"AIZ" (space) message & send to 7575

عالمی منظرنامہ

گزشتہ چند دنوں میں بین الاقوامی سطح پر بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے دنیا بھر کے انسانوں اور بالخصوص اُمت مسلمہ کی توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی۔ ان تمام واقعات کے حوالے سے اُمت مسلمہ میں خاصی تشویش پائی جا رہی ہے۔ اس سلسلے کی سب سے اہم خبر حرمین شریفین میں کی گئی دہشت گردی کی کو ششیں ہیں۔ مدینہ منورہ اور مکہ مکرمہ میں وہ دہشت گرد اپنی سازش میں کامیاب نہیں ہو سکے‘ لیکن ان کی ناپاک کوششوں نے ان کے گھناؤنے عزائم کو بے نقاب کر دیا ہے۔ آج سے قبل دہشت گرد مختلف پبلک مقامات مسجدوں، پولیس سٹیشن، ہسپتال و دیگر عمارتوں کو نشانہ بناتے رہے‘ لیکن مسجد حرام اور مسجد نبوی شریف کے حوالے سے اس بات کا تصور کرنا بہت مشکل تھا کہ دہشت گرد ان مقدس مقامات کی حرمت پامال کرنے میں بھی کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔ دنیا بھر کی بستیاں اور شہر ان کے مکینوں کے لیے خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ ہر وفادار شخص اپنے ملک اور قوم کا دفاع کرنا اپنی ذمہ داری سمجھتا ہے لیکن حرمین شریفین جیسے مقدس ترین مقامات کی حفاظت کرنا اور ان کے محفوظ رہنے کے لیے نیک تمناؤں کا اظہارکرنا‘ ہماری ملی اور دینی ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید میں مکہ مکرمہ کو اُم القریٰ یعنی بستیوں کی ماں قرار دیا ہے۔ بیٹیوں کی حرمت بھی بہت اہم ہوتی ہے لیکن ماں کی حرمت ان سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس لیے مکہ اور مدینہ کی بقا اور تحفظ تمام بلاد اسلامیہ سے کہیں زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی لیے حرمین شریفین کے تقدس کے خلاف ہونے والی سازشوں پر پوری اُمت مسلمہ سراپا احتجاج بن گئی۔ اس سلسلے میں لاہور میں بھی ایک اہم اجلاس کا انعقاد کیا گیا‘ جس میں پاکستان کی تمام جماعتوں کے نمائندگان نے شرکت کی۔ حافظ سعید، لیاقت بلوچ اور دیگر رہنماؤں نے اس واقعے کی بھرپور مذمت کی۔ اس موقع پر مجھے بھی اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع ملا۔ میں نے جن خیالات کا اظہار کیا‘ وہ قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں: 
امت مسلمہ کے درمیان فکری اختلافات ہو سکتے ہیں۔ اختلافات کا دائرہ کہیں کم اور کہیں زیادہ بھی ہو سکتا ہے لیکن جہاں پر حرمین شریفین کے تقدس کا مسئلہ ہو وہاں اُمت مسلمہ اپنے تمام اختلافات بھلا کر حرمین شریفین کے تقدس کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔ 1965ء میں سیالکوٹ اور لاہور کے دفاع کے لیے پاکستانی قوم نے بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کیا تھا‘ اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر حرمین شریفین کی حرمت کے لیے یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہم سب کا دینی اور ملی فریضہ ہے۔ ہم حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے اپنے تن من دھن کی قربانی دے کر بھی اس کی حفاظت کا حق ادا نہیں کر سکتے۔ 
