رمضان المبارک کا مقدس مہینہ اپنے جلو میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی رحمتیں ‘ فضل اور عنایات لے کر آتا ہے۔ اس مہینے میں مسلمانوں کی کثیر تعداد اپنے دنیاوی اموراور مشاغل میں تخفیف کرکے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی کی طرف مائل ہو جاتی ہے۔ علمائے کرام اور حفاظ کرام بھی رمضان المبارک کے مہینے میں تلاوت قرآن مجید کا بکثرت اہتمام کرتے ہیں۔حدیث پاک کے مطابق اِس مہینے میں رکھے جانے والے روزوں کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کی گزشتہ تمام خطاؤں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ اسی طرح ماہ مبارک کے قیام کی وجہ سے بھی اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے سابقہ گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ رمضان المبارک سے قبل ہی تراویح اور دروس قرآن کی ذمہ داریوں کو نبھانے والے لوگ اس کی ترتیب اور تیاری میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ میں بھی شعبان کے آخر میں رمضان المبارک میں دیے جانے والے دروس کے حوالے سے سوچ وبچار کر رہا تھا کہ اسلام آباد سے کال موصول ہوئی کہ 18 رمضان المبارک کو سعودی عرب کے سرکاری دورے پر روانہ ہوناہے۔ رمضان المبارک کے دروس کو چھوڑ کر بیرون ملک سفر کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن جب ماہِ مبارک میں عمرے کی ادائیگی جیسی عظیم سعادت میسر آ رہی ہو تو انسان کسی بھی صورت اس نعمت اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل اور عنائت سے محروم ہونا گوارا نہیں کرتا۔ چنانچہ میں بھی اس سفر کے لیے فی الفور آمادہ وتیار ہو گیا۔ 23 جون بروز جمعرات اسلام آباد ائیر پورٹ سے روانگی ہوئی۔ اسلام آباد ائیر پورٹ پر جا کر پتہ چلا کہ اس سفر میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مولانا عبدالغفور حیدری اور جماعت اسلامی کے رہنما برادر عبدالغفار عزیز بھی شریک ہیں ان کے ساتھ ساتھ سید عدنان کاکا خیل ،مولانا عبدالرؤف ، مولانا ارشاد الحق اثری اور ڈاکٹر حسن مدنی بھی شریک سفر ہیں۔ اسلام آباد ائیر پورٹ پر سعودی مندوبین اور ان کے پاکستانی معاونین نے بڑے پرتپاک انداز میں ہمیں الوداع کہا۔
اسلام آباد سے اُڑنے والی پرواز اللہ تعالیٰ کے فضل سے بروقت جدہ ائیر پورٹ پر پہنچ گئی۔ جدہ ائیر پورٹ ایمیگریشن کاؤنٹرز کے قریب خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے نمائندگان ہمارے استقبال کے لیے موجود تھے۔ ایمیگریشن سے فارغ ہو کر خادم الحرمین شریفین کی خصوصی ٹرانسپورٹ کے ذریعے ہم جدہ سے مکہ مکرمہ پہنچے۔ مکہ مکرمہ کے میریٹ ہوٹل میں اپنے سامان کو رکھنے کے بعد اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے عمرے کی سعادت سے بہرہ ور ہونے کا موقع ملا۔ عمرے کے دروان حسبِ سابق اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں التجاؤں ‘مناجا ت اور دعاؤں کو پیش کرنے کا سلسلہ جاری وساری رہا۔ ذہن اور دل میں موجود تمام تمناؤں نے الفاظ کا روپ دھار لیا اور مالک حقیقی کے آستانے پر اپنی دعاؤں کو پوری شدومد کے ساتھ پیش کرنے کی سعادت میسر آئی۔عمرے کی ادائیگی کے بعد دل اور دماغ کے تمام کے تمام بوجھ اُتر گئے اور یوں محسوس ہوا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے روح اور جسم کو ایک نئی زندگی اور توانائی عطا فرمادی ہے۔ عمرے کی ادائیگی کے بعد اگلے دن جمعۃ المبارک کی نماز بھی مکہ مکرمہ ہی میں ادا کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ امام حرم نے تقویٰ کی اہمیت کو بھرپورطریقے سے اجاگر کیا اور زندگی کے تمام معمولات میں تقویٰ کو شامل کرنے پر زور دیااس کے ساتھ ساتھ انفاق فی سبیل اللہ اور صدقے کی ضرورت ‘ اہمیت اور فوائد کو بھی احسن انداز میں بیان کیا اور اس حوالے سے نبی مکرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو بھی بیان کیا کہ نبی پاکﷺ ماہ مبارک میں بکثرت صدقات وخیرات فرمایا کرتے تھے اور غرباء، مساکین اور حاجت مندوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا بھر پور طریقے سے پورا کرنے کا اہتمام فرماتے۔ جمعۃ المبارک کے بعد آنے والی نمازوں کوتواتر کے ساتھ حرمین پاک میں ادا کرنے کاموقع میسر آتا رہا۔ میریٹ ہوٹل کی بلند وبالا اور کشادہ بلڈنگ کی کشش اور رونق حرمین پاک کے تقدس اور اس میں حاضری کے راستوں میں حائل نہ ہوسکی اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے فضل وکرم سے تسلسل کے ساتھ اُس کی بارگاہ میںحاضری کی سعادت حاصل ہوتی رہی۔ میریٹ ہوٹل میں سحری اور افطاری کا انتہائی معقول انتظام تھا۔ سحری اور افطاری کے موقع پر مختلف ممالک سے آنے والے بعض وفود سے بھی علیک سلیک کاموقع میسر آتا رہا۔ میریٹ ہوٹل کی کشادہ لابی میں انڈیا سے آنے والے وفد سے ملاقات کا موقع بھی میسر آیا۔ اس دورے میں دنیا بھر سے تقریباً 100 کے قریب مندوبین موجود تھے۔ یہ تمام کے تمام احباب اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری پر انتہائی مطمئن اور مسرور تھے اور ان کے چہروں کی چمک ان کے دلی جذبات کو بھانپنا کچھ مشکل نہ تھا۔
26 جون کی دوپہر کو نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد جب میں ہوٹل کے کمرے میں پہنچا تو فون پر مجھے اطلاع دی گئی کہ آج عصر کی نماز کے بعد سعودی عرب کے بعض اعلیٰ حکام سے ہماری ملاقات ہو گی۔ شام 5 بجے مذہبی امور کے ایڈوائزر اپنے ساتھیوں کے ہمراہ میریٹ ہوٹل میں موجود تھے۔ میریٹ ہوٹل میں ان کے ساتھ تفصیلی ملاقات ہوئی۔ پاکستان اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات کے حوالے سے بھی بھرپور انداز میں جذبات کا اظہار کیا گیا۔ اسی رات ساڑھے گیارہ بجے وفاقی وزیر مذہبی امور صالح بن عبدالعزیز آل شیخ نے بھی پاکستان کے سات رکنی وفد سے ملاقات کی۔ صالح بن عبدالعزیز نے سعودی عرب اور پاکستان کے باہمی تعلقات کی اہمیت پر نہایت احسن انداز سے روشنی ڈالی اور دونوں برادر اسلامی ممالک کے مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے نیک تمناؤں اور اچھے جذبات کا اظہار کیا انہوں نے اس موقع پر ہمارے ساتھ رویت ہلال کے شرعی اور تکنیکی پہلوؤں پر بھی تفصیلی تبادلۂ خیال کیا اور مختلف ممالک میں پائے جانے والے رویت کے اختلاف پر بھی سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ ملاقات کے بعد اندازہ ہوا صالح بن عبدالعزیز انتہائی متواضع اوربلند پایہ علمی شخصیت ہیں۔ ان سے نشست کرنے کے بعد دل و دماغ پر ان کی شخصیت کے نقوش بڑے گہرے انداز میں ثبت ہوگئے۔ اس ملاقات سے فارغ ہونے کے بعد ہمیں وزیر کے مکتب کے دوستوں نے اس بات سے آگاہ کیا کہ کل آپ کوظہر کی نماز کے بعد کلاک ٹاور کا مطالعاتی دورہ کروایا جائے گی۔ کلاک ٹاور دنیا کی تیسری بلندبلڈنگ اور دنیا کا سب سے اونچاکلاک ٹاور ہے ۔ کئی اعتبار سے یہ دنیا کی ایک منفرد عمارت او ر عجائبات عالم میں سے ایک ہے۔ 17 کلو میٹر کے فاصلے سے وقت بتانے والی بہت بڑی کلاک یقیناً دنیابھر کے انسانوں کی توجہات کا مرکز ہے۔ مکہ مکرمہ میں عمرے اور حج کی ادائیگی کے لیے آنے والا ہرشخص اس کلاک کو باہر سے دیکھتا ہے لیکن اس کلاک کو داخلی طور پر دیکھنا غیر معمولی دلچسپی اور حیرت کا باعث تھا۔
کلاک ٹاور پر جانے کی ہر شخص کو اجازت نہیں عموماً اس کواندرونی اور داخلی طور پر دیکھنے کے لیے سرکاری سطح پر بندوبست اور اہتمام کیا جاتا ہے۔ 76ویں منزل پر موجود4 منزلہ مربع شکل کا کلاک ٹاور یقیناً اپنے اندر بہت سی دلچسپیوں کو سموئے ہوئے تھا۔ کلاک ٹاور میں نصب گھڑی کی سوئیوں کی طوالت اور اس کے وزن کو دیکھ کر تمام مہمان حیران ا ور ششدہ رہ گئے۔ اس گھڑی کی مصوری اور حساسیت کا عالم یہ تھا کہ تین سو سالوں کے بعدفقط ایک سیکنڈ کی غلطی کھانے کے امکانات موجود تھے۔ کلاک ٹاور میں موجود کلاک مشین کی حساسیت اور نفاست کو دیکھ کر تمام کے تمام مہمان بہت متاثر ہوئے۔ کلاک ٹاور پر موجود گھڑی کے ساتھ ساتھ کلاک ٹاور میںقائم فلکیات کی دنیا کی بہت بڑی لیبارٹری اس گھڑی سے بھی کہیں زیادہ حیرت ناک تھی۔ خلاء اور فلکیات کی معلومات کو حاصل کرنے والی یہ لیبارٹری اونچائی کے اعتبار سے دنیا کے سب سے بلند مقام پر قائم کی جانے والی لیبارٹری ہے۔گھڑی کے ساتھ ساتھ اس لیبارٹری میں کیا کچھ دیکھنے کا موقع میسر آیا اس کو اگلے کالم میں قارئین کی نذر کیا جائے گا۔