام بخاری ؒ کی مخلصانہ محنت کو بھی قبول فرمالیااور ان کی کتاب صحیح بخاری شریف کو قیامت کی دیواروں تک کے لیے شرف قبولیت سے نواز دیااور اس کتاب کے مطالعے کو دین کے ہر طالب علم اور استاد کے لیے ناگزیربنا دیا ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کوبھی قرآن و سنت سے محبت کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین