علم، شعور اور خلوص اللہ تبارک وتعالیٰ کی عطاء کردہ تین ایسی نعمتیں ہیں جن کی وجہ سے انسان کی فکر و عمل میں حسن اور کمال پیدا ہوتا ہے۔ علم اور شعور انسان کی نظریاتی کجی کو دور کرتے ہیں اور خلوص کی برکت سے انسان کے اعمال کی اصلاح ہوتی ہے۔ اگر انسان با شعور ہو اور علم کی نعمت سے بہرہ ور نہ ہو تو وہ اپنی عقل وفکر کے ذریعے صحیح راستے کا تعین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش کے باوجود فقط شعور اورعقل کے ذریعے منتخب کردہ راستے کا درست ہونا ضروری نہیں ہوتا۔ شعوری جستجو کے نتیجے میں کچھ معاملات میں انسان کی فکر درست اورکچھ معاملات میں تشنگی اور کمزوری کا شکار ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اگرانسان کے پاس نعمت ِعلم موجود ہو لیکن وہ شعور اورعقل کی نعمت سے صحیح طور پر بہرہ ور نہ ہو تو کئی مرتبہ ٹھوکر لگنے کے امکانات ہو تے ہیں۔ علم اور شعور کی نعمتوں کے حصول کے بعد جب انسان درست راستے کا تعین کر لیتا ہے تو اس کے بعداس کا خلوص اس کودرست راستے پر چلنے پر آمادہ کرتا ہے۔ علم اور شعور کی کمی کی وجہ سے کئی مرتبہ انسان فکر اور عمل کی مختلف راہوں پر چل نکلتے ہیںاور ان کی کمی کی وجہ سے کئی مرتبہ معاشر ے میں بہت سی ایسی بحثوں کا بھی آغاز ہو جاتا ہے جن کی وجہ سے معاشرے کے مختلف طبقات میں ایک تناؤ اور کھچاؤ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ ہر فریق اپنی اپنی فکر اور سوچ کو اپنے تئیں درست سمجھتا اور دوسرے کی فکر اورنظریات کو ناقص خیال کرتا ہے ۔علم اور شعور کی روشنی میں جب معاملات کا تجزیہ کیا جاتا ہے تو حقیقت حال کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں انسانی کامیابی کے حوالے سے بھی عام طور پر ایک بحث دینی اور غیر دینی طبقات کے درمیان جاری وساری رہتی ہے ۔دینی طبقات کے لوگ بالعموم حقوق اللہ، ارکان اسلام، فکر آخرت اور اللہ تبارک وتعالیٰ کے سامنے جوابدہی کا درس دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بہت سے زیرک علماء حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ والدین ، بہن بھائیوں ، بیوی بچوں ، ہمسائیوں ، شہریوں اور حکام کے حقوق کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی بھی جاتی ہے اور ان موضوعات پر لکھا بھی جاتا ہے۔ اس کے مدمقابل عصری تعلیم حاصل کرنے والا ایک بڑا طبقہ خدمت خلق، دوسروں کے کام آنے، انسانوں کے دکھ درد بانٹنا، ،بیمار پرسی کر لینے، ہسپتالوںاور خیراتی کوقائم کر نے جیسے اعمال کو انسان کی کامیابی کے لیے کافی سمجھتے ہوئے ان کی اہمیت اور افادیت پر زور دیتا ہے۔ اس طبقے کی بڑی تعداد انسانوں کی کامیابی کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی عبادت ، ارکان اسلام اور دیگر معاملات کو اتنی اہمیت نہیں دیتی جتنی اہمیت مذہبی طبقات کے یہاں پر نظر آتی ہے۔ اس معاملے میں متوازن اور درست موقف کو اپنانے کے لیے افراط وتفریط سے بچنا بہت ضروری ہے۔ سورہ الذاریات کی آیت نمبر 56کے مطالعے کے بعد اس حقیقت کو سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت اور اپنی پوجا کے لیے بنایا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیاء علیہم السلام کے ذریعے اپنی عبادت اورپرستش کے راستوں کا تعین فرمایااور حضرت رسول اللہ ﷺپراپنی آخری شریعت کا نزول فرما کر اپنی بندگی اور پوجا کے تمام راستوں کو واضح فرما دیا۔
ارکان اسلام کی افادیت ہر اعتبار سے واضح ہے لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے ساتھ ساتھ اپنی مقدس کتاب اور حضرت رسول اللہ ﷺنے اپنی احادیث مبارکہ میں انسانوں کے حقوق پر بھی سیر حاصل گفتگو کی اور والدین ، قرابت داروں، ہمسایوں اور دیگر انسانوں کے حقوق کے حوالے سے جو نصیحتیں فرمائیں ان کا متبادل دنیا کی کسی بھی اخلاقی دستاویز میں میسر نہیں۔ اہل مغرب نے اپنے سماج کی بنیاد انسانی حقوق پر رکھی ہے ۔ انسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے سماجی انصاف کا نظام بھی متعارف کروایا گیا جس کے تحت بیماروں کے علاج ، غریبوں کے لیے رہائشیں ، ان کے کھانے پینے کا بندوبست اور بوڑھوں کے لیے اولڈ ہاؤسز قائم کیے گئے۔ بظاہر یہ تمام اعمال انتہائی خوش نما ہیں اور فی الحقیقت ان تمام ضروریات کو پورا کرنا ایک فلاحی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس نظام میں یہ سقم ہے کہ اس نظام نے انسان کی تنہائی ، اس کی روح کی تشنگی ، اس کے احساسات اور جذبات کے خلاء کو پر کرنے کے لیے کوئی واضح نظام وضع نہیں کیاگیا۔ اولڈ ہاؤسز میں بوڑھے افراد کی وقت گزاری اور ان کی جسمانی ضروریات کو پورا کرنے کا بندوبست تو احسن طریقے سے موجود ہوتا ہے لیکن بچوں کی موجودگی اور رشتہ داروں کی قربت اورجڑاؤ کی وہ طبعی ضرورت جو ہر انسان کو نفسیاتی طور پر ہوتی ہے اس کو پوراکرنے کا بندوبست ان اولڈ ہاؤسز میںسرے سے ہی موجود نہیں ہوتا۔ اسی طرح بیماروں کے جسمانی علاج کے لیے تو بھرپور طور پر اہتمام کیا جاتا ہے لیکن بیمار کو اپنی بیماری کے دوران جس نفسیاتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان کی علاج گاہوں میں میسر نہیں ہوتا۔ کمزوری اور پریشانی کے دوران بیوی کے دلاسے، بچوں کے پیارے بول اور والدین کے پرشفقت ہاتھ اور دعاؤںکی ضرورت ہوتی ہے۔ان ضروریات کو پورا کرنے کا اہتمام ان معاشروں میں موجود نہیں ہے۔ عصری معاشروں کے پڑھے لکھے افراد مغرب کی تعلیم، ترقی اور نظام سے بہت متاثر ہیں اور اپنے معاشرے کی بہت سی کمزوریوں پر نالاں نظر آتے ہیں۔ یقینا ہمارے معاشرے میں بہت سی کمزوریوں کو دور کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس کے باوجود بڑھاپے میں والدین کی خدمت کرنا، اولاد کی آخری عمر تک تربیت اور ضروریات کو پورا کرنے کا اہتمام کرنا، غریب اور نادار بہن بھائیوں کے کام آنے کی جستجو کرنا ہمارے معاشرے کی وہ روایات ہیں جن کا مقابلہ اہل مغرب اپنی تمام تر سائنسی اور فنی ترقی کے باوجود نہیں کرسکتے۔
انسان کوحقیقی کامیابی حاصل کرنے کے لیے اس نکتے کو بھی اپنے دل میں جگہ دینی چاہیے کہ انسان فنا کے گھاٹ اترنے والا ہے اوراُ س کا قیام اس زمین پر عارضی ہے۔ اس زمین سے چلے جانے کے بعد اس کو اپنے اعمال کے لیے اپنے مالک حقیقی کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گا۔اللہ تبارک وتعالیٰ جو انسانوں کا خالق ومالک ہے اس نے انسانوں کو پکڑنے والے ہاتھ، سننے والے کان، چلنے والے قدم، دیکھنے والی آنکھیں، دھڑکتا ہوا دل اورسوچنے والا دماغ دیا ۔کیا اس پروردگار حقیقی کا اتنا حق نہیں کہ اس کی بندگی، اس کی عبادت اور اس کی طرف سے عائدکردہ فرائض اور واجبات کی ادائیگی کے لیے انسان دنیا کے تقاضوں کوپورا کرنے کے ساتھ ساتھ مناسب وقت نکالتا رہے۔ انسانوں کو یقینا دوسرے انسانوں کے کام آنا چاہیے لیکن اپنے خالق ومالک کی عنایات اور اس کے احسانات کو کسی بھی طور پر فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ حقیقی کامیابی حاصل کرنے کے لیے انسان کو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان توازن کو قائم رکھنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔ جو انسان حقوق اللہ اور حقوق العباد کے درمیان توازن کو قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یقینا وہ ایک مثالی انسان ہے۔ لیکن ایسا انسان جو حقوق العباد کو یکسر نظر انداز کرکے فقط ارکان اسلام کی بجاآوری کے ذریعے اخروی کامیابی حاصل کرنے کاطلب گار ہے فکری اعتبار سے درست راستے پر نہیں ہے۔ اسی طرح وہ انسان جو اللہ تبارک وتعالیٰ کے حقوق کو یکسر نظر انداز کرکے فقط انسانیت کے دکھ درد بانٹ کر اخروی کامیابیاں حاصل کرنے کا متمنی ہے تو اس کو بھی اپنی فکر کی اصلاح کی ضرورت ہے۔اس فکر کی اصلاح کے لیے جہاں پر شعور کی پختگی کی ضرورت ہے وہاں پر مناسب دینی علم کی بھی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے معاشرے کے افراد علم اورشعور کی روشنی سے صحیح معنوں میں بہرہ ور ہوناشروع جائیں تو معاشرہ افراط وتفریط سے نکل کر درست راستے پر چل سکتا ہے اور دنیا وآخرت کی حقیقی کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