سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے اہم احکامات اور نصیحت آموز باتوں کا ذکر فرمایا ہے۔تیسرا اور چوتھارکوع بہت سی ایسی نصیحتوں پر مشتمل ہے جن پر عمل پیرا ہو کر انسان دنیا وآخرت کی سربلندی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ اگر انسان ان آیات میں مذکور احکامات پر عمل پیرا ہو جائے تو وہ اللہ کی قربت حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہو سکتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل کی ان آیات میں جن اہم احکامات کا ذکر کیا میں ان کو قارئین کی نظر کرنا چاہتا ہوں:
1۔تنہا اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر22 میں ارشاد فرمایا کہ '' اللہ تبارک وتعالیٰ کے ساتھ کسی ا ور کو معبود نہ ٹھہرا۔ آخرش تو بے حال اور بے کس ہو کر بیٹھا رہے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تبارک وتعالیٰ کے سوا کسی اور کی عبادت اور بندگی کرنے کی کوشش کی جائے گی انسان کی بے کسی اور بد حالی کسی بھی طور پر دور نہیں ہو سکتی۔
2۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک: سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر23 ،24میں ارشاد ہوا ''اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور والدین کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان سے ایک یا یہ دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب اور احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار ان پر ویسے ہی رحم کر جیسا کہ انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔‘‘ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دے کر اس اہم بات کی طرف انسان کی توجہ مبذول کروائی کہ وہ والدین جو زندگی کی ابتداء سے لے کر آخری لمحات تک انسان کے کام آتے ہیںوہ یقینا اس بات کے مستحق ہیں کہ ان سے ہر اعتبار سے حسن سلوک کیا جائے اور ان کے ادب ‘ احترام اور حقوق کی ادائیگی میں کسی بھی قسم کی کوتاہی نہ کی جائے۔
3۔رشتے داروں، مساکین اور مسافروں کے ساتھ حسن سلوک: اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر26 میںارشاد فرمایا ''اور رشتہ داروں، مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرتے رہو۔‘‘رشتہ دار ، مساکین اور مسافر ہماری توجہ کے مستحق ہوتے ہیں بہت سے لوگ اپنے معاملات میں مشغول ہو کر ان کے حقوق کی ادائیگی میں غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کو توجہ دلا رہے ہیں کہ والدین کے ساتھ ساتھ رشتہ دار، مساکین اور مسافر وں کے ساتھ بھی حسن سلوک کو برقرار رکھنا چاہیے۔
4۔ اسراف اور بے جا خرچ سے بچنے کی تلقین: سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر26 اور 27 میں ارشاد ہوا '' اور اسراف اور بے جا خرچ سے بچو‘ بے جاخرچ کرنے والے شیطان کے بھائی ہیںاور شیطان اپنے پروردگار کا بڑا ہی نا شکرا ہے۔‘‘ان آیات میں انسان کی توجہ کو اس سمت مبذول کروایا گیا کہ اس کو اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے عطا کر دہ رزق کی قدر کرنی چاہیے اور اس کے ضیاع اور بے جا خرچ سے بچنا چاہیے۔
5 ۔ اخراجات میں توازن: اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس طرح اسراف اور بے جا خرچ کی مذمت کی اسی طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسی سورت میں اخراجات کو متوازن رکھنے کی بھی تلقین کی ۔ چنانچہ اس سورت کی آیت نمبر29 میں ارشاد ہوا''اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ اسے بالکل ہی کھول دے کہ پھر ملامت یا درماندہ ہوا بیٹھا جائے۔‘‘ یعنی انسان کو نہ تو فضول خرچی سے کام لینا چاہیے اور نہ ہی بخل سے کام لینا چاہیے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے عطاء کردہ مال کو ضرورت کی جگہوں پر خرچ کرتے رہنا چاہیے اور والدین اور قرابت داروں کے حقوق کو بھی احسن طریقے سے ادا کرتے رہنا چاہیے۔
6 ۔ اولاد کے قتل کی مذمت: زمانہ ٔ جاہلیت میں لوگ اپنی اولادوں کو قتل کر دیا کرتے تھے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان کے اس قبیح اور غیر انسانی فعل کی متعدد مقامات پر مذمت کی ہے۔اس سورت کی آیت نمبر31 میں ارشاد ہوا ''اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو نہ مارڈالو‘ ان کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں یقینا ان کا قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔‘‘
