وطن عزیز پاکستان مسلمانانِ ہند کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ اِس وطن کے حصول کے لیے ہزاروں کی تعداد میں ماؤں اور بیٹیوں نے اپنی عزت کی قربانی دی‘ بوڑھوں کی داڑھیاں لہو میں رنگین ہوئیں اور معصوم بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا، ہزاروں کی تعداد میں مسلمانوں نے اس وطن کے حصول کے لیے اپنے گھروں سے ہجرت کی، اپنے آباؤ اجداد کے دیس کو خیر باد کہا اور پاکستان کو اپنا مسکن بنایا۔
پاکستان اسلام کا قلعہ اورخلافت کے خاتمے کے بعد کتاب وسنت کے نفاذ کے لیے حاصل کی جانے والی ایک عظیم مملکت ہے۔ تحریک پاکستان کے قائدین نے مسلمانانِ ہند کی بیداری کے لیے کلیدی کردار ادا کیا اور عشروں کی جدوجہد کے بعد مسلمان اس وطن کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ پاکستان کے دفاع کو جب بھی کبھی خطرہ لاحق ہوا‘ اسلامیان پاکستان نے اس کے دفاع کے لیے کلیدی کردار ادا کیااور فوج کے شانہ بشانہ اس کی سرحدوں کے دفاع کے لیے میدان عمل میں اترے۔ اس کی جغرافیائی سرحدوں کے ساتھ ساتھ جب کبھی بھی اس کی نظریاتی سرحدوں پر حملہ کیا گیا تو پاکستان سے محبت کرنے والے عناصر فی الفور میدان عمل میں نکل آئے۔ 1965ء کی جنگ میں محب وطن پاکستانیوں نے سیالکوٹ اور لاہور کے محاذ پر فوج کے شانہ بشانہ وطن کے دفاع کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ 1971ء میں ہندوؤں کی مکاری اور سازش کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہو گیاجس پر برصغیر کے مسلمانوں کے جذبات کوبہت بڑی ٹھیس پہنچی۔ 1971ء کے بعد انڈیا کی مکاری اور سازشوں کے باوجود پاکستان دفاعی اعتبار سے دن بدن مضبوط ہوتا چلا گیااور ایٹمی قوت بن جانے کے بعد پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر سمجھا جانے لگا۔
بدقسمتی سے پاکستان کی عسکری صلاحیتوں میں بتدریج اضافہ ہونے کے بعد وطن عزیر بین الاقوامی طاقتوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا اور بین الاقوامی قوتوں نے پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے مختلف طرح کی سازشیں کرنا شروع کیں۔ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ملک ہے جس کے ساتھ اپنے تعلقات کو اچھی سطح پر استوار رکھنا پاکستان کے اچھے حکمرانوں کی ترجیح رہی ہے لیکن جنرل پرویز مشرف کے دور میں امریکی دباؤ پر پاکستان کی سرزمین کو افغانستان پر حملے کے لیے استعمال کیا گیا‘ جس کی وجہ سے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوگئی۔ نیٹو سپلائی کی بحالی کو روکنے کے لیے ملک کی نمایاں مذہبی جماعتوں نے دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے صدائے احتجاج بلند کی۔ مولانا سمیع الحق ، حافظ محمد سعید ، سید منور حسن اور دیگر مذہبی جماعتوں کے سربراہان نے دفاع وطن کے لیے ملک گیر سطح پر بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد کیا۔ گو نیٹو سپلائی کو کاٹا تو نہ جا سکا لیکن پاکستان کے طول وعرض میں بسنے والے مسلمانوں میں بیداری کی ایک لہر پیدا ہوئی۔ مینار پاکستان لاہور، لیاقت باغ راولپنڈی، ملتان اورکراچی میں لاکھوں کے اجتماعات میں پاکستانی مسلمانوں نے وطن عزیز کے دفاع کے لیے مر مٹنے کا عزم کیا۔ دفاع پاکستان کی تحریک نے پوری قوم کو بیدار کر دیا۔ بعدازاں سیاسی عمل اور سیاسی تحریکوں کی سرگرمیوں کی وجہ سے دفاع پاکستان کونسل کی سرگرمیاں مانند پڑ گئیںاور عملی طور پر یہ عظیم اتحاد معطل ہوکر رہ گیا۔
حال ہی میں ایک مرتبہ پھر ایک ایسا واقعہ رونما ہوا جس نے محب وطن اور محب دین عناصر کے جذبات کو بری طرح مجروح کیا۔ امریکہ کے ڈرون حملے جو ایک عرصے سے جاری تھے کچھ عرصہ رکنے کے بعد ایک ڈرون حملے نے افغان طالبان رہنما ملا اختر کو ہدف بنا کر انہیں غیر قانونی طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس پر دفاع پاکستان میں شامل تمام جماعتوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ مولانا سمیع الحق نے اس موقع پر دفاع پاکستان کونسل میں شامل تمام جماعتوں کو اسلام آباد کے ایک مقامی ہوٹل میں جمع کیا۔ اس ہوٹل میں تمام جماعتوں کے قائدین نے حالیہ ڈرون حملے پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور اس کو پاکستان کے دفاع اور سلامتی کے خلاف ایک بڑی جارحیت کے ساتھ تعبیر کیا گیا۔ جن حالات میں کانفرنس کا انعقاد ہوا ان میں نہ صرف یہ کہ پاکستان کے دفاع کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا گیا بلکہ بنگلہ دیش میں ہونے والے مظالم اور اسلامی تحریکوں کے قائدین کے ساتھ کی جانے والی بربریت پر بھی شدید تنقید کی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی کارکنان کی بڑے پیمانے پر بلاجواز اور بلا ثبوت گرفتاریوں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ مولانا سمیع الحق کی قیادت میں ہونے والے اس اجلاس میں ماضی کی طرح مجھے بھی شمولیت کا موقع ملا اور میں نے بھی امریکی جارحیت اور کارکنان کی بلاجواز گرفتاریوں کے خلاف قائدین کی آواز میں اپنی آوازملائی۔ اجلاس میں شامل تمام جماعتوں کے قائدین کی مشاورت کے ساتھ ایک اعلامیے کو تیار کیا گیا جس کے اہم نکات کومیں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
