گزشتہ کالم کے آخر میں‘ میں نے اس بات کا ذکر کیا تھا کہ 27جون کو ہمیں دنیا کی تیسری بڑی بلڈنگ یعنی کلاک ٹاور کو اندرونی طور پر دکھانے کا بندوبست کیا گیا ۔601 میٹر قامت کی یہ بلڈنگ کئی اعتبار سے غیر معمولی دلچسپیوں اور حیرت انگیز انکشافات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ کلاک ٹاور کی چھت سطح زمین سے 530 میٹر بلند اور اس کی چھت پر 71 میٹر اونچا مینار جس کے افق پر ایک انتہائی خوبصورت چاند ہے‘ کو نصب کیا گیا ہے۔ چاروں سمت سے نظر آنے والے کلاک کے دیو قامت چہرے 43 میٹر چوڑے اور 43 میٹر ہی لمبے ہیں۔ گھڑی پر لگی ہوئی سوئیوں کی لمبائی بھی غیر معمولی ہے۔ گھنٹوں کی سوئی کی لمبائی17 میٹر جب کہ منٹوں کی سوئی کی لمبائی 23 میٹر ہے۔ منٹوں کی سوئی کا وزن 8ٹن جب کہ گھنٹوں کی سوئی کا وزن 6 ٹن ہے۔ اس دیو قامت کلاک ٹاور کی تیاری پر 15ارب ڈالر کی لاگت آئی اور گھڑی کو چمکانے اور رات کے وقت اس کے وقت کی پہچان کروانے کے لیے کلاک ٹاور میں بیس لاکھ قمقموں کو نصب کیا گیا ہے۔ گھڑی کی طوالت اور اس کی مشینری کی حساسیت کو دیکھ کر جہاں پر انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے وہاں پر اس سے بھی زیادہ حیرانی کی کیفیت اُس وقت ہوتی ہے‘ جب فلکیات کی لیبارٹری میں موجود دوربینوں کے نتائج کو انسان اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔
فلکیات کی اس لیبارٹری میں اجرام سماویہ کے متعلق معلومات حاصل کرنے کے لیے بڑے بڑے ٹیلی سکوپس کو نصب کیا گیا ہے۔ یہ ٹیلی سکوپس کئی فٹ تک آگے اور پیچھے حرکت کرتے ہوئے آسمان کی تصاویر کو کھینچتے اور اس کی معلومات کو بڑی بڑی ایل سی ڈیز سکرین پر منتقل کرتے ہیں۔ سورج کی سطح کی تصاویر، چاند کی منازل کی تصاویر اوراسی طرح مختلف ستاروں کی
تصاویر کو باریکی سے لینے کے بعد ان کی وسعت کا مشاہدہ بھی ایل سی ڈیز سکرین پر کیا جاتا ہے۔ کئی فٹ تک حرکت کرنے والی حساس دور بینیں جب آسمان کی وسعتوں پرنظر ڈالتی ہیں تو اللہ تبارک وتعالیٰ کا بنایا ہوا آسمان اس قدر کشادہ اور وسیع نظر آتا ہے کہ فقط دو ملی میٹر کی حرکت کے اندر کئی لاکھ ستاروںکامشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ دو ملی میٹر کی اس حرکت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ا۔للہ تبارک وتعالیٰ کے بنائے ہوئے کہکشاں اور ستارے کس قدر انگنت اور بے شمار ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورۃ الذاریات کی آیت نمبر47 میں اس حقیقت کا بیان یوں فرمایاکہ '' ہم نے آسمان کو طاقت سے بنایا اور ہم اس کو پھیلا رہے ہیں۔‘‘اللہ تبارک وتعالیٰ نے کلام حمید میں ستاروں کے مقاصد تخلیق کا بھی ذکر کیا اور سورہ الحجر کی آیت نمبر16 میں ارشاد فرمایا کہ ہم نے آسمان دنیاکو قندیلوں سے مزین کر دیا اور دیکھنے والوں کے لیے انہیں خوبصورت بنایا دیا۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ انعام کی آیت نمبر97 میں اس بات کا بھی ذکر کیا وہ ذات وہ ہے جس نے ستاروں کو تمہارے لیے بنایا تاکہ خشکیوں اور تریوں کی تاریکیوں میںتمہاری رہنمائی کی جائے۔ اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الحجر میں اس بات کا ذکر کیا کہ اس نے ستاروں کو ہر شیطان لعین سے محفوظ فرمایامگر بعض شیاطین جو آسمان کی خبروں کو چرا کر زمین پر لانا چاہتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ شہاب ثاقب کے ذریعے انہیں ہلاک کر دیتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بنائی ہوئی کہکشاؤں اور ان میں موجود سورج، چاند اور ستاروں کی سطح اور گہرائی کے مناظر کو بڑی بڑی ایل سی ڈیز سکرینوں پر دیکھ کر یقینا اللہ تبارک وتعالیٰ کی کبریائی کا احساس دل ودماغ پر مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ یقینا کائنات کے خالق ومالک ہیں اور انہوں نے اتنی بڑی کائنات میں حضرت انسان کو جو منصب اور مقام عطا کیا ہے اس پراگر انسان ساری زندگی بھی اپنے خالق ومالک کے آستانے پر سجدۂ شکر میں پڑا رہے تو پھر بھی اس کے انعام وکرام کا حق ادا نہیں کر سکتا۔
فلکیات کی اس لیبارٹری میں جانے کے بعد اس بات کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہ تھا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بنائی ہوئی وسیع وعریض کائنات کئی ارب نوری سالوںتک پھیلی ہوئی ہے اور اس کی حقیقی وسعتوں کا علم صرف اس کے بنانے والے کے پاس ہے۔ مکہ ٹاور سے واپسی پر جہاں پر بلڈنگ کی دلکشی اور غیر معمولی طرز تعمیر نے ہمیں مسحور کیا ہوا تھا وہیں پر اس سے کہیں زیادہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی کبریائی اور اس کی قوت تخلیق نے دماغ کو متاثر کیا ہوا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کی کبریائی کے ان تصورات اور احساسات کولئے ہوئے جب واپسی ہوئی تو یوں محسوس ہوا کہ آگاہی اور شعور کا ایک نیا دروازہ کھل چکا ہے۔ انسان کئی مرتبہ مطالعے اور مشاہدے کے دوران اس بات کو محسوس کرتا ہے کہ اس نے بہت سی معلومات کو اپنے دماغ میں جمع کر لیا ہے۔ لیکن کوئی نیا مشاہدہ یا مطالعے کے ذریعے حاصل ہونے والی نئی معلومات سے انسان یہ محسوس کرتا ہے کہ ابھی علم آگاہی اور شعور کے بہت سے دروازے ایسے ہیں جن تک اس کی رسائی نہیں ہو سکی۔ اس لیے انسان کو ہر حال میںعلم، حکمت اور دانائی کے حصول کے لیے سر گرم عمل رہنا چاہیے اور کبھی بھی موجود علم پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے۔ کلاک ٹاور ہی کی چھت پر موجود بالکونی میں نماز عصر کی باجماعت ادائیگی کے بعد کلاک ٹاور سے واپسی ہو گئی۔ واپسی کے کئی گھنٹے بعد تک بھی کلاک ٹاور میں دورے کے دوران حاصل ہونے والی معلومات دماغ میں گھومتی رہیں۔ اسی رات نماز عشاء کے بعد ہوٹل کے کمرے میں موجود فون کی دوبارہ گھنٹی بجی۔ کاؤنٹر سے اطلاع موصول ہوئی کہ کل خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز دنیا بھر سے آئے ہوئے مہمانوں میں سے بعض منتخب مہمانوں کو قصر صفا میں افطاری پر مدعو کر رہے ہیں۔ ان منتخب مہمانوں کے وفد میںپاکستان کی طرف سے میرا نام بھی شامل تھا۔
خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن عبدالعزیز دو عظیم مسلمان رہنماؤں کے جانشین ہیں۔ شاہ فیصل بن عبدالعزیز کا سیاسی تدبر اور شاہ فہد بن عبدالعزیز کی دینی خدمات اورقرآن کی نشر واشاعت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ مرکز اسلام کے سربراہ سے ملاقات یقینا غیر معمولی دلچسپی کا سبب تھی۔ 28 جون کو عصر کی نمازکی ادائیگی کے بعد خادم الحرمین شریفین کی خصوصی ٹرانسپورٹ کے ذریعے مہمانوں کو قصرشاہی میں منتقل کیا گیا ۔شاہی محل کے مرکزی دروازے سے گزرنے مہمانوں کو شاہی محل کی بلند وبالا عمارت میں بڑے پرتپاک انداز میں داخل کیا گیا اور اس کے بعد