7 ۔ بدکرداری سے اجتناب: زنا کاری بہت ہی قابل مذمت گناہ ہے ۔ اس کے نتیجے میں انسان جہاں اخلاقی بے راہ روی کا شکار ہوتا ہے وہیں پر اس کے نتیجے میں معاشرے میں فساد،قتل وغارت گری اور انتشار بھی پھیلتا ہے۔ اس سورت کی آیت نمبر32میں اہل ایمان کو متنبہ کیا گیاکہ ''خبردار زنا کے قریب بھی نہ پھٹکنا کیونکہ بڑی بے حیائی اور بہت ہی بری راہ ہے۔ ‘‘
8 ۔ ناحق قتل کی مذمت: انسان کی جان کا احترام دوسرے انسان کے لیے ناگزیر ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جہاں پر سورہ نساء میں مومن کے قتل کی مذمت کی ہے وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ مائدہ میں ہر انسان کے قتل کی مذمت کی ہے۔ اس سورہ کی آیت نمبر33 میں اللہ تبارک وتعالیٰ ارشادہوا ''اور کسی جان کو مارنا جس کا مارنا اللہ تبارک وتعالیٰ نے حرام کر دیا ہے ہر گز نہ حق قتل نہ کرنا ۔‘‘
9 ۔ یتیم کے مال کو کھانے کی مذمت: بعض لوگ یتیموں اور بیواؤں کے مال کو مال مفت سمجھ کر ہڑپ کر لیتے ہیں اللہ تبارک وتعالیٰ اس سورت میں یتیم کے مال کی قدرومنزلت اور توقیر کرنے کا حکم دیا ہے اوراللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں '' اور یتیم کے مال کے قریب بھی نہ جاؤ۔ بجز اس طریقے کے جو بہت ہی بہترہو یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کو پہنچ جائے۔‘‘ یعنی انسان اگر ان کی کفالت کرنے کے دوران اگر محتاجی کی وجہ سے کچھ کھال لیتا ہے تو اس کو ایسا کرنے کی اجازت ہے تاہم کوئی شخص غنی ہو تو اس کو کسی بھی طور پر یتیم کے مال کو نہیں کھانا چاہیے۔
10 ۔ ایفائے عہد کی تلقین: ایفائے عہد کسی بھی انسان کے اچھے کردار کی نشاندہی کرتا ہے جو لوگ اپنے واعدوں کو پورا کرتے ہیں ایسے لوگ یقینا ہر اعتبار سے قابل تحسین ہیں اور جو لوگ اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہیں ایسے لوگ جہاں پر دنیا میںقابل مذمت ہیں وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے بھی ان کی مذمت کی ہے ۔ اس سورت کی آیت نمبر 34 میں وعدے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ''اور وعدے پورے کرو کیونکہ قول و قرار کی باز پرس ہونے والی ہے۔ ‘‘
11۔ دیانت کی تلقین: کاروبار ی امور کو احسن طریقے سے انجام دینا ہر اعتبار سے قابل ستائش ہے جس کے لین دین کا معاملہ بہتر ہو وہ شخص یقینا بہترین انسان ہوتا ہے۔ قوم ِشعیب کے لوگوں میں یہ برائی موجود تھی چنانچہ وہ اللہ تبارک وتعالیٰ کے غضب کا نشانہ بنے۔ اس سورہ کی آیت نمبر35 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا'' اور جب ماپنے لگو تو بھر پور پیمانے سے ماپو اور سیدھی ترازو سے تولا کرو۔ یہی بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت اچھا ہے۔ ‘‘
12۔بغیر تحقیق بات کرنے کی مذمت: عصری معاشروں میں ایک برائی بہت عام ہو چکی ہے کہ لوگ سنی سنائی بات کو آگے پہنچانا شروع کر دیتے ہیں اور تحقیق کرنے کے بعد کئی مرتبہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس انسان یا گروہ کے بارے میںبری بات کی جا رہی ہے اس میں وہ بری خصلت سرے سے نہیں پائی جاتی ۔ اس سورت میںبلا تحقیق بات کرنے کی مذمت کی ہے۔ چنانچہ آیت نمبر36میں ارشاد فرمایا '' جس بات کی تجھے خبر نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑ۔ کیونکہ کان، آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک کی پوچھ گچھ کی جانے والی ہے۔ ‘‘
13 ۔ میانہ روی کی چال چلنا: بعض لوگ زمین پر اکڑ کر چلتے ہیں اور اپنی چال کے ذریعے دوسروں کی تحقیر کرتے ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺنے مسلمانوں کو عاجزی حکم دیا ہے اور اس سورت کی آیت نمبر37 میں ارشاد فرمایا '' اور زمین میں اکڑ کر نہ چل نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ لمبائی میں پہاڑوںکو پہنچ سکتا ہے۔‘‘ اس کے بعد 38 نمبر آیت میں اللہ ارشاد فرماتے ہیں ان سب کاموں کی برائی تیرے رب کی نزدیک سخت نا پسند ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ کے کلام میں جہاں عقائد اورعبادت پر زور دیا گیا وہیں پر معاملات کی اصلاح کے حوالے سے بھی بہت سی نصیحت آموز باتیں کی گئیں۔ سورت بنی اسرائیل کی ان آیت کو اگر پیش نگاہ رکھا جائے تو یقینا دنیا اور آخرت کی سربلندی سے ہمکنار ہوا جا سکتا ہے اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں صحیح معنوں میں قرآن مجید کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق دے۔ آمین۔