1۔ امریکہ کی طرف سے بلوچستان میں ڈرون حملہ پاکستان پر حملہ ہے ۔حکومت پاکستان فی الفور امریکی سفیر کو ملک بدر کرے۔ پاکستان کی آزادی اور سالمیت پر حملوں کو کسی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔
2۔ امریکی صدر بارک اوباما کی پاکستان میں ڈرون حملے جاری رکھنے کی دھمکیاں کھلی جارحیت اور پاکستان کے خلاف اعلان جنگ ہے۔ سیاسی اور عسکری قیادت اس مسئلے میں جرأت مندانہ پالیسی اختیار کرے اور حکومت اس مسئلے کو عالمی عدالت ِانصاف میں لے کر جائے اور اس آواز کو تمام بین الاقوامی فورمز پر اُٹھائے۔ سپریم کورٹ کو بھی اس مسئلے کا فوراً نوٹس لینا چاہیے۔
3۔ امریکی دھمکیوں اور ڈرون حملوں کے خلاف تمام مذہبی اورسیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر ملک گیر تحریک شروع کی جائے گی اور اس سلسلے میں پہلا بڑا پروگرام 5جون کو اسلام آباد میں ہوگا۔ جس میں ملک بھر کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے قائدین کو شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ جب کہ مسئلے کی سنگینی کو مدنظر رکھتے ہوئے رمضان المبارک میں بھی تحریک کو پوری قوت کے ساتھ جاری رکھا جائے گا۔
4۔ سلالہ چیک پوسٹ پر حملے کے بعد نیٹو فورسز کی سپلائی بند کی گئی، بلوچستان پر ڈرون حملے کے بعد بھی ایسے جرأت مندانہ اقدامات کرتے ہوئے امریکہ کے ساتھ ہر قسم کا تعاون ختم کیا جائے۔
5۔ پاکستان میں پروکسی وار کے لیے بلوچستان کو بین الاقوامی طاقتوں نے خاص طور پر نشانہ بنا رکھا ہے اور پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے خلاف سازشیں کی جار ہی ہیں۔ انڈین اور افغان انٹیلی جنس افسران کی گرفتاریاں سازشوں کا واضح ثبوت ہیں۔ ملک میں بھارتی خفیہ ایجنسی ''را ‘‘اور دیگر ممالک کی مداخلت ختم اور انڈیا کی دہشت گردی کو پوری دنیا کے سامنے بھرپور طور پر بے نقاب کیا جائے۔
6۔ بھارت ، ایران اور افغانستان کے چاہ بہار جیسے سہ افریقی معاہدوں پر پاکستان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں۔ مسلمان ممالک بھارت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے کسی دھوکے میں آنے کی بجائے باہمی تعلقات میں استحکام پیدا کریں اور مشترکہ دفاعی بنیادوں پر اپنی معیشت کو مستحکم کریں۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو نقصانات سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔امریکی صدارتی امیدوار ٹرمپ کے زہر آلود بیانات اور امریکی صدر اوباما کی دھمکیاں اس کا واضح ثبوت ہیں۔
7۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مضبوط پیغام دیتے ہوئے وطن عزیر کے تحفظ کے لیے پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہو جائے۔
8۔ بھارتی ایماء پر بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے قائدین کی پھانسی 1974ء کے معاہدوں کی کھلی خلاف ورزیاں ہیں ۔ حکومت پاکستان مسلم ممالک کو ساتھ ملا کر ان کی پھانسیاں رکوانے کے لیے عملی کردار ادا کرے۔ ترکی کا کردار اس حوالے سے مثالی رہا ۔اس نے بنگلہ دیش کی جارحیت پر اپنے سفارتی تعلقات بنگلہ دیش سے منقطع کر دیے۔ پاکستانی قائدین کو بھی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے اس مسئلے کو داخلی مسئلہ قرار دینے کی بجائے اس پر سفارتی دباؤ ڈالنا چاہیے اور اگر وہ سفارتی دباؤ کونظر انداز کرتے ہوئے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کرتا تو اس کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کئے جائیں۔
اس موقع پر دفاع پاکستان کے پلیٹ فارم کو از سرنو بحال کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔مولانا سمیع الحق کی قیادت میں چلنے والے اس اتحاد کی کوآرڈی نیشن کے لیے جماعت اسلامی کے سابق امیر سید منور حسن کو اہم ذمہ داری تفویض کی گئی۔حالیہ اجلاس سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ دفاع پاکستان کونسل کا وہ پلیٹ فارم جو عملی طور پر غیر فعال ہو چکا تھا ایک مرتبہ پھر دفاع پاکستان کے حوالے سے عوام کی رہنمائی کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے آمادہ وتیار نظر آ رہا ہے۔ دفاع پاکستان کے لیے ایک مرتبہ پھر پوری قوم کو بیدار کیا جائے گا اور پاکستان کے دفاع کے خلاف ہونے والی سازشوں کے خلاف رائے عامہ کو ہموار کیا جائے گا۔ آنے والے دنوں میں دفاع پاکستان کونسل کی سرگرمیاں یقینا اہل پاکستان اور محب وطن عناصر کی حوصلہ افزائی کا سبب ہوں گی۔