خادم الحرمین شریفین کے ڈرائنگ روم میں مہمانوں کو مختلف نشستوں پر بیٹھا دیا گیا۔ مغرب کی نماز سے کچھ ہی دیر پہلے خادم الحرمین شریفین اپنے ڈرائنگ روم میں تشریف لائے اور انہوں نے پُرتپاک انداز میں تمام مہمانوں سے ملاقات کی۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز اس سے قبل ایک مرتبہ پاکستان اس وقت تشریف لائے جب وہ سعودی عرب کے ولی عہد ہوتے تھے۔ ان کے اعزاز میں اسلام آباد میں ایک استقبالیہ کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں بھی مجھے شمولیت کا موقع ملا۔ لیکن حالیہ تقریب میں میں خادم الحرمین شریفین کو بہت قریب سے دیکھ رہا تھا اور شاہ فیصل اور شاہ فہد مرحوم کے اس جانشین اور مرکز اسلام کے اس سربراہ کے چہرے پر موجود عزم، ہمت ،بہادری اور گرمجوشی کا تجزیہ کر رہا تھا۔ ملاقات کے دوران ہی اذان مغرب کی صدا بلند ہوئی۔ حرم پاک سے متصل شاہی محل کا ایک بڑا کمرہ مصلے کے طور پر وقف کیا گیا تھا۔ اسی مصلے میں تمام مہمانوں نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ نماز ادا کی۔ پہلی صف میں مجھے بھی شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے قریب ہی نماز ادا کرنے کا موقع ملا۔ نماز کی ادائیگی کے بعد تمام مہمانوں کو شاہی محل کے ڈائیننگ ہال میں کھانے کی ٹیبلز پر مدعو کیا گیا۔ روایتی عربی کھانا ہر اعتبار سے انتہائی لذیز تھا اور کھانے کے ساتھ ساتھ کھانے کی میزوں پر موجود عرب مہمانوں کی گرمجوشی او ر تواضع ان کی روایتی مہمان داری کی پوری طرح عکاس تھی۔ کھانے کے خاتمے پر شاہ سلمان بن عبدالعزیز الوداعی گیٹ پر تشریف لے آئے اور انہوں نے فرداً فرداً تمام مہمانوں سے مصافحہ کیا۔ میں نے بھی گرمجوشی کے ساتھ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے ساتھ مصافحہ کیا اور شاہی محل میں کیے جانے والے پرتپاک استقبال کی یادوں کو لئے ہوئے ہوٹل واپس پلٹ آیا۔ ہوٹل پلٹنے کے بعد دوبارہ عبادات کا سلسلہ جاری وساری رہا۔ نمازوں،مناجات، دعاؤں اور استغفار کرتے کرتے واپسی کا دن آ گیا ۔ 30 تاریخ کو پاکستان واپسی تھی۔ واپسی کے سفر میں مکہ سے خادم الحرمین شریفین کی خصوصی ٹرانسپورٹ کے ذریعے ایک مرتبہ پھر ہمیں جدہ منتقل کیا گیا اور جدہ سے اڑنے والی پرواز بروقت 30تاریخ کی رات ساڑھے آٹھ بجے لاہور ائیرپورٹ پر اتر گئی اور یوں7 دن کا یہ مختصر دورہ مکمل ہو گیا۔زیارت کے دوران جہاں پر حرم پاک میں حاضری کا موقع میسر آیا وہیں پر سعودی عرب کے اعلیٰ حکام نے پاکستان کے بارے میں جن جذبات کا اظہار کیا ان کو بھی اپنے کانوں سے سننے کا موقع ملا ہے اور برادر اسلامی ممالک کے درمیان پائے جانے والی قربتوں کے احساس میں بھی مزید اضافہ ہوا۔دعا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ عالم اسلام کو متحد رکھے اور دونوں برادر اسلامی ممالک میں ہمیشہ محبت‘ اخوت اور رواداری کے رشتے قائم ودائم رہے۔ آمین ۔