حرمین شریفین کے خلاف ہونے والی سازشوں کے بعد اُمت مسلمہ کو کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بھی انتہائی گہری تشویش ہے۔ کشمیر کے مسلمان عرصہ ٔ دراز سے بھارتی مظالم اور جارحیت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ وادی ٔ کشمیر میں رہنے والوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ قیام پاکستان کے وقت کشمیر کے لوگوں کی غالب اکثریت پاکستان سے ملحق ہونا چاہتی تھی‘ لیکن ان کی منشا کے خلاف انہیں بھارت کا حصہ رہنے دیا گیا۔ بین الاقوامی سطح پر حقِ خود ارادیت کے مسئلے پر اتفاق ہو جانے کے باوجود کئی عشروں سے کشمیری عوام اپنے اس حق سے محروم ہیں۔ ترقی یافتہ اقوام جمہوریت، حریت فکر اور اقوام کی آرا کو بہت زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ اس سلسلے کی ایک اہم مثال یہ ہے کہ ماضی قریب میں برطانیہ نے سکاٹ لینڈ کے حوالے سے استصواب رائے کا اہتمام کیا اور برطانیہ سے ملحق رہنے کا فیصلہ مکمل طور پر سکاٹ لینڈ عوام پر چھوڑ دیا گیا۔ اگر سکاٹ لینڈ میں رہنے والے باشندوں کی رائے کا احترام کیا جا سکتا ہے‘ تو مظلوم کشمیری عوام کے بہتے ہوئے لہو کا بھی پاس ہونا چاہیے۔ حال ہی میں بھارت نے مسلمان رہنما برہان وانی کو بے دردی سے شہید کر دیا‘ اور ان کے بہیمانہ قتل کے بعد ہونے والے ردعمل کو غیر انسانی طریقوں سے کچلنا شروع کر دیا۔ اس حوالے سے اُمت مسلمہ اور بالخصوص پاکستانی قوم میں زبردست تشویش پائی جاتی ہے۔ اس تشویش کے اظہار کے لیے ملک بھر میں جلسوں اور ریلیوںکا اہتمام کیا گیا۔ جمعتہ المبارک کے روز جہاں دیگر دینی جماعتوں نے کشمیری عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے اجتماعات کا انعقاد کیا‘ وہاں میں نے بھی لارنس روڈ پر ایک جلوس کا اہتمام کیا۔ جلوس کے شرکا نے کشمیر میں ہونے والے مظالم پر زبردست غم و غصے کا اظہار کیا اور حکومت وقت سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ حکومت کو کشمیر میں ہونے والے مظالم کو رکوانے کے لیے نمایاںکردار ادا کرنا چاہیے۔ 
حکومت پاکستان کو کشمیر کے حوالے سے واضح لائحہ عمل اپنانا چاہیے تاکہ کشمیر میں ہونے والے ظلم کا سدباب ہو سکے اور کشمیری عوام کو ان کا بنیادی حق یعنی حق خود ارادیت حاصل ہو سکے۔ حکومت پاکستان نے قومی سطح پر کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کا دن منانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ یقینا خوش آئند ہے‘ لیکن حکومت کو اس اعلان سے کہیں بڑھ کر کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنا چاہیے‘ اور کشمیر کے مقدمے کو عالمی سطح پر لڑنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دہشت گردی کے خلاف حکومت پاکستان اور دیگر مسلمان حکومتیں اپنی ترجیحات اور حکمت عملی کا تعین کرتی رہتی ہیں۔ عوامی سطح پر ہونے والی دہشت گردی یقینا ہر اعتبار سے قابل مذمت ہے لیکن عرصہ دراز سے اس بات کو محسوس کیا جا رہا ہے کہ مظلوم فلسطینی عوام پر کیے جانے والے اسرائیلی مظالم اور مظلوم کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے بھارتی مظالم کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگر عوامی دہشت گردی قابل مذمت ہے تو یقینا ریاستی دہشت گردی کی تمام اقسام کی بھی بھرپور طریقے سے مذمت ہونی چاہیے اور پُرامن مطالبات اور احتجاج کو زبردستی روکنے کی بجائے عوام کو ان کی بنیادی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ 
مسئلہ کشمیر کے ساتھ ساتھ ترکی کی صورتحال بھی عوامی توجہ کا مرکز ہے۔ ترک رہنما طیب اردغان نے ہمیشہ اُمت مسلمہ کے جذبات کی نمائندگی کی‘ اور اُمت کو درپیش مسائل کے حوالے سے نمایاںکردار ادا کیا۔ حسینہ واجد کے غیر آئینی اقدامات کی بھی طیب اردغان نے بھرپور طریقے سے مذمت کی تھی۔ ترک رہنما اپنی عوام اور مسلمان دوست پالیسیوں کی وجہ سے اپنے ملک اور دیگر مسلمان ممالک میں احترام اور پسندیدگی کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت کو کسی بھی اعتبار سے اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جا رہا اور عوام الناس میں اس بات کا تاثر عام ہے کہ بعض مغربی طاقتیں عرصۂ دراز سے ابھرتی ہوئی مسلمان قوتوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتی ہیں اور ان کا مقصد مسلمان کی سیاسی قوت کو کمزور کرنے کے سوا کچھ بھی نہیںہوتا۔ مسلمانانِ عالم طیب اردغان کو اپنے عہدے پر براجمان دیکھنا چاہتے ہیں اور ان کے خلاف کیے جانے والے جمہوریت دشمن اقدامات کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ طیب اردغان کی اپیل پر انقرہ میں ہزاروں کی تعداد میں عوام نے جمع ہو کر ان پر اعتماد اور ان کے خلاف تمام سازشوں کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ ہم توقع کرتے ہیں کہ ترکی کے عوام کے اعتماد کے ظاہر ہو جانے کے بعد ان کے خلاف غیر آئینی اقدامات اور سازشوں کو ترک کرکے ان کی آئینی حکومت کو تسلیم کیا جائے گا۔ 
چوتھی خبر جس نے مسلمان کو تشویش میں مبتلا کر دیا وہ برصغیر کے مشہور اور نامور مبلغ ڈاکٹر ذاکرنائیک کے خلاف ہونے والی سازشیں ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک علم، استدلال، خطابت اور دلائل کے اعتبار سے برصغیر کے ممتاز سکالر ہیں جن کی دعوت کی وجہ سے پچاس ہزار غیر مسلم تاحال حلقۂ بگوش اسلام ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے اپنی دعوت اور خطاب کے دوران کبھی تشدد کا راستہ اختیار نہیں کیا۔ وہ دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی جاتے ہیں علمی اور فکری انداز میں اپنی تقریر کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ڈاکٹر ذاکر پر لگنے والے الزامات ہر اعتبار سے کمزور اور بے بنیاد ہیں۔ کسی بھی شخص کے سوشل میڈیا پر پیج کو لائک کرنے کی وجہ سے اس شخص کے روابط کو دہشت گردوں کے ساتھ جوڑنا کسی بھی اعتبار سے قابل قبول نہیں ہے۔ بھارت کا ہمیشہ سے دعویٰ رہا ہے کہ وہ ایک سیکولر ریاست ہے اور اپنے ملک میں بسنے والے تمام باشندوں کے حقوق کا یکساں احترام کرتا ہے‘ لیکن ڈاکٹر ذاکر کے خلاف ہونے والے حالیہ الزامات اور ان کے کیے جانے والے میڈیا ٹرائل کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ بات کھل کر سامنے آ گئی ہے کہ انڈیا مسلمانوں کے خلاف جانبداری اور ناانصافی کی پالیسیوں پر گامزن ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے کیے جانے والے سلوک پر پوری اُمت مسلمہ کے ساتھ ساتھ پاکستانی مسلمانوں کو بھی تشویش ہے اور پاکستانی عوام چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کی علمی اور فکری طور پر نمائندگی کرنے والے اس عظیم مبلغ اور دانشور کی ذات پر کسی بھی قسم کا حرف نہیں آنا چاہیے اور ہم اس بات کی بھی امید رکھتے ہیں کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک اپنے خلاف لگائے جانے والے الزامات کو آئینی، قانونی اور علمی طریقے سے غلط ثابت کریں گے اور ان کے خلاف سازشیں کرنے والے ناکام اور نامراد رہیں گے